صبر اور جبر میں اتنا ہی فرق ہے جتنا زمین اور آسمان کے
درمیان ہے۔ اکثر لوگ جبر کو صبر کا نام دے دیتے ہیں اور پھر اس پر اللہ
تعالیٰ سے اجر کی توقع بھی رکھتے ہیں۔ اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہر آزمائش
کو اس کی رضا سمجھ کر بغیر کسی شکوے کے قبول کرنا صبر ہے، مگر ہمارے معاشرے
میں یہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔
جب کوئی آزمائش آتی ہے تو ہم بے چین ہو جاتے ہیں، دوسروں کو اپنا دکھڑا
سنانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی بڑا مالی نقصان ہو جائے تو ہم ہر
ایک کو اپنی داستان سناتے ہیں، اور عموماً یہ جملہ استعمال کرتے ہیں: "کیا
کریں، بس صبر کر لیا ہے، اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔" حقیقت یہ ہے کہ پہلے ہم
اپنی نقصان کی تلافی کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ آزما لیتے ہیں، اور جب
یقین ہو جاتا ہے کہ سب کچھ ختم ہو گیا، تب ہم صبر کا ذکر کرتے ہیں۔
اپنے جائز مال کے نقصان کے لیے کوشش کرنا تو درست ہے، مگر دوسروں کے سامنے
اپنی کہانی بیان کرنا مناسب نہیں۔ یہ صبر نہیں، بلکہ جبر ہے، کیونکہ ہم اس
وقت مجبور ہو جاتے ہیں۔ دل پر پتھر رکھنے کے بعد ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم نے
صبر کر لیا، جو کہ دراصل اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
صبر کی اصل نوعیت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی آزمائش کو
خوش دلی سے قبول کرے، اور اس نقصان کا ذکر دوسروں سے نہ کرے۔ اگر وہ حق پر
ہے تو اسے اللہ کی رضا جان کر خاموشی اختیار کرنا ہی حقیقی صبر ہے۔ آپ اپنے
گرد و پیش میں اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں یا خود کو ایسی حالت میں ڈال کر
اپنے جذبات کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ اگر میرا یہ پیغام آپ تک پہنچا ہے تو آپ
کو یقیناً اس کا مفہوم سمجھ آ جائے گا: صبر اور جبر کے درمیان بنیادی فرق۔
|