پاکستان میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب جی ٹی ایس (گورنمنٹ
ٹرانسپورٹ) کی بس سروس آج کل کے ڈائیوو کی طرح آمد و رفت کا سب سے محفوظ
اور تیز ترین ذریعہ سمجھا جاتا تھا جس کو آتا جاتا دیکھ کر لوگ اپنی گھڑیاں
ملایا کرتے تھے ۔پھر دوسرے تمام اداروں کی طرح اس میں بھی بدعنوانی نے جنم
لیا ، اس کا ڈیزل اور کل پرزے بیچے جانے لگے اور کچھ ہی سالوں میں یہ
خوبصورت اور معتبر بس سروس اور اس کے ورکشاپ بند ہوگئے ۔ نجی بس سروس کا
مافیا ایک بار پھر جیت گیا تھا ۔
جی ٹی ایس (گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس) جو کہ بھٹو حکومت نے 1970ء کی دہائی
میں متعارف کرائی تھی ان کا نظم و ضبط دیکھ کر بس اسٹاپوں پر کھڑے لوگ اپنے
گھڑیاں درست کیا کرتے تھے اسی طرح کی ٹرانسپورٹ آج بھی ترقی یافتہ ملکوں
میں کامیابی سے چل رہی ہے ۔گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس یا جی ٹی ایس کی بسیں
اور ڈبل ڈیکر یعنی دو منزلہ عوام میں اس قدر مقبول تھیں کہ لوگ سفر کے لیے
ان بسوں کو ترجیح دیا کرتے تھے ۔۔ آج اگرچہ ان بسوں کا نام و نشان ختم
ہوگیا ہے لیکن ان کے اڈوں کی وجہ سے آج بھی لوگ ان سٹاپوں کو جی ٹی ایس کے
نام سے پکارتے ہیں ۔۔۔کیا کمال کی سروس تھی ۔۔ تمام اڈوں پر مسافروں کے
بیٹھنے کے لئے باقاعدہ آرام کے لیے پلیٹ فارم بنے ہوئے تھے ۔۔ کھلی اور
آرام دہ بسیں ۔۔جی ٹی ایس کی سب سے پہلی سروس لاہور سے پشاور تک چلائی گئی
۔خان قیوم خان جب سرحد ( موجودہ کے پی کے ) کے وزیر اعلی تھے تو انھوں نے
جہاں اور ترقیاتی کام کیے وہاں اس صوبے میں جی ٹی ایس کی سروس بھی شروع کی
۔جی ٹی ایس کی وجہ سے دور دراز تک کے دیہات بھی شہروں سے مل گئے ۔جی ٹی ایس
کے روٹ جن مقامات تک تھے وہاں بعض مقامات تک نجی ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے اپنی
سروس شروع نہ کی تھی ۔۔اس طرح پشاور سے کابل بھی جی ٹی ایس کی سروس چلا
کرتی تھی ۔۔افغان بس سروس راولپنڈی سے کابل چلا کرتی تھی۔پشاور سے افغان بس
سروس کا کرایہ ساڑھے بتیس روپے ہوا کرتا تھا جبکہ جی ٹی ایس کا کرایا اڑتیس
روپے تھا ۔اس لیے اکثریت جی ٹی ایس کے سفر کو ترجیح دیا کرتی تھی پشاور میں
جی ٹی ایس کا اڈا بین الاقوامی نوعیت کا تھا ۔ایبٹ آباد کا جی ٹی ایس اڈا
ایسے مقام پر تھا جہاں مسافروں کی رسائی بہت آسان تھی ۔ایبٹ آباد سے شیروان
، نتھیا گلی وغیرہ ، ایبٹ آباد سے ٹبل براستہ مانسہرہ اوگی ،ایبٹ ایبٹ سے
ٹبل براستہ بفہ ،ایبٹ آباد سے دلبوڑی ،ایبٹ آباد سے بالاکوٹ ، کاغان،
مانسہرہ سے داتہ ، ایبٹ آباد سے بفہ ، اچھڑیاں سے ایبٹ آباد ۔اسی طرح بفہ ،
ٹبل ،ڈاڈر سے پشاور اور پشاور کے لیے سروس تھی ۔۔۔۔۔۔۔اگر اس پورے صوبے کو
دیکھا جائے تو ہر طرف مسافروں کو جس طرح سہولیات تھیں وہی سہولیات آج کے
ترقی یافتہ دور میں بھی میسر نہیں ہیں ۔۔۔۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ پنجاب کے تمام شہروں کی طرف جی ٹی ایس کی بسیں ہمہ
وقت رواں دواں رہتی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔پنجاب کا کوئی ضلع اور تحصیل ایسی نہیں تھی
یہاں پر جی ٹی ایس کا روٹ نہ تھا ۔۔۔۔۔لاہور میں جی ٹی ایس کا سب سے بڑا
سٹینڈ ریلوے اسٹیشن کے بالمقابل قائم تھا ۔۔۔جس پر ہر وقت ہجوم اور
گہماگہمی رہتی تھی ۔یہاں سے پنجاب کے تمام شہروں کی طرف بسیں نکلتی تھیں
۔۔۔۔پشاور میں اس کے ہشتنگری اور صدر میں اس کے بڑے بڑے اسٹینڈ اپنے اندر
ایک دنیا سموئے ہوئے تھے ۔۔۔اس کی خوبصورت آرام دہ اور تیز رفتار بسوں میں
لوگ شوق سے سفر کیا کرتے تھے ۔۔۔یہ ہر شخص کی مرغوب سواری تھی خاص طور پر
طلباء اس میں بہت شوق سے سفر کیا کرتے تھے کیوں کے اس میں طلباء کو بلا چوں
و چرا 50 فیصد رعایت ملتی تھی۔۔ ہر قابل ذکر شہر اور قصبے میں اس کے سٹینڈ
تھے ۔ اس عوام دوست ، آرام دہ سروس کو بلاوجہ بند کر دیا گیا ۔بہانہ یہ
بنایا گیا کہ اس سے آمدنی نہیں ہو رہی تھی بدقسمتی سے غریب و متوسط طبقے کو
اکثر و بیشتر ہر سہولت سے محروم کیا جاتا رہا ہے' ورنہ امیروں کے
زیراستعمال پی آئی اے مسلسل خسارے میں ہونے کے باوجود مسلسل اڑان بھر رہی
ہے ۔۔
گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس جی ٹی ایس کی عمدہ سروس کی وجہ سے لوگ بس سٹاپوں پر
کھڑے ہو کر ان بسوں کی پابندی وقت کو دیکھتے ہوۓ اپنی گھڑیاں درست کیا کرتے
تھے اور عمدہ سروس کی مثال دیا کرتے تھے ۔ایک اہم بات یہ تھی کہ جی ٹی ایس
کے ڈرائیوروں اور کنڈکٹروں کا مسافروں کے ساتھ شائستہ اور پر اخلاق رویہ
بھی مثالی تھا ۔۔ ڈرائیور اور کنڈکٹر ملیشیا کی یونیفارم میں ملبوس سروں پر
ہیٹ پہنے چاق و چوبند اپنی ڈیوٹیاں خندہ پیشانی سے کرتے نظر آتے تھے' اس کے
علاوہ ان کی ٹریننگ کے لیے باقاعدہ کورسز بھی کروائے جاتے تھے ۔جن میں سول
ڈیفنس اور فرسٹ ایڈ جیسے اہم کورسز شامل ہوا کرتے تھے ۔ دوران سفر ایک
کنڈکٹر باقاعدہ مسافروں کا اندراج اپنے رجسٹر میں کرکے مسافروں کو ٹکٹ جاری
کیا کرتا تھا ۔۔اور ان ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی باقاعدہ جانچ پڑتال کے لیے
ٹکٹ ایگزامنر اور مجسٹریٹ متعین کر رکھے تھے جو دوران سفر کسی بھی جگہ پر
گاڑی رکھوا کر گاڑی میں مسافروں سے ٹکٹ چیک کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے غفلت
کے مرتکب کنڈکٹروں کی ایکسپلینیشن (جواب طلبی) کو چار شیٹ جاری کیا کرتی
تھی ۔۔۔۔اسی طرح بڑے بڑے اڈوں پر جی ٹی ایس کے اپنے ورکشاپ تھے یہاں پر بہت
ہی اکسپرٹ مکینک ہمہ وقت موجود ہوتے تھے اور گاڑی کے آتے ہی وہ گاڑی کی
مرمت اور اس کی درستگی کی طرف توجہ دیتے تھے ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ
بعض لوگ اپنے خطوط وغیرہ بھی ان کے حوالے کردیتے تھے یہ فلاں اسٹاپ پر فلاں
شخص کو یہ خط دے دینا اور جی ٹی ایس کا عملہ یہ خدمات بلا معاوضہ سرانجام
دے کر خوشی و مسرت محسوس کرتا تھا ۔ اسی طرح بہت سے ایسے افراد جو شریعت کی
مکمل پاسداری کرتے تھے وہ بھی ان گاڑیوں میں بیٹھنا زیادہ پسند کرتے تھے
۔کیوں کہ ان بسوں میں ٹیپ ریکارڈر سے کسی طرح کے بھی اونچی آواز میں گانے
نہیں چلائے جاتے تھے ۔ اس طرح سفر پر سکون گزر جاتا تھا ۔۔۔اسی طرح کی
ٹرانسپورٹ آج بھی ترقی یافتہ ممالک میں کامیابی سے چل رہی ہیں ۔۔۔۔۔نیو خان
اور کوہستان کے مالکان اور ڈرائیور ان بسوں کی سروس کو نیچا دکھانے کی کوشش
کرتے رہے ۔۔ان لعنتی ہجوم کو اچھا کام چونکہ پسند نہیں ۔۔پھر ہوا یوں کہ یہ
بسیں آثار قدیمہ کے نوادرات سے بھی غائب ہو گئیں ۔۔پیپلز پارٹی کے دور میں
جب آفتاب شیر خان صوبہ سرحد کے وزیر اعلی بنے تو انہوں نے اپنے صوبے میں جی
ٹی ایس کو ختم کردیا ۔ اسی طرح پھر پنجاب کے ساتھ بھی ہوا ۔۔۔۔آمدنی کے
لحاظ سے منافع بہت تھا لیکن بدانتظامی کی وجہ سے خسارہ ظاہر کیاگیا ان بسوں
کی نیلامی کیسے ہوئی ان لوگوں نے وہ بسیں کتنے میں خریدی وہ ایک الگ داستان
ہے ۔۔۔۔۔یہاں ہم اتنا کہنا چاہیں گے کہ جی ٹی ایس کا اجراء آج دوبارہ ہونا
چاہیے جس سے نہ صرف عوام کو بہترین سفری سہولیات ملے گئیں وہاں بہتر روزگار
بھی ملے گا جی ٹی ایس کے نہ ہونے سے نجی کمپنیاں کرایوں میں جو من مانیاں
کرتی رہتی ہیں وہ بھی باز آجائیں گی۔۔۔۔۔ پنجاب اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن (
پنجاب روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن)کا قیام فروری 1977ء میں وفاقی حکومت کے تحت
وجود میں آیا تھا ۔تاکہ بسوں کا انتظام و انصرام آسان طریقے سے کیا جا سکے
۔ابتداء میں ان بسوں کی سروس راولپنڈی اسلام آباد اور لاہور کے شہروں تک
محدود رکھی گئیں یہ کارپوریشن ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے تحت عمل میں آئی
۔بعد ازاں اس کی سروس پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں چلائی گئی ۔۔
1985 میں گورنمنٹ آف پنجاب نے ایک نوٹیفکیشن کے تحت پنجاب روڈ ٹرانسپورٹ
کارپوریشن بورڈ اور اس کے تمام اثاثے ختم کر دیے ۔۔اور اس کے ملازمین کو
پنجاب اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کا ایک نیا نام دے کر اس میں ضم کر دیا گیا
۔۔
1997ء میں حکومت پنجاب نے یہ فیصلہ کیا کہ پنجاب روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن
کو بھاری خسارے کے ضمن میں ختم کردیا جائے ۔۔گورنمنٹ نے ان ملازمین کو
گولڈن شیک ہینڈ سکیم پیکج کے تحت ان کے معاوضہ دے کر ان کو ملازمت سے
برخاست کر دیا ۔۔۔۔۔گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس یا پنجاب روڈ ٹرانسپورٹ
کارپوریشن کی پشاور اور پنجاب کے تمام اضلاع، تحصیلوں اور قصبوں میں اڈوں
کی شکل میں پڑی کھربوں کی اراضی بھوکے ، لعنتی سیاست دانوں نے اؤنی پؤنی
قیمت لگا کر ہضم کر لی ۔۔۔۔۔۔۔۔پنجاب کے بڑے بڑے شہروں لاہور، فیصل آباد ،
گجرانوالہ رحیم یار خان ،شیخوپورہ، گجرات جہلم ، جھنگ ، لیہ ، کروڑ ،وزیر
آباد ، بھکر ،سیالکوٹ ، ملتان ، ساہیوال ، اوکاڑہ ، بہاول پور ، بہاول نگر
، سرگودھا ، میانوالی ،جوہر آباد ، خوشاب ، چنیوٹ اور بے شمار دوسرے قصبوں
میں ان کے کروڑوں کے حساب سے اڈوں کو بھوکے اور منافق سیاستدان ہڑپ کر گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔اب ان اڈوں کا کہیں بھی نام و نشان باقی نہیں رہا ۔۔۔۔آج بےشمار
ملازمین گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کی محکمانہ سہولت سے پنشن لے رہے ہیں
۔۔۔۔۔بے شمار ملازمین گولڈن شیک ہینڈ لیکر اپنی زندگی گزار رہے ہیں ۔۔۔۔
میرا لڑکپن ان بسوں میں سفر کرتے ہوۓ گزرا ۔۔۔میں نے ان خوب صورت سرخ رنگ
کی بسوں میں ایک نہیں ' متعدد بار سفر کیا ۔۔میرے والد محترم ان بسوں سے
وابستہ رہے ۔اپنے والد صاحب کی انگلی پکڑ کر ان بسوں کے ذریعے میں اکثر
لاہور جایا کرتا تھا۔۔۔ گویا میری زندگی کی بہت ساری یادیں ان سرخ بسوں سے
جڑی ہوئی ہیں ۔۔میرا گزر جب کبھی بھی لاہور کے ریلوے اسٹیشن کے سامنے سے جی
ٹی ایس کے ڈپو کی جگہ کے قریب سے ہوتا ہے یا فیصل آباد کے جی ٹی ایس انٹر
سٹی کے ڈپو کے قریب سے گزرتا ہوں تو جی ٹی ایس کے پنجاب بھر کے ان پر رونق
اور پر ہجوم اڈوں کا تصور میرے ذہن میں آتا ہے تو اداس ہو جاتا ہوں۔ اور
میرا دل خون کے آنسو رونا شروع کر دیتا ہے۔۔ پنجاب بھر کے تمام بڑے شہروں
میں ایکڑوں کے حساب سے جی ٹی ایس کے لاری اڈوں کو سیاسی مافیا کھا
گئی۔۔۔۔اونوں پونوں میں جی ٹی ایس کے اڈے بک گئے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ جانے کہاں گئے
وہ دن ۔۔؟ |