پاکستانی معاشرے میں "اللہ توکل" کا تصور عام ہے، اور یہ سوچ ہماری روزمرہ
زندگی، فیصلہ سازی، اور مسائل کے حل پر گہرے اثرات ڈالتی ہے۔ اسلام میں
اللہ پر بھروسہ کرنے کو اہم قرار دیا گیا ہے، لیکن ہمارے ہاں اس تصور کو
اکثر غلط سمجھا اور غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اللہ پر
توکل ایمان کا ایک اہم جز ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنی ذمہ
داریوں سے بری الذمہ ہو جائے اور ہر معاملے کو محض "اللہ کی رضا" کہہ کر
چھوڑ دے۔ یہ طرز عمل نہ صرف ہمارے انفرادی بلکہ اجتماعی نظام کو بھی متاثر
کر رہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں اکثر لوگوں نے "اللہ توکل" کا مفہوم اس طرح سے اپنا لیا
ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو چھپانے کے لیے اس کا استعمال کرتے
ہیں۔ جب بات کام کی ذمہ داری، تعلیم، صحت یا ٹریفک قوانین کی پابندی کی ہو،
تو لوگ یہ کہہ کر اپنی کوتاہی کو جائز قرار دیتے ہیں کہ "سب اللہ کے ہاتھ
میں ہے"۔ مثال کے طور پر، کسی حادثے یا ناکامی پر اسے قسمت یا "اللہ کی
مرضی" سمجھ کر قبول کر لیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت میں یہ باتیں اکثر ہماری
اپنی غفلت یا بدانتظامی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں بہت سے لوگ اللہ توکل کے نام پر غیر ذمہ دارانہ رویہ
اپناتے ہیں۔ مثلاً، صحت کے مسائل پر لوگوں کا کہنا ہوتا ہے کہ "اللہ مالک
ہے" اور وہ بروقت علاج یا حفاظتی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔ اسی طرح ٹریفک
قوانین کی خلاف ورزی کرتے وقت بھی یہی سوچ غالب ہوتی ہے کہ "جو ہونا ہے، ہو
جائے گا۔" اس طرح کے رویے نہ صرف انفرادی نقصان کا باعث بنتے ہیں بلکہ
معاشرتی نظام کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
"اللہ توکل" کی غلط تشریح ہماری معاشرتی اور اقتصادی ترقی میں بھی رکاوٹ بن
رہی ہے۔ مثال کے طور پر، تعلیمی شعبے میں اگر اساتذہ اور طلباء اپنی ناکامی
کو اللہ توکل کے نام پر قبول کرتے رہیں گے تو تعلیمی معیار میں کیسے بہتری
آئے گی؟ اسی طرح جب ہمارے ادارے بدعنوانی اور بدانتظامی کا شکار ہوں تو اس
کا الزام محض قسمت پر ڈالنا غیر منصفانہ ہے۔ اس سے محنت اور جدوجہد کی
اہمیت کم ہو جاتی ہے اور لوگ بہتر کام کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔
اسلام میں اصل توکل کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنی پوری محنت اور ذمہ داری
سے کام کرے اور پھر نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا
ہے، "اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرے" (النجم: 39)۔ اس آیت
کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنی کوشش اور ذمہ داری پوری کرنی چاہیے، پھر
اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کرنے
کا مطلب اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا نہیں بلکہ اپنی بہترین
کوشش کرنا ہے۔
پاکستانی معاشرے کو اللہ توکل کی اصل روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی
ذمہ داریوں اور فرائض کو پورا کرنا چاہیے اور معاشرتی، تعلیمی اور پیشہ
ورانہ زندگی میں محنت کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ "اللہ توکل" کا صحیح مطلب
یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش پوری کریں، منصوبہ بندی کریں اور مسائل کے حل کے لیے
عملی اقدامات کریں۔ صرف اسی صورت میں اللہ کی مدد بھی ہمارے شاملِ حال ہو
گی۔
ہمیں بحیثیت قوم اپنی سوچ کو بہتر بنانے اور "اللہ توکل" کو ایک متحرک اور
مثبت انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک مضبوط، ذمہ دار اور ترقی
پسند معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں۔ اللہ پر بھروسہ بے شک ضروری ہے، مگر ساتھ
ہی عمل کی قوت اور ذمہ داری کا احساس بھی لازم ہے۔
|