افغانستان اور پاکستان دو پڑوسی
ہی نہیں اسلامی ممالک بھی ہیں دونوں ملکوں کے تعلقات قدرتی اور فطری ہیں۔
افغان خانہ بدوش خاندان عرصہ دراز سے شدید سرد موسم سے بچنے کیلئے خیبر
پختونخواہ کے گرم علاقوں مثلاً پشاور ، چارسدہ ، مردان وغیرہ میں آتے تھے
یہ بالکل معمول کا عمل تھا اور کوچی کہلانے والے یہ لوگ موسم بہتر ہوتے ہی
واپس چلے جاتے تھے نہ ہی کسی بد امنی کا باعث بنتے تھے اور نہ فساد کا۔
افغانستان کے کچھ حکمران پاکستان کے متعلق مختلف خیالات رکھ سکتے تھے لیکن
اس کے خلاف کوئی منصوبہ نہ بناتے تھے نہ رکھتے تھے۔ روس کے خلاف جنگ بظاہر
تو افغانوں نے جیتی لیکن اس لیے کہ ان کی پشت پر پاکستان تھا۔ پاکستان نے
لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی انہی میں سے ایک آج کا افغان صدر حامد
کرزئی بھی تھا۔ افغان عوام آج بھی پاکستان کے اس احسان کو یاد کرتے ہوں گے
مگر اس کے حکمران آج غیروں کے اشاروں پر اس محسن کے خلاف نبردآزما ہیں جس
نے کئی دہائیوں تک اپنی معیشت، معاشرت، ثقافت، تعلیم غرض ہر شعبے پر تیس
لاکھ رجسٹرڈ اور کئی لاکھ ان رجسٹرڈ مہاجرین کا بوجھ برداشت کیا بلکہ ابھی
بھی کر رہا ہے۔ پشاور کے بازار اور گلیاں اب بھی ان مہاجرین سے بھری ہوئی
ہیں نہ شہر میں ترتیب نظر آتی ہے نہ منصوبہ بندی اورنہ تنظیم۔ پاکستان میں
ہونے والے دھماکوں اور دہشت گردی میں وہ لوگ بہت حد تک ملوث ہیں جو افغان
مہاجرین کے روپ میں یہاں آئے چاہے وہ ازبک تھے، تاجک تھے، یا قازق یا عرب
تھے اور اب بھی یہ آنا جانا لگا ہوا ہے اور اسی کی آڑ لے کر عالمی طاقتیں
اپنے مقاصد کے حصول کیلئے نہ صرف اپنے ایجنٹ پاکستان میں داخل کر رہی ہیں
بلکہ پاکستان کے مخالفین کو بھی افغانستان میں نہ صرف پناہ دی جارہی ہے
بلکہ ان کی باقاعدہ تربیت بھی کی جارہی ہے انہیں تمام سہولیات مہیا کی
جارہی ہیں اور ان کی باقاعدہ پشت پناہی کی جارہی ہے۔ بلوچستان میں چلنے
والی تمام بد امنی افغانستان سے کنٹرول ہو رہی ہے اور یہ سب کچھ بھارت اور
امریکہ کے اشاروں پر ہو رہا ہے ۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو
تمام تر مالی معاونت افغانستان کے راستے مہیا کی جارہی ہے اور اسلحہ بھی
ادھر ہی سے آرہا ہے ۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ براہمداغ بگٹی افغانستان میں
ہی بیٹھ کر پاکستان کی سا لمیت کے خلاف سرگرم عمل ہے اور بلوچستان
افغانستان طویل سرحد سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ بھارت اس معاملے میں نہ صرف اس
کا مدد گار ہے بلکہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اسے استعمال کر رہا ہے۔ اسے
براہمداغ سے بھی کوئی ہمدردی نہیں لیکن اس کی خواہش پاکستان توڑ کر اپنی
پاکستان دشمنی نکالنی ہے۔ حربیار اگر بھارتی وزیر اعظم کو پاکستان کے اوپر
سے اڑتے ہوئے بلوچستان کے حالات دیکھنے کی دعوت دیتا ہے اور افغانستان سے
زیادہ بلوچستان کی فکر کرنے کو کہتا ہے تو کسی رشتے ناطے اور امید سے ہی
کہتا ہے اور بھارت اس سارے کھیل میں انتہائی آسا نی سے اپنے دوست اور نمک
خوار حامد کرزئی کی مدد سے مصروف ہے ۔ حامد کرزئی اُسے پاکستانی سرحد پر
قونصلیٹس کی قطار کھڑی کرنے کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ ہر قسم کی سہولت
مہیا کرتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ ایمان نہ لانے والے کبھی مسلمانوں کے
دوست نہیں ہو سکتے اور ہندو اپنی فطرت اور خصلت کے عین مطابق اسے بھی ڈسے
گا۔ دوسری طرف یہی افغانستان جو بھارت اور امریکہ کی پیروی میں اپنے ہاں
ہونے والے ہر واقعہ کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتا ہے خود وہ پاکستان میں
دہشت گردی کرنے والوں کو پناہ دیئے ہوئے ہے۔ برہمداغ بگٹی نے سویٹزرلینڈ
میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کیلئے بھارتی پاسپورٹ پر افغانستان سے سفر کیا۔
افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت خود افغانستان پر تو حکومت کر نہیں سکتی
تاہم کرزئی صاحب اپنی صدارت قائم رکھنے کیلئے ہر قسم کی امریکی خدمات سر
انجام دینے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ پاکستان میں امن و امان کے مسائل پیدا
کرنا امریکی منصوبہ بندی کا حصہ ہے کیونکہ جو نہی امن و امان کی صورت حال
بہتر ہوگی پاکستانی عوام کی توجہ اپنے بین الاقوامی مسائل پر مرکوز ہوگی ،
خارجہ پالیسی بھی زیر نظر آئے گی تو امریکہ کے ساتھ تعلقات پر غور کیا جائے
گا، معاشی حالت بہتر ہو گی تو امریکی امداد سے گلو خلاصی ہو گی اور پھر
یقینا امریکی حکم اور محکومی سے بھی جان چھوٹے گی اور وہ امریکی مفادات کے
تحفظ کیلئے مجبور نہ ہوں گے اور اس طرح یہ سلسلہ چل نکلے گا جو قومی خود
مختاری کی بحالی پر منتج ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ اور
امریکہ نواز حامد کرزئی پاکستان دشمنوں کو ہر قسم کی تربیت اور سہولت بہم
پہنچارہے ہیں۔ برہمداغ ہو یا منگل باغ سب ان کے منظور نظر ہیں ۔ منگل باغ
جب گھیرے میں آتا ہے تو افغانستان کی طرف بھاگتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق اس نے
ننگر ہار صوبے میں نازیان شنواری میں امین شاہ شنواری کے پاس پناہ لی ۔
مولوی فضل اللہ سوات سے بھاگتا ہے تو افغانستان میں ہی اسے پناہ ملتی ہے
اور ادھر ہی سے اس نے چترال سکائوٹس پر حملہ کیا۔
افغانستان بغیر کسی ثبوت کے صرف امریکہ اور بھارت کی شہ پر ہر الزام
پاکستان کے سر تھوپتا ہے اگر وہ خود اپنے اعمال پر بھی غور کر لے تو بہتر
ہوگا۔ بھارت اور امریکہ کا جوڑ افغانستان سے ہر گز فطری نہیں بلکہ یہ صرف
اپنے مفادات کیلئے ہے اور مفادات کے حصول کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا لیکن
رہنا پاکستان اور افغانستان نے مل کر ہے کیونکہ سرحدیں ہماری مشترک ہیں ،دین
اور مذہب ہمارا ایک ہے ،خدا اور رسول ہمارا ایک ہے، ثقافتی اور مذہبی رشتے
ہمارے ہیں پھر آخر کیوں افغان حکومت ہم سے ہی نبرد آزما ہے وہ جانتے ہیں کہ
بھارت کا ریکارڈ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کتنا گھنائونا ہے اور جہاں تک
طالبان کی محفوظ پناہ گاہوں کا تعلق ہے جو بقول حامد کرزئی کے پاکستان میں
ہیں اور وہ نیٹو افواج سے درخواست کر رہے ہیں کہ اس کی طرف توجہ دیں تو
کیوں نہ وہ خود افغانستان میں حالات بہتر کر لیں اور طالبان سے جو درحقیقت
افغانی ہیں بات کریں بجائے امریکہ اور بھارت سے مدد لینے کے ان سے ترقیاتی
کاموں میں مدد لیں، امن و امان پر توجہ دیں اور تمام افغان مہاجرین کو واپس
لے جائیں تو پاکستان میں بھی امن و امان قائم ہو جائے گا۔ اگر افغانی
پاکستان میں دہشت گردی کے ذمہ دار نہیں ہیں اور ان کے ساتھ آئے ہوئے عرب،
تاجک ، ازبک سب بھی چلے جائیں تو یوں ہمارے لیے بھی ان بے شمار قومیتوں میں
سے دوست دشمن کی پہچان آسان ہو جائے گی۔ ہمارے مجرموں کو پناہ دینا بھی
چھوڑدیں اور یہ بھی یاد رکھئیے طالبان بنیادی طور پر افغان ہیں لہٰذا مزید
طالبان بنانا چھوڑ دیں حالات خود بخود بہتر ہو جائیں گے۔ |