علامہ صاحب نے فرمایا تھا
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
زندہ قومیں اپنے قومی ورثے، اپنی قومی زبان اور اپنے رہن سہن کو فخر سے
دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں نہیں یقین آتا تو افریقہ کے جنگلی قبائل کو
دیکھ لیں، ان کو اپنے ننگ دھڑنگ ہونے سے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی، اہل
فارس کو اپنی فارسی زبان سے کوئی الرجی نہیں، چائنہ والوں کو اپنی زبان سے
کوئی کوفت نہیں، تو ہم کو اپنی قومی زبان اردو یا مادری زبان پنجابی سے خدا
واسطے کا بیر کیوں ہے ؟ کسی بینک میں چلے جائیں تو پورا عملہ خوبصورت اردو
بول رہا ہوتا لیکن تمام کاغذات انگریزی زبان میں کیوں؟ ہمارے سرکاری سکولوں
میں اردو کا مضمون بھی انگریزی لیسن کے طور پر پڑھایا جاتا وجہ؟
مان لیا کہ ہم ازلی سست روی کے شکار ہیں اسی لیے تو ہمیں اپنے مسائل کا
ادراک تب ہوتا جب ہم ان مسائل کے عادی ہو چکے ہوتے۔ موبائل کو ہی دیکھ لیں
ہم میسج لکھتے ہیں تو اردو بھی انگریزی الفاظ کے ساتھ رومن لکھ رہے ہوتے۔
مائیں تعلیمی اداروں میں آ کر شکایت کر رہی ہوتیں کہ ہمارا بچہ پنجابی
بولتا ہے اس کو منع کریں کہ اردو بولا کرے۔ آخر پنجابی زبان سے مسئلہ کیا
ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے سمجھ لیا کہ یہ بھانڈوں اور جگت بازوں کی
زبان ہے ؟ جناب یہ پیر وارث شاہ، بابا بلھے شاہ، میاں محمد بخش، سلطان
العارفین کی زبان ہے جن کے اشعار پر وہ لوگ بھی قلبی سکون پا رہے ہوتے جن
کو ان کی سرے سے سمجھ ہی نہیں آ رہی ہوتی۔
شاید یہ ہمارا احساس کمتری ہے کہ ہم دوسروں سے جلدی مرعوب ہو جاتے ہیں۔ ایک
دوست سے کہا کہ یار اردو یا پنجابی میں بات کیا کرو یہ بلا وجہ دیسی انداز
میں انگریزی کا پنکچر لگانے کی کیا آفت پڑی ہے تو بولے کہ جب باہر کے ممالک
سے سیاح پاکستان آتے ہیں تو ان سے گفتگو میں آسانی ہوگی۔ عرض کی کہ جناب
کتنا سیر وسیاحت کو پسند کرتے ہیں؟ تو فرمانے لگے فضول کام ہے آوارہ گردی
والا بہتر ہے بندہ گھر میں بیٹھ کے کوئی فلم شلم ہی دیکھ لے۔ عجیب ذہنی
کشمکش سی ہے کہ ہم لوگ چاہتے کیا ہے ؟ پاکستان میں ہوں تو انگریزی بولنے کا
شوق ہے، دیار غیر میں جائیں تو اردو یا پنجابی بولنے والا تلاش کرتے پھرتے
ہیں۔
مسئلہ ہم کو صرف زبان سے ہی نہیں دیسی کھانوں سے بھی ہے ، اب تو گاؤں میں
بھی پیزہ اور شوارما کی دکانیں کھلتی چلی جا رہی ہیں۔ مہنگی سوسائٹیوں میں
رہنے والے کچے برتنوں اور دیسی ساگ مکھن اور روٹی کو ڈھونڈ رہے اور جن کے
پاس یہ تمام نعمتیں بالکل خالص انداز میں موجود ہیں ان کو انگریزی خوراک کا
بھوت سوار ہے ۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک چھوتے سے بچے کی ویدیو وائرل
ہوئی اتنی کہ ٹی وی چینلز نے پورا پورا شو اس بچے کی پنجابی میں گفتگو سنتے
گزار دیا۔ تو جناب ایک علی حیدر نہیں پنجاب کا ہر بچہ بہت سی صلاحیتوں کا
حامل ہے مگر ہم نے اس کو کبھی انگریزی اور کبھی اردو کی زور آزمائی میں دبا
کے رکھ دیا ۔ میرے خیال میں اگر پہلی پانچ جماعتیں ہر بچے کو اس کی مادری
زبان میں پڑھائی جائیں تو وہ زیادہ بہتر نتائج دے سکتا ہے آپ چاہیں تو
اختلاف کر سکتے ہیں۔
کسانوں کو لتاڑنے کو ہر دوسرا بندہ تیار نظر آتا ہے کہ یہ ملک کو لوٹ کر
کھا گئے ۔ تھوڑا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ایسا ہے ہی نہیں (سوائے چند ایک
مثالوں کے )۔ کسان سے کماد سستا کون خریدتا ہے ؟ شوگر ملز والے اور پیسے
بھی دو دو سال بعد دیتے ہیں وہ بھی ہزاروں جتن کے بعد، جبکہ چینی کا ریٹ ہر
دوسرے دن اوپر نیچے ہو رہا ہوتا تو قصور وار شوگرملز یا سٹاک مافیا ہوا یا
کسان؟ سبزیاں ، پھل کسان سے کس ریٹ پر آڑھتی خریدتا ہے ؟ کبھی چیک تو کریں،
پھر وہ کس ریٹ پر فروخت کرتا ہے؟ پھر ریڑھی بانوں کے ٹھیکیدار کس ریٹ پر
فروخت کرواتے یہ ایک پورا مافیا ہے ۔ لیکن جب کسان کو ہی اس کی محنت پوری
نہیں ملنی تو وہ اپنی زمینیوں پر ہل چلانے کی بجائے کالونی بنانے کو ترجیح
دے گا۔ ویسے بھی اگر ہر جگہ کالونیاں ہی بن گئیں تو یہ لہلاتے کھیت، یہ
ٹیوب ویل، یہ مویشیوں کی گردنوں میں بندھی گھنٹیوں کی ٹن ٹن اور چہچہاتے
پرندے کہاں نظر آئیں گے ؟ مضمون طویل نہ ہو جائے اس لیے اختتام اپنی ایک
نظم پر کرتا ہوں جس پر مزید تبصرہ آپ قارئین پر چھوڑا جاتا ہے ۔
کیا تمہیں اچھا نہیں لگتا؟
یہ موسم، یہ کھیت یہ منظر
یہ ہریالی، یہ درخت، یہ بادل
یہ مٹی، یہ گاؤں، یہ لمبی سڑک
یہ کھیت نہیں ارمان ہیں
یہ بادل نہیں سائبان ہیں
یہ بادلوں میں چھپا سورج
انسان کی عقل پر حیران ہے
گنوانا مت۔ کھونا مت
ان کھیتوں کو، ان درختوں کو
اپنی مٹی کو، اپنی دھرتی کو
یہاں اگتے کھیت ہی اچھے ہیں
یہاں اڑتی دھول ہی اچھی ہے
پلتے ہیں ہزاروں کے ارمان
مچلتے ہیں ہزاروں کے ارمان
برکھا رت سمیٹو ذرا
بے لگام تعمیرات کو روکو ذرا
منظر نا سارا الٹ جائے
آکسیجن کی خاطر نہ لٹ جائے
بچا لو اس کو، سنبھالو اس کو
شام ہونے سے پہلے
آکسیجن کی لوڈشیڈنگ ہونے سے پہلے
|