جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کچھ
عرصہ قبل عروس البلاد کراچی کے حالات کافی خراب تھے اور شہر قائد جل رہا
تھا اس وقت ہر صحافی نے کراچی کے حالات کے بارے لکھا اور راقم نے بھی
روشنیوں کے شہر کے دگرگوں حالات پر لکھا تھالیکن کچھ دن قبل راقم کراچی میں
تھا جو میں نے وہاں دیکھا جس کا مشاہدہ کیا اور جو تجربات مجھے حاصل ہوئے
وہ میں آپ قارئین سے شیئر کرتا ہوں ،جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کراچی
پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور پاکستان کی تقریباََ 70فیصد انکم کراچی ہی
سے بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر آتی ہے اسی لئے اسے پاکستان کی معیشت میں
ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہونے کے ساتھ پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کا درجہ
بھی حاصل ہے شہر قائد میں ہر نسل،ہر قبیلے،ہر شہر اور ہر ذات سے تعلق رکھنے
والے لوگ بسلسلہ ءروزگار آباد ہیں اور یہاں جس ایریا میں جس قوم کی اکثریت
ہے وہ اس قوم کا علاقہ کہلاتاہے مثال کے طور پرجہاں پٹھانوں کی اکثریت ہے
تو وہ پختونوں کا ایریا کہلائے گا جہاں بلوچ زیادہ تعداد میں رہتے ہوں گے
وہ جگہ بلوچوں کی آبادی کہلائے گی اور جہاں مہاجر زیادہ تعداد میں رہائش
پذیر ہیں وہ مہاجروں کا علاقہ ہوگا، یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ جہاں دو
برادری کے لوگ اکٹھے رہتے ہوں گے وہاں فسادات کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے اور
ان علاقوں میں کچھ فسادی لوگ بھی اپنا کام دکھانے کے چکر میں رہتے ہیں
جونہی کچھ بات ہوتی ہے تو یہ فسادی عناصر حرکت میں آ جاتے ہیں اور ذرا سی
بات کا بتنگڑ بنا کر امن کو تباہ کرنا شروع کر دیتے ہیں اگر میں یہ کہوں تو
غلط نہیں ہوگا کہ شہر قائد میں لسانیت بہت زیادہ ہے جس سے شرپسند عناصر
فائدہ اٹھاتے ہیں ایک اور بات جو میرے مشاہدے میں آئی وہ یہ ہے کہ روشنیوں
کے شہر میں وال چاکنگ بہت زیادہ ہے اور یہ وال چاکنگ کمپنیوں کے اشتہارات
سے زیادہ سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کی جانب سے کی گئی ہے جن میں بعض
تحریروں میں کافی غلیظ زبان استعمال کی گئی ہے جو کہ شہر میں نفرت کا باعث
بن رہی ہے اس لئے کراچی کی انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ ایسی وال چاکنگ کو
روکنے میں کردار ادا کرے ،کسی بھی شہرمیں ٹریفک کو رواں رکھنا کافی مشکل
ہوتا ہے اور کراچی جو کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کاسب سے بڑا شہر ہے وہاں
کی ٹریفک کے بہاﺅکو کنٹرول کرنا جاں جوکھوں کا کام ہے لیکن اس شہر میں کوئی
شک نہیں کہ مصطفی کمال نے اپنے دور میں کافی ترقیاتی کام کروائے تھے جن میں
ٹریفک کے بہاﺅ کو کنٹرول کرنے کے لئے فلائی اوور اور انڈر پاس قابل تحسین
ہیں جہاں اس بڑے شہر کی ٹریفک کو رواں رکھنے میں سڑکوں کی بحالی کے لئے
مصطفی کمال نے کام کئے ہیں تو وہیں اس ٹریفک کو چلانے میں ٹریفک پولیس کی
کوششوں کا عمل دخل بھی ہے لیکن یہاں یہ بات میں ضرور کہوں گا کہ کئی جگہوں
پر میں نے خود دیکھا کہ کراچی کی ٹریفک پولیس مک مکا (رشوت )میں مصروف تھی
بلکہ ایک جگہ تو راقم سے بھی دھڑلے سے چائے پانی دینے کو کہا تو میں حیراں
ہوئے بغیر نہیں رہ سکااللہ ان کو ہدایت کاملہ دے لیکن ٹریفک پولیس کراچی کے
افسران بالا کو چاہئے کہ وہ محکمے میں ان کالی بھیڑوں کی نشاندہی کرکے ان
کو نکال باہر کریں جو کہ اس محکمے کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں ،عروس
البلاد کراچی میں زندگی انتہائی مصروف ہے مصروفیت ،ڈر اور خوف نے وہاں کے
باسیوں کو چڑچڑا بنا دیا ہے لیکن کچھ لوگ ان مصروفیات میں سے وقت نکال کر
زندگیوں کو حسین بنانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور بھرپور
انداز میں زندگی کو انجوائے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں یہاں میں سٹریٹ کرائم کا
ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شہر قائد میں سٹریٹ کرائم کی شرح کافی زیادہ
ہے کیونکہ جو دوست مجھے سی۔آف کرنے آیا تھا واپسی پر موبائل اور نقدی سے
ہاتھ دھو بیٹھا مجھے بہت افسوس ہوا لیکن اس نے یہ کہا کہ آپ زیادہ پریشان
نہ ہوں یہاں پر سٹریٹ کرائم معمول کا حصہ ہیں۔
میری اہل کراچی سے گذارش ہے کہ وہ آپس میں مل جل کر رہیں ،نفرتوں کو مٹا
دیں محبتوں کو جگہ دیں ،مسکراہٹوں اور خوشیوں کو روشنیوں کے شہر میں
بکھیرتے چلے جائیں کیونکہ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں اگر تم نہ سنبھلے اور
اسی ڈگر پر چلتے رہے تو یہ خاموش سمندر جس میں کئی راز پوشیدہ ہیں کہیں
بپھر نہ جائے اورتمہیں سر چھپانے کی بھی جگہ نہ ملے اس لئے اب بھی وقت ہے
اٹھ جاﺅ اور دنیا کو بتادو کہ اس سبز ہلالی پرچم کے سائے میں ہم ایک ہیں
اور ایک رہیں گے۔پھر دیکھنا شہرقائد میں رونقیں کیسے بحال ہوتی ہیں قہقہے
کیسے حسین لگتے ہیں زندگی کتنی خوبصورت ہوتی ہے ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر
ہو۔آمین |