بچوں کا"لڑنا، جھگڑنا ، چیخنا اور بدتمیزی کرنا" گھر میں ہو یا کلاس روم
میں ہو کسی طور پر بھی کو پسند نہیں ہوتا ہے۔ یہ سب ردعمل غصے کے جذبے کے
نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں ۔ غصہ آنا ایک فطری جذبہ ہے اور انسان کی نشوونما
کا ایک اہم جذبہ ہے ۔
اس غصے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ، اسکی بات کو سمجھا /اہمیت نہ دی جائے ،
کام میں ناکامی ، کام کا مشکل ہونا، ناپسندیدہ ماحول ، سابقہ لرنینگ اور
کوئی گھریلو/سکول کی پریشانی/سٹریس۔ اس کی جو بھی وجہ ہو اس جذبے پر کام
کرنا ضروری ہے ۔ اگر بچپن میں اس جذبے کا مثبت طریقے سے اظہار کرنا نہ
سکھایا جائے تو پھر اس غصے کی وجہ سے مستقبل میں اس شخص کو کافی نقصان کا
سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے معاشرے کے ساتھ مطابقت میں کافی دشواریاں
پیش آتی ہیں ۔
ہم اب کچھ ایسی اسٹرٹیجیز(strategies) کے بارے میں بات کرتے ہیں ۔ جس سے ہم
بچوں میں کافی حد تک غصے کو چینلآیز(channelize) کر سکتے ہیں ۔
- بچے کے ساتھ اس کے مختلف جذبات کے بارے میں بات کریں اور اسکے اندرونی
احساسات کو الفاظ میں ڈھالیں تاکہ وہ اپنے جذبات کو جان سکے ۔ اسکے لیے
تصاویر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس سے وہ اپنے جذبات کو پہچان سکے گا
اس کے ساتھ والدین/استاذہ مختلف مثالوں کے زریعے بچوں کو اپنے جذبات کا
اظہار سکھایا جا سکتا ہے ۔ بچوں کی کہانیاں سنا کر بھی ہم سوال وجواب کر کے
بہتر طریقے سے متعارف کروایا جا سکتا ہے ۔ مثلاً ہم بچوں سے تصاویر کے
زریعے ان میں غصے میں پیدا ہونے والے احساسات کو سمجھ کر انکو اسکا حل
بتایا جاسکتا ہے -
- - جب بچے غصے کا اظہار کر رہے ہوں جیسے چیخنا وغیرہ اس وقت اپنے جذبات کو
کنٹرول میں رکھیں یعنی آپ غصہ نہ کریں کیونکہ بچے عمومی طور پر آپ کو کاپی
کرتے ہیں اور اگر آپ بھی اس وقت چیخیں و چلائیں گے تو پھر کسی طور پر بھی
سچویشن کو سنبھال نہیں سکیں گے۔ غصے میں بحث یا سمجھانے کا کوئی فائیدہ
نہیں بلکہ اسکا الٹا اثر ہوتا ہے کیونکہ اس وقت انسان کا زہن سوچ اور سمجھ
نہیں پاتا ۔
- - والدین/استاذہ اپنے تجربات کو بچوں کے ساتھ شیئر(share) کریں جہاں
انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار اچھے طریقے سے کیا تاکہ بچوں کے پاس ایسے
اقدامات سیکھ سکیں گے جو کہ وہ وقت آنے پر استعمال کر سکتے ہیں-
اپنے تجربات کو شیئر کرنے سے بچوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری آتی ہے کیونکہ
بچے اپنے آپکو والدین اور اساتذہ کے ساتھ زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں کہ یہ
بھی ہماری طرح جذبات محسوس کرتے ہیں اور بچے آپ کے ساتھ بات چیت میں رکاوٹ
محسوس نہیں کرتے ہیں ۔
- - بچوں کو شاباش دیں اور سراہیں جب وہ غصے میں اپنے احساسات کو بہتر
طریقے سے اظہار کریں۔ اس سے بچوں میں مثبت ردعمل کو تقویت ملے گی ۔
- - بچوں کو سکون کی حالت میں رہنے کے لیے مختلف سنسری مشقیں(sensory
exercises) کروا سکتے ہیں جیسے چکنی مٹی اور ریت سے چیزیں بنانا ، سٹریس
بال وغیرہ یعنی جب وہ اسٹریس میں ہوں تو ان سے وہ اپنے جذبات کا رخ تبدیل
کر سکتے ہیں ۔
- - بچوں کے لیے کلاس/گھر میں ایسا کارنر بنانا چاہیے جہاں پر ایسی چیزیں
ہوں ۔ جس سے وہ اپنے آپ کو سکون کی حالت میں لا سکیں جیسے کلرننگ ورک شیٹس
، تصویری کتاب جس میں ایسی تصاویر ہوں جس سے بچے میں سکون آیے مثلآ خوبصورت
سینری اور بچے کی پسندیدہ تصاویر شامل ہوسکتی ہیں ۔
- - بچوں کو گہرے سانس(deep breath) کی مشق کروائیں ۔ "سانس کو ناک کے
زریعے اندر لے کر جانا اور کچھ دیر اسکو روکیں اور پھر آہستہ آہستہ منہ سے
باہر نکالیں " اس سے ہمارے ہارمونز میں باقاعدگی آ تی ہے ۔ ہم اسکو کھیل کے
زریعے بھی سکھا سکتے ہیں مثلاً ایک بوتل میں پانی ڈالیں اور اسکو زور سے
ہلائیں تاکہ اس میں ببلز بن جائیں۔ بچے کو بتایا جائے کہ یہ آپ کی غصے کی
حالت ہے اور جیسے ہی آپ گہرے لمبے سانس لیں گے تو جس طرح تھوڑی دیر پانی کی
بوتل کو میز پر رکھیں تو پانی میں بھی ببلزختم ہو جاتے ہیں اسی طرح گہرے
سانس لینے سے آپ میں غصہ ختم ہو جائے گااور آپ میں سکون آجانے گا۔ ہم بچوں
کو "رکنا، گہرے سانس لینا اور پھر سوچنا " کی تکینک سکھا سکتے ہیں یعنی جب
بچے غصے میں ہوں تو وہ اپنے آپ کو روکیں ، گہرے سانس لیں اور پھر سوچیں
تاکہ دماغ کی فنکشننگ کسی حد تک نارمل ہو جائے ۔
- - غصہ دلوانے والے عوامل کو پہلے سے کنٹرول کرنے کی کوشش کریں، جیسے بچوں
کو وہاں سے ہٹا دیں اور بچوں کو فزیکل بریکس(physical breaks) ضرور دیں اس
سے ان کی توجہ اور انرجی کا مرکز بدل جاتا ہے ۔
- - بچوں کو چلینج دیں تاکہ وہ ان اسٹرٹیجیز(strategies) کو استعمال کر
سکیں ۔ ان کی کوشش کو سراہیں اس طرح سے ان میں خود اعتمادی آئے گی۔
- - احادیث کے زریعے اور اسلامی قصوں سے بھی بچوں میں مثبت ردعمل کو تقویت
دی جاسکتی ہے اس سے نہ صرف ان میں اسلامی روایات فروغ ہونے کے ساتھ غصے کو
چیلنآیز کیا جاسکتا ہے ۔
اوپر دی گئی چھوٹی چھوٹی تدابیر سے کافی حد تک بچے اپنے جذبات کا بہتر
اظہار کرنا سیکھ جاتے ہیں جو کہ ان کی شخصیت کی تعمیر میں بہت ضروری ہے ۔
|