کیا کبھی آپ کو اس بات پر "سپر وومن" کا لقب دیا گیا ہے
جو آپ کے اختیار میں نہیں تھا یا ایسی صورت حال پر طنز کا نشانہ بنایا گیا
ہے جسے آپ تبدیل نہیں کر سکتی تھیں؟ جنوبی ایشیا کے بہت سے ممالک میں ایک
عورت جو بیٹے کو جنم دیتی ہے، اسے زیادہ فخر اور مقام دیا جاتا ہے، جبکہ
بیٹی کو جنم دینے والی عورت کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔
یہ ایک بنیادی سوال کو جنم دیتا ہے: کیسے ایک عورت کو اس بات پر برتر قرار
دیا جا سکتا ہے جس میں اس کی کوئی مرضی یا اختیار نہیں، جبکہ دوسری عورت کو
کم تر عزت اور وقار دیا جاتا ہے، حالانکہ دونوں نے ایک نئی زندگی کو دنیا
میں لانے کے لیے وہی جدوجہد کی ہے؟
یہ معمہ ہمارے پدر شاہی معاشرے میں آج بھی برقرار ہے، وقت گزرنے کے باوجود۔
الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے اور خواتین کو اس بات کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا
جاتا ہے کہ وہ 'مطلوبہ' جنس پیدا نہیں کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک غیر منطقی
بات ہے بلکہ جہالت کی ایک کھلی مثال بھی ہے۔ خواتین کو طویل عرصے سے
معاشرتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور بیٹا پیدا نہ کرنے کی صورت میں
انہیں تشدد، دھمکیوں اور یہاں تک کہ طلاق کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہ
تسلیم کرنا ضروری ہے کہ بچے کی جنس کا تعین عورت کے بجائے مرد کے کروموسومز
کرتے ہیں۔
یہ حقیقت کہ معاشرہ اب بھی عورت کو بیٹے کی پیدائش پر زیادہ قدر دیتا ہے،
اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ہم نے عورت کے وجود اور اس کی قدر کو مکمل طور
پر تسلیم نہیں کیا۔ ایک بیٹا پیدا کرنے کا عمل بھی ایک جدوجہد ہے اور ایک
بیٹی کو جنم دینا بھی، اور دونوں عمل کے دوران عورت کو وہی جسمانی اور
جذباتی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود، ایک کو بلند مقام اور دوسری
کو کم تر سمجھا جاتا ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟
ہمارے پدر شاہی معاشرے کو عورتوں کے کردار کی اہمیت اور ان کی حیثیت کو
سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ بیٹی یا بیٹا، دونوں کی
پیدائش عورت ہی کی کوکھ سے ہوتی ہے، اور اسی لیے اس جنس کی قدر کرنا ضروری
ہے جو دنیا میں ہر زندہ وجود کو لانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ بیٹی ہو یا بیٹا،
دونوں میں ایک نئی زندگی کی تخلیق کی صلاحیت ہے اور اس عمل کو احترام کی
نظر سے دیکھنا چاہیے۔
گزشتہ برسوں میں خواتین کے حقوق اور ان کی شناخت کے حوالے سے کچھ ترقی ہوئی
ہے، مگر ابھی بہت سا کام باقی ہے تاکہ خواتین کو مردوں کے برابر حقوق اور
قدر و منزلت حاصل ہو سکے۔ یہ کام نہ صرف قوانین کی شکل میں ہونا چاہیے بلکہ
معاشرتی رویوں میں تبدیلی لا کر بھی۔ عورت کے وجود کو محض بیٹے یا بیٹی کی
پیدائش کے پیمانے پر نہ پرکھا جائے بلکہ اس کی مکمل شخصیت اور کردار کو
اہمیت دی جائے۔
عورتوں کی عزت اور مقام کو تسلیم کرنا معاشرتی ترقی کے لیے ایک اہم قدم ہے۔
ہمیں اس قدیم روایتی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے جس میں عورت کو ایک بیٹے کی
پیدائش کے بعد ہی قابل فخر سمجھا جاتا ہے۔ ایک خوشحال معاشرے کے قیام کے
لیے ضروری ہے کہ ہم عورتوں کو ان کے حقیقی مقام اور کردار کے مطابق عزت دیں
اور یہ سوچ فروغ دیں کہ جنس کی بنیاد پر کسی کی قدر یا مقام کا فیصلہ نہیں
ہونا چاہیے۔
معاشرتی ترقی اور انصاف کا تقاضا ہے کہ ہم عورتوں کو برابری کا درجہ دیں
اور ان کی محنت اور قربانیوں کو احترام کے ساتھ تسلیم کریں۔ش
|