اکتوبر 2023 کے آخر میں چین کی مرکزی مالیاتی امور
کانفرنس میں "مالیاتی پاور ہاؤس کی تعمیر" کا تصور پہلی بار پیش کیا گیا
تھا ، جس نے حالیہ عرصے میں نمایاں توجہ حاصل کی۔ چینی حکومت تسلیم کرتی ہے
کہ اگرچہ ملک کا مالیاتی شعبہ دنیا کے سب سے بڑے شعبوں میں سے ایک ہے ،
لیکن اسے حقیقی معیشت کی خاطر خواہ خدمت کرنے کے لیے مزید کردار ادا کرنا
چاہیے۔
ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جب دنیا افراط زر، جغرافیائی سیاسی
تناؤ، موسمیاتی تبدیلی اور تیزی سے رونما ہونے والی تکنیکی ترقی سے
نبردآزما ہے، چین کے مالیاتی شعبے کو بھی غیر معمولی چیلنجوں اور مواقع کا
سامنا ہے۔ منظم مالیاتی خطرات کی روک تھام اور مالیاتی مارکیٹ کے کھلے پن
اور جدت طرازی کو فروغ دینے کے درمیان توازن قائم کرنا پالیسی سازوں اور
صنعت کے ماہرین کے لئے ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے۔حال ہی میں 2024 فنانشل
اسٹریٹ فورم میں ایک پینل مباحثے کے دوران، ماہرین نے اس بارے میں بصیرت کا
تبادلہ کیا کہ کس طرح چین مالیاتی شعبے اور عام معیشت میں اپنے اہداف کو
بہتر طریقے سے حاصل کرسکتا ہے۔
مذکورہ اکتوبر 2023 کی مرکزی مالیاتی امور کانفرنس نے "حقیقی معیشت کی خدمت
کے بنیادی مقصد پر قائم رہنے" کی ضرورت پر زور دیا۔ اجلاس میں اس بات پر
زور دیا گیا کہ مالیاتی شعبے کو معاشی اور سماجی ترقی کے لیے اعلیٰ معیار
کی خدمات فراہم کرنی ہوں گی۔ فنانس کے پانچ بڑے شعبوں کو ترقی دینا بہت
ضروری ہے جن میں ٹیکنالوجی فنانس، گرین فنانس، انکلوسیو فنانس، پنشن فنانس
اور ڈیجیٹل فنانس ، شامل ہیں۔یوں ،چینی مالیاتی اصلاحات کے نئے دور میں
مالیاتی افعال کی درست انجام دہی ایک مرکزی موضوع ہے۔ یہ نہ صرف مالیاتی
پاور ہاؤس کی تعمیر کو تقویت دیتا ہے ، بلکہ مالی نظام کے استحکام اور لچک
کو بھی یقینی بناتا ہے۔
ماہرین کے نزدیک چین کا موجودہ مالیاتی نظام فنڈز کی غلط تقسیم اور غیر
منطقی فنانسنگ ڈھانچے جیسے مسائل سے بدستور نبرد آزما ہے۔ ملک ایک زیادہ
متحرک اور موثر مالیاتی شعبہ تخلیق کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ ضرورت سے
زیادہ مالیات کو روکنا چاہتا ہے جو حقیقی معیشت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔اس
حوالے سے اگرچہ اہم پیش رفت ہوئی ہے ، لیکن پالیسی اصلاحات اب بھی جاری
ہیں۔چین کو ایک بڑے مالیاتی ملک سے مضبوط ملک میں منتقل ہونے کے لئے ابھی
ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔
اس ضمن میں چینی صدر شی جن پھنگ نے حال ہی میں چینی جدیدکاری کے لئے تکنیکی
جدت طرازی کی اہمیت پر زور دیا ہے ۔انہوں نے واضح کیا کہ چین کو تکنیکی جدت
طرازی اور صنعتی تبدیلی کو اپ گریڈ کرنے میں تیزی لانی چاہئے ، اور مالیاتی
پالیسیوں اور میکانزم کو بہتر بنانا چاہئے جو تکنیکی جدت طرازی کی حمایت
کرتے ہیں۔
چینی ماہرین مانتے ہیں کہ صرف ترقی کے ذریعے ہی سلامتی کا حصول ممکن ہے ،
اور صرف جدت طرازی کے ذریعے ہی ملک کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ آج
چین کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سے متعدد صرف موجودہ وسائل کے انتظام
سے حل نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ مسلسل جدت طرازی اور پیش رفت کے ذریعے بڑھتے
ہوئے حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔مبصرین مالیاتی سلامتی اور استحکام کے
درمیان نازک توازن پر بھی زور دیتے ہیں۔ اُن کے خیال میں اگرچہ مالی سلامتی
کو برقرار رکھنے کے لئے قلیل مدت میں مالی کھلے پن کو محدود کرنے کی ضرورت
ہوسکتی ہے ، خاص طور پر موجودہ جغرافیائی سیاسی ماحول میں ،لیکن عالمی
مالیاتی نظام میں گہرا انضمام طویل مدتی قومی سلامتی کے لئے اہم ہے۔
یہاں چین کو اس لحاظ سے دنیا سراہتی ہے کہ وہ مالیاتی کھلے پن، مالیاتی
خدمات کے شعبے میں غیر ملکی سرمائے کے داخلے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو
مکمل طور پر ختم کرنے اور غیر ملکی مالیاتی اداروں کو قومی سازگار سلوک
فراہم کرنے کی جامع پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس سے بیرونی کمپنیوں کا چین پر
اعتماد مسلسل بڑھ رہا ہے۔ چند روز قبل چینی شہر شنزین میں امریکہ کی ایپل
کمپنی کی اپلائیڈ ریسرچ لیبارٹری مکمل ہوئی۔ ستمبر میں ، جرمن کمپنی آڈی نے
اعلان کیا کہ وہ اپنی تاریخ میں چینی مارکیٹ کے لئے مصنوعات کی سب سے بڑی
ترتیب تیار کرے گی۔ امریکی کمپنی جی ای ہیلتھ کیئر نے اگلے تین سالوں میں
چین میں اپنی آر اینڈ ڈی سرمایہ کاری کو دوگنا کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا
ہے. ان غیرملکی کمپنیوں کا ماننا ہے کہ چین کی بڑی مارکیٹ کے حوالے سے نہ
صرف داخلہ ضروری ہے بلکہ "انضمام" بھی ضروری ہے یعنی گہرے تعاون کے ذریعے
چینی مارکیٹ کو دنیا کی مشترکہ ایک بڑی مارکیٹ بنانا بہت ضروی ہے۔
|