سائنس نے یہاں اور بہت سی چیزوں کو پیچھے کر دیا ہے وہیں
اب گھروں میں مٹی کے برتنوں کا استعمال بھی ختم ہو گیا ہے۔۔ہم مٹی کے
برتنوں کا ذکر کرتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ ہم کسی اور زمانے کی بات کر رہے
ہیں۔۔گویا مٹی کے برتن کا استعمال بھی قصہ پارینہ ہو کر رہ گیا ہے ۔۔۔۔۔ آپ
جب کمہار کے چاک کو تیز گھومتا دیکھتے ہیں اور انگلیاں گیلی اور مہکتی مٹی
میں سے کوئی آبخورے کی تخلیق کرنے میں ادھر ادھر حرکت میں ہوتی ہیں، ان
لمحوں میں آپ اگر دل کی آنکھوں سے دیکھیں تو اس گیلی مٹی اور بھیگی ہوئی
انگلیوں میں سے اک پگڈنڈی سی اگ آتی ہے۔اگر آپ اس پگڈنڈی پر چلنا شروع کریں
تو ماضی کے ان شب و روز میں جا پہنچیں گے جہاں مٹی اور کمہار کے رشتہ کی
ابتدا ہو رہی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ایشیا میں سب سے پہلے برتن ایران میں بنے۔
ایران میں جو کالے برتن 10,000سے 15,000 قبل مسیح میں بنے وہ بعد میں 'آمری'
میں بنے۔ چار ہزار قبل مسیح میں ایرانی کمہاروں نے سرخ رنگ کے برتنوں پر
پرندوں، جانوروں اور بیل بوٹوں کی صورتیں بنانا شروع کی، پھر یہ پرندے اور
جانور رینگتے رینگتے بلوچستان اور وادیء سندھ میں پہنچے۔اور پھر مٹی، شعور
اور انگلیوں کے رشتے نے اس فن کو ایک نئی جہت دی۔ اس فن نے ہر اس جگہ ڈیرے
ڈال دیے جہاں انسان سانس لیتا تھا۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ، اس دھرتی پر جہاں
جہاں کھیت ہوں گے وہاں وہاں مٹی کو مان دینے والا کمہار بھی ہوگا۔
مٹی کے برتن نہ صرف کم خرچ اور سستے ہوتے ہیں بلکہ ان سے کھانوں کا لذت بھی
کئی گنا بہتر ہوجاتی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب برصغیر پاک و ہند اور جنوبی ایشیا کے اکثر ممالک میں مٹی
کے برتنوں کا استعمال عام تھا اور روایتی کھانے مٹی کے برتنوں میں تیار کیے
جاتے تھے جس کے بہت زیادہ فوائد تھے۔
لیکن آج تقریباً ہر گھر میں مٹی کے برتنوں کے بجائے کھانا پکانے کے لیے
مہنگے اسٹیل اور دیگر قسم کے برتن استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ برتن دو قسموں
کے ہوتے ہیں جن میں سے ایک گلیزڈ اور دوسرے اَن گلیزڈ ہوتے ہیں۔
مٹی کے برتنوں سے کھانوں کا معیار اور لذت کئی گنا بہتر ہوجاتی ہے۔
اَن گلیزڈ برتن پھر بھی بہتر ہوتے ہیں کیونکہ یہ نان اسٹک پین اور اسٹیل کے
برتنوں کے برعکس بایو ڈیگریڈایبل (یعنی ان کو کیمیائی عمل سے تحلیل کیا
جاسکتا ہے) ہوتے ہیں۔
لیکن مٹی کے برتن ان سے بالکل مختلف ہیں یہ نہ صرف کم خرچ اور سستے ہوتے
ہیں بلکہ ان سے کھانوں کا معیار اور لذت کئی گنا بہتر ہوجاتی ہے۔
اسی لیے ماہرین نے کچھ ایسی وجوہات بتائی ہیں جن کی بنا پر آپ کو اسٹیل
اور دیگر دھاتی برتنوں کے بجائے مٹی کے برتنوں کی طرف دوبارہ مراجعت کرنا
چاہیے۔
ذائقے میں اضافہ:
مٹی کے برتن میں تیار کیے گئے کھانوں کا ذائقہ بالکل مختلف ہوتا ہے اس کی
وجہ مٹی میں موجود قدرتی الکلین ہے۔ اس میں تیار ہونے والے بہترین کھانوں
میں کری، اسٹو، ساؤسس، سوپ اور گوشت سے تیار دیگر اقسام کے سالن شامل ہیں۔
مٹی کے برتنوں میں پکنے کے دوران غذائی اجزا برقرار رہتے ہیں۔
غذائی فوائد کا برقرار رہنا:
مٹی کے برتن نہ صرف ذائقے میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں بلکہ یہ غذا کے بنیادی
اجزا جیسے معدنیات جن میں فولاد، فاسفورس، کیلشیم، میگنیشیم وغیرہ کو
برقرار رکھتا ہے۔ کیونکہ مٹی کے برتنوں میں باریک مساموں جیسے سوراخ ہوتے
ہیں جو گرمائش اور نمی کو پکانے کے دوران برتن میں گردش کرنے دیتے ہیں جس
سے پکنے کے دوران یہ غذائی اجزا برقرار رہتے ہیں۔
مٹی کے برتن کھانوں میں قدرتی نمی اور قدرتی چکنائی کو برقرار رکھتے ہے۔
کھانوں میں مہک پیدا ہوتی ہے:
یہ خوراک میں موجود تیزابی محلول کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ مٹی کے برتن کی
الکلین نیچر کھانے کی اشیا میں موجود تیزابیت کو کنٹرول کرکے اس کا پی ایچ
توازن برقرار رکھتا ہے، جس سے کھانوں میں ایک مہک سی پیدا ہوجاتی ہے جبکہ
یہ صحت بخش بھی ہوجاتا ہے۔
دل کی صحت کے لیے مفید
مٹی کے برتن صرف کم قیمت ہی نہیں ہوتے بلکہ یہ امراض قلب پر قابو پانے کے
لیے بھی بہتر ہوتے ہیں، کیونکہ اس میں پکانے سے گھی یا تیل کا استعمال بھی
کم ہوتا ہے اور دیگر برتنوں کے مقابلے میں اس میں کھانا بہت جلد تیار
ہوجاتا ہے جو کہ کھانوں میں قدرتی نمی اور قدرتی چکنائی کو برقرار رکھتا ہے
جو کہ دل کی صحت کے لیے مفید ہوتے ہیں۔
مٹی کے برتنوں میں کھانا پکاتے وقت کھانے میں قیمتی منرلز (میگنیشیم،
کیلشیم، آئرن، فاسفورس، سلفر) وغیرہ شامل ہوتے ہیں جو ہماری صحت کے لئے
خزانے سے کم نہیں ہوتے۔
مٹی کے برتن میں کھانا پکانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے اُن میں کھانا
ہلکی آنچ پر پکتا ہے جس سے کھانے کے اندر موجود قُدرتی تیل جلتا نہیں ہے
اور نمی کے ساتھ کھانے میں شامل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے کھانے میں گھی اور
تیل کا استعمال کم ہوتا ہے۔
ان کے علاوہ مٹی کے برتن یا مٹکوں سے پانی پینا ہماری روایات کا حصہ ہے جو
وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتی جا رہی ہیں. اب لوگ پانی پینے کے لیے شیشے کے
گلاس کا استعمال کرتے ہیں اور فریج سے نکال کر ٹھنڈا پانی پی لیتے ہیں۔ جب
زندگی میں ایسی آسانی اور عیاشی میسر ہو تو مٹی کے برتنوں کا استعمال ختم
ہونا ایک قدرتی بات ہے۔
مٹی کے برتن میں پانی پینے کے فوائد
ماضی میں اگر ہم دیکھتے ہیں تو لوگ مٹی کے برتن میں پانی پینے کو فوقیت
دیتے تھے گھروں میں سایہ دار جگہ پر پانی کا مٹکا موجود ہوتا تھا ۔ بعض
گھرانوں میں سہہ پہر کے وقت اس مٹکے میں تازہ پانی بھرنے کے بعد اس کے گلے
میں موتیے کے پھولوں کی مالا بھی لپیٹ دی جاتی تھی جس کی وجہ سے ٹھنڈے
میٹھے پانی کے ساتھ ساتھ پانی میں پھولوں کی خوشبو بھی شامل ہو جاتی ہے. اس
کے ساتھ ساتھ یہ پانی بھی بہت سارے طبی فوائد کا حامل ہو جاتا ہے جس کے
بارے میں ہم آپ کو آج بتائیں گے۔
۔1 پانی قدرتی طور پر ٹھنڈا رہتا ہے
مٹکے یا مٹی کے برتن کی بناوٹ اس طرح کی ہوتی ہے کہ اس میں قدرتی طور پر
چھوٹے چھوٹے سوراخ موجود ہوتے ہیں جس میں سے نمی بخارات کی صورت میں خارج
ہوتی رہتی ہے اس وجہ سے مٹکے کے اندر موجود پانی قدرتی طور پر ٹھنڈا رہتا
ہے۔اس کے برخلاف یہی پانی سردیوں کے موسم میں قدرتی طور پر گرم رہتا ہے۔
قدرتی طور پر پانی کے درجہ حرارت کی یہ تبدیلی پانی کو صحت کے حوالے سے
محفوظ بناتا ہے اور فریج یا اور دیگر ذرائع سے پانی کو ٹھنڈا کرنے سے جو
صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ بھی نہیں کرنا پڑتا ہے۔
۔2 مٹی کے برتن کا پانی الکلائن خصوصیات کا حامل
ہم عام طور پر جو غذا استعمال کرتے ہیں وہ تیزابی خصوصیات کی حامل ہوتی ہے
اور معدے میں تیزابیت بڑھانے کا باعث بنتی ہے ۔لیکن اگر اس غذا کے ساتھ
مٹکے کا مٹی کے برتن کا پانی استعمال کیا جاۓ تو یہ پانی الکلائن خصوصیات
کا حامل ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کا استعمال غذا کے پی ایچ اسکیل کو نارمل
کرتا ہے اور غذا کے تیزابی اثرات کو ختم کرتا ہے جس کی وجہ سے ہاضمے کے بہت
سارے مسائل حل ہوتے ہیں۔
۔3 مٹی کے برتن کا پانی میٹابولزم تیز کرتا ہے
مٹی کے برتن یا مٹکے کے اندر موجود پانی کسی بھی قسم کے کیمیائی اثرات سے
محفوظ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پانی میں بڑی مقدار میں منرل موجود ہوتے
ہیں جن کی موجودگی ہاضمے کے عمل کو تیز کرتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ جسم کے میٹا بولزم کے عمل کو بھی تیز کرتا ہے جس کی وجہ
سے انسان پر ہونے والے عمر کے اثرات سست پڑ جاتے ہیں اور جسم کینسر جیسے
موذی امراض سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
۔4 لو لگنے کے خطرات میں کمی واقع ہوتی ہے
سن اسٹروک یا لو لگنا گرمی کے موسم کا ایک عام مسئلہ اور خطرہ ہے مگر مٹکے
سے یا مٹی کے برتن سے پانی پینے والے افراد اس خطرے سے کافی حد تک محفوظ رہ
سکتے ہیں ۔جس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ مٹی کے برتن کا پانی بہت سارے
معدنیات اور نمکیات سے بھر پور ہوتا ہے۔
لہذا جب ان برتنوں سے پانی پیا جاتا ہے تو وہ پانی جسم میں صرف پانی کی کمی
کو پورا نہیں کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جسم میں سے نمکیات اور معدنیات
کی کمی کو بھی پورا کر کے سن اسٹروک کے خطرے کو کم کرتا ہے۔
۔5 گلا خراب ہونے سے بچاتا ہے
عام طور پر برف ڈال کر ٹھنڈا کیا گیا پانی یا پھر فریج کے ذریعے ٹھنڈا گیا
پانی گلے میں خرابی کا سبب بن جاتا ہے ۔ جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا یہ
ماننا ہے کہ مصنوعی طریقے سے ٹھنڈا کیا گیا پانی گلے کے اندرونی غدود کی
سوزش کا باعث بن جاتا ہے۔ جس سے گلا خراب ہو سکتا ہے اور کھانسی بھی ہو
سکتی ہے۔
جب کہ اس کے مقابلے میں مٹی کے برتن کا پانی قدرتی طور پر ٹھنڈا ہوتا ہے
اور کسی بھی مضر اثرات سے محفوظ ہوتا ہے دوسری سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ
اس پانی کا درجہ حرارت ٹھنڈا تو ہوتا ہے مگر اس کی ٹھنڈک اتنی زیادہ نہیں
ہوتی ہے جو کہ گلے کی خرابی کا باعث بنے اس وجہ سے یہ پانی صحت بخش ہوتا
ہے۔
۔6 قدرتی طور پر فلٹر پانی
مٹی کے برتن کے اندر قدرت کی جانب سے ایک ایسا نظام موجود ہوتا ہے جس کے
سبب اس پانی میں موجود آلودگی مٹی کے چھوٹے چھوٹے سوراخوں میں قدرتی طور پر
فلٹر ہو جاتا ہے جس سے یہ پانی آلودگی کے اثرات سے کافی حد تک محفوظ ہو
جاتا ہے۔ قدرت کا نظام ایک محفوظ نظام ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیۓ
انسان کو اس کو اپنے طرز زندگی میں تھوڑی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے ۔
مگر سائنسی ترقی کو بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے اور کسی بھی تکلیف یا
بیماری کی صورت میں اپنے معالج سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔۔
مٹی کے برتنوں کے متعلق امام اہل سنت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا
خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں ، کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وآلہ وسلم سے تانبے، پیتل کے برتنوں میں کھانا پینا ثابت نہیں۔ مٹی یا
کاٹھ (یعنی لکڑی) کے برتن تھے اور پانی کے لئے مشکیزےبھی۔
(فتاویٰ رضویہ جلد 22صفحہ129-رضافاؤنڈیشن لاہور)
ایک اورمقام پرمزید فرماتے ہیں مٹی کے برتن میں کھانا پینا بھی تواضُع سے
قریب تَر ہے، کھانے پینے کے برتن مٹّی کے ہونا افضل ہے کہ اِس میں نہ
اِسراف ہے نہ اِترانا، حدیث میں ہے جو اپنے گھر کے برتن مٹّی کے رکھے
،فرشتے اُس کی زیارت کریں۔
(فتاویٰ رضویہ جز الف جلد1صفحہ336)
(بہار شریعت میں ہے)
سونے چاندی کے سوا ہر قسم کے برتن کا استعمال جائز ہے، مثلاً تانبے، پیتل،
سیسہ، بلور وغیرہ۔ مگر مٹی کے برتنوں کا استعمال سب سے بہتر کہ حدیث میں ہے
کہ : ’’جس نے اپنے گھر کے برتن مٹی کے بنوائے، فرشتے اُس کی زیارت کو آئیں
گے:
(بہارشریعت جلد 3 )
خواجہ غلام فرید مٹھن کوٹی نے بھی اسی لیے انسان کو مٹی سے اپنا تعلق مضبوط
رکھنے کی تلقین کی تھی ۔۔۔۔۔
ویکھ فریدا مٹی کھُلی
ویکھ فریدا مٹی کھُلی
مٹی اُتے مٹی ڈُلی
مٹی ہسے مٹی رووے
انت مٹی دا مٹی ہووے
نہ کر بندیا میری میری
نہ تیری نہ میری
چار دناں دا میلہ دنیا
فیر مٹی دی ٹھیری
نہ کر ایتھے ہیرا پھیری
مٹی نال نہ دھوکا کر تُو
تُو وی مٹی او وی مٹی
ذات پات دی گل نہ کر تُو
ذات وی مٹی تُو وی مٹی
ذات صِرف خدا دی اُچّی
باقی سب کچھ مٹی مٹی
(حضرت بابا غلام فرید)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|