لاہور کا گورنر ہاؤس

موڑ پر ہی پاکنگ کی جگہ تھی ورنہ دور دور تک گاڑیاں کھڑی تھیں۔میں نے گاڑی پارک کی اور بڑے خوشگوار انداز میں ارد گرد کا جائزہ لیا۔کافی تبدیلی آ گئی تھی۔ میں نے دور نظر ڈالی ۔میرے سامنے کی طرف گیٹ تھا اور بالکل پیچھے تھوڑے فاصلے پر دربار ہال۔ میں تقریباً پچاس سال بعد یہاں آیا تھا۔ جہاں میری گاڑی کھڑی تھی، اس کے دائیں طرف ایک بلڈنگ تھی جس پر ملٹری سیکرٹری ونگ لکھا تھا۔ اور سامنے دوسری طرف پارکنگ کے لئے جگہ بنی ہوئی تھی۔پچاس سال پہلے پارکنگ والی جگہ پر ملٹری سیکرٹری ونگ تھی۔ میرے والد سیکشن آفیسر اور انڈر سیکرٹری کے طور پر وہاں بیٹھتے تھے۔ان کی پوسٹنگ یہاں 1970 میں ہوئی تھی اور وہ 1977 تک یہیں تعینات رہے۔ 1970 میں کوئی عتیق صاحب گورنر تھے۔ جب ہم یہاں آئے اور شاید مصطفٗیٰ کھر گورنر تھے جب ہم نے اس جگہ کو خیر باد کہا۔1970 میں بی ایس سی کا طالبعلم تھا اور آج 2024 میں مجھے لگاتار پڑھاتے ہوئے پچاس سال ہو گئے تھے۔ اتنا لمبا سفر ، پتہ ہی نہیں چلا، لیکن رب العزت کا احسان ہے کہ بڑی خوش اسلوبی سے گزر گیا،۔آج ایک تقریب تھی روٹری والوں کی ، میں روٹری کا ممبر ہوں، اسی حوالے سے اس تقریب میں شرکت کے لئے آیا تھا۔گورنر صاحب اس تقریب کے روح رواں تھے اور وہی تقریب انہی کی مہربانی سے گورنر ہاؤس کے دربار ہال میں ہو رہی تھی۔

سامنے شملہ پہاڑی والے گیٹ سے گورنر ہاؤس میں داخل ہوں تو گیٹ کے ساتھ بائیں طرف ایک مورچہ ہے۔ پہرے کا سپاہی اس پر کھڑا ہو کر ارد گرد سے باخبر رہتا ہے۔ اس مورچے پر پولیس والا تو شاید ہی کبھی نظر آیا ہو مگر 70 کی دہائی میں ایک بزرگ آدمی جو اس وقت ساٹھ سال سے زیادہ عمر کا ہو گا، رہتا تھا۔ دنیا سے بے خبر وہ آتا اور اس مورچے میں جاکر سو جاتا۔ وہ دس پندرہ سال سے وہاں مقیم تھا۔ کہاں سے آیا اور کیوں آیا کوئی نہیں جانتا تھا۔کسی سے بات بھی کم ہی کرتا تھا۔ ہاں کبھی اس کے سامنے گلوکارہ فریدہ خانم کی بات کر دیں تو اس کی گائیکی اس کے انداز اور اس کی گائی ہوئی غزلوں پر گھنٹوں کے حساب سے آپ کا وقت لیتا اور بس گفتگو فریدہ سے شروع ہو کر فریدہ ہی پر ختم ہوتی۔اب تو خیر وہ بیچارہ اوپر پہنچ چکا ہو گا۔ گیٹ سے کچھ آگے سڑک دو حصوں میں بٹ جاتی۔ان دو سڑکوں کے درمیاں ہمارا گھر تھا۔ گھر اب بھی موجود ہے مگر وہاں کوئی اور مالک ہے۔ بائیں ہاتھ والی سڑک کوئی ڈیڑھ سو فٹ پر ختم ہو جاتی ۔ اس جگہ ہمارے گھر کا چھوٹا گیٹ تھا اور گھر میں اس گیٹ کے ساتھ گھر سے ذرہ ہٹ کر میرا کمرہ۔لیکن اگر مڑنے کی بجائے سیدھے چلے آئیں تو گھر کے کونے میں پہلے پولیس چوکی تھی ،پھر ہماری گراؤنڈ۔ آگے ڈاکخانہ تھا اور اس کے ساتھ ہمارے گھر کا بڑا گیٹ۔ پرانی طرز کا بنا بڑا گھر تھا۔ لیکن لگتا تھا کہ اب وہ نیا تعمیر ہو چکا ہے۔باقی ساری بلڈنگز بھی نئی نظر آ رہی تھیں۔ہمارے اس گھر کے بعد کچھ دکانیں تھیں۔ وہاں بھی اب دفاتر تعمیر ہو چکے۔عملہ بھی کافی زیادہ ہو چکا،اس لئے زیادہ دفاتر بھی ضروری ہیں۔ سیکرٹری سائیڈ اور ملٹری سیکرٹری سائیڈجو پہلے آمنے سامنے تھیں اب اس نئی بلڈنگ میں ساتھ ساتھ ہیں۔ ان دفاتر کے سامنے میرے والد کا دفتر تھا، اس کے ساتھ ایک بڑی سی برانچ تھی اور پیچھے پبلک ریلیشنزآفیسر اخلاق صاحب بیٹھتے تھے۔میں نے ایک اہلکار سے پوچھا، بھائی کب سے یہاں ہو۔کہنے لگا آٹھ سال ہو گئے ۔ پہلے میرے والد تھے۔ انہوں نے اٹھائیس سال سروس کی ہے۔ میں ہنس دیا۔ اٹھائیس اور آٹھ مل کر چھتیس بناتے ہیں، میں پچاس کی تلاش میں تھا۔

میٹنگ کے لئے میں دربار ہال آ پہنچا۔ ہال کی شان اسی طرح قائم ہے۔ وہی شاندار خوبصورت سیڑھیاں جو آپ کو اندر ہال میں لے آتی ہیں۔ اس بلڈنگ میں بہت کم تبدیلی آئی ہے۔ہال اور اس سے ملحقہ کمرے تعمیرات کے مغل اور انگریز ماہروں کے فن کی عکاس ہیں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس ہا ل اور اس سے ملحقہ کمروں کے نیچے ایک پہلوان کا مزار ہے۔ قاسم خان اکبر بادشاہ کا خالہ زاد بھائی تھا۔یہ جگہ اس کا اکھاڑہ تھی۔ وہ یہیں رہتا اور پہلوانی کرتا تھا۔1597 میں اس کا انتقال ہو گیا۔1600 میں اکبر نے اسی زمین پر اس کا مقبرہ بنا دیا۔آج اس بلڈنگ کو وجود میں آئے425 سال ہونے لگے ہیں اور ان سالوں میں اس بلڈنگ نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔مغلوں کے دور میں یہ فقط ایک مزار تھا۔سکھ پنجاب میں تقریباً 50 سال اقتدار میں رہے جس میں( 1799 - 1839 )پہلے چالیس سال رنجیت سنگھ حکمران تھا۔باقی اس کے وارثوں کا دور سکھوں کے لئے ابتلا کا دور تھا۔1850 میں انگریز پنجاب پر مکمل حکمران تھے۔ خوشحال سنگھ مہا راجہ رنجیت سنگھ کا ایک مشہور جرنیل تھا۔ اس نے کچھ ردوبدل کے ساتھ اس مزار کو اپنی رہائش گاہ اور ساتھ دوسرے کمروں کو اپنے سرداروں کی رہائش گاہ بنا لیا۔ 700 کنال پر مشتمل اس بلڈنگ کی گراؤنڈخوشحال سنگھ کے سپاہیوں کے رہنے کی جگہ تھی۔مزار کو جانے والا رستہ تو عرصے سے بند ہے لیکن ضرورت کے وقت کھولا جا سکتا ہے دربار ہال جانے کے لئے دو خوبصورت سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہر طرف موجود راستے آپ کو دربار ہال پہنچاتے ہیں۔

انگریزوں کے قبضے کے بعد انہوں نے اس بلڈنگ کو سکھوں سے 2500 روپے میں خرید لیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خریدا نہیں سیالکوٹ میں دیوان حاکم رائے کی ایک بلڈنگ کے ساتھ تبدیل کر لیا تھا۔ 1951 سے 1953 تک انگریزوں نے اسے حویلی خوشحال سنگھ کے نام سے اسے پوری طرح تعمیر کیا ۔ بہر حال جیسا بھی تھا ، اس کے بعد یہ جگہ انگریزوں کے لیفٹیننٹ گورنر کی رہائش گاہ قرار پائی ۔ 1947 میں جب انگریز یہاں سے چلے گئے تو یہی رہائش پنجاب کے گورنر کی رہائش گاہ قرار پائی۔میں نے وہاں چکر لگا کر دیکھا ، ان پچاس سالوں میں بہت تعمیرات ہوئی ہیں۔ لیکن اس کا حسن یہی ہے کہ پرانے سٹرکچر کو بہت کم چھیڑا گیا ہے۔پرانی بلڈنگ ، پرانا فرنیچر اور بہت سی پرانی چیزوں کو اس طرح برقرار رکھا گیا ہے کہ وہ اس جگہ کی دلکشی میں اضافے کا باعث ہیں۔ اس وقت یہاں اٹک سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالے سردار سلیم حیدر پنجاب کے42 ویں گورنر ہیں ۔ ہنس مکھ اور عوام کے ہجوم میں بڑے کھلے ڈلے انداز میں اٹھنے بیٹھنے والے ، مجھے بہت نفیس آدمی لگے۔ ان سے بھی ملاقات ہوئی بلکہ انہوں نے خصوصی طور پر بلایا میرے دونوں بھانجے ذوالفقار بدر اور جہانزیب بدر بھی وہاں موجود تھے اور میں دربار ہال میں اپنا فنکشن شروع ہونے سے پہلے آدھ گھنٹہ انکے پاس رہا۔ انشا اﷲجلد اس بارے بھی تفصیل سے لکھوں گا۔

 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 580 Articles with 490931 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More