صاحب اختیار ہو، ڈگری دے دیا کرو

دوبئی میں مشاعرے کے شرکاء واہ واہ کررہے ہیں، داد دیتے دیتے وہ جیسے تھک سے گئے ہوں ، سلیم جعفری مرحوم نے ریگزاروں میں پھول جو کھلا دیے تھے ، ہر سال جشن برپا ہوتا تھا، دنیا بھر سے شعراءکی آمد رہتی تھی۔کبھی جشن فیض تو کبھی جشن فراز، کبھی جشن خمار تو کبھی جشن مجروح۔ ایک جشن میں تودلیپ کمار تک کھنچے چلے آئے تھے اور اپنی خوبصورت اردو اور لب و لہجے سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔

ان مشاعروں میں یوں تو داد دینے والوں کی کمی کبھی نہ رہی لیکن ایک شاعر ایسے تھے جن کو ہر مرتبہ شرکاءجاتے جاتے روک لیا کرتے تھے، یہ پیرزاد ہ سید قاسم رضا صدیقی تھے، شخصیت بھی دلکش اور کلام کے تو کیا کہنے، ایک کے بعد ایک غزلیں سناتے جاتے تھے اور لوگوں کے دل موہ لیتے تھے۔ یادش بخیر، ایسے ہی ایک جشن کے دوران صاحب صدر کنور مہندر سنگھ بیدی نے یہ کہہ کر پیرزادہ قاسم کو دعوت دی کہ ” اب میں جن شخصیت کو بلا رہا ہوں ان کا میں بیحد احترام کرتا ہوں، اس لیے کہ وہ ایک اچھے شاعر ہیں اور آ ل رسول ہیں “۔

نوے کی دہائی میں دوبئی کے یہ مشاعرے اور کراچی کے خراب حالات، دونوں عروج پر تھے۔ایسے میں پیرزادہ قاسم نے دوبئی کے ایک مشاعرے میں ایک غزل پڑھی جو بہت تیزی سے زبان زد عام ہوگئی، اس کا یہ شعر تو مقبولیت کے بام عروج تک پہنچا :

شہر کرے طلب اگر تم سے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو، آگ لگا دیا کرو

آج بھی اس شعرکا حوالہ جابجا دیا جاتا ہے، سیاست دانوں نے بھی بڑھ کر اس شعر کو اچک لیا اور گرہ میں باندھ کر رواں ہوگئے۔

پھر ایک روز ہم نے سنا کہ پیرزادہ قاسم ، جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ہوگئے ہیں۔ ایک معتبر ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے مزید نیک نامی سمیٹی۔

جامعہ کراچی نے اختر حمید خان، جمیل الدین عالی، عبدالستار ایدھی، پروفیسر احمد علی، مشتاق احمد یوسفی جیسے شخصیات کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ڈاکٹریٹ کی اعزاری سند عطا کی۔ یہ تمام نام معتبر ہیں ، معاشرے کے ہر طبقے نے ان فیصلوں کو سراہا۔

صاحبو! اعزاری ڈگری دینے کا رواج کوئی نئی بات نہیں، قرون وسطی میں اس کا آغاز ہوا تھا، یہ بات ہے سن 1470 کی جب آکسفورڈ یونیورسٹی نے برطانیہ کے Lionel Woodville کو یہ ڈگری عطاءکی گئی تھی، موصوف بعد میں Bishop of Salisbury. ہوئے تھے۔

گویا Bishop سے آغاز ہوا اور Butcher پر اختتام۔

2007 میں مظاہرین نے ایڈنبرا یونیورسٹی کے اس فیصلے پر احتجاج کیا جس میں یو نیورسٹی انتظامیہ نے زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے کو 1984 میں یہ ڈگری دی گئی تھی، عوامی احتجاج کو نظر انداز نہ کرتے ہوئے انتظامیہ نے اس ڈگری کو دیے جانے کے طریقہ کار میں تبدیلی کردیا، نئے طریقہ کار کے مطابق ڈگری کے وصول کنندہ پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور مالی بے ضابطگیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کو بھی مدنظر رکھاجانے لگا۔ رابرٹ موگابے سے ڈگری واپس لے لی گئی۔ اس سلسلے میں ایک حالیہ باوقار مثال اس وقت سامنے آ ئی جب ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے صدر نائیکل ایم کرو نے امریکی صدر بارک اوبامہ کو یہ ڈگری دینے سے انکار کردیا۔

ہمیں اس پر فخر ہے کہ ہم اس شہر میں رہتے ہیں جہاں جامعہ کراچی جیسے ادارے موجود ہیں، مندرجہ بالا ادبی و علمی شخصیات کو اعزاری ڈگری ملنے پر ہمارا دل بھی باغ باغ ہوا تھا، یہ پیرزادہ قاسم کی شاعری ہی کا فیضان ہے کہ ہم میں اتنا سیاسی شعور پیدا ہوگیا ہے کہ ہم ہر سیاست دان کو شبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں اور جب پیرزادہ صاحب بحیثیت وائس چانسلر، اس مملکت خداداد کے اعلٰی و بااختیار عہدے پر فائز ایک سیاسی شخص کو پی ایچ ڈی کی اعزاری ڈگری سے نوازنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ہم پیرزاد ہ سید قاسم رضا صدیقی صاحب کو بھی شبہے کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

گویا جامعہ نہ ہوئی، خالہ جی کا گھر ہوگیا!

چند ہفتوں سے دبے لفظوں میں انگلیاں اٹھنی شروع ہوگئی تھیں ، وہ شعراءجواخباری کالمز بھی لکھتے ہیں، چپ سادھے پڑے ہیں، کچھ لکھتے ہیں تو تعلقات پر ضرب پڑتی ہے، اگلے کسی مشاعرے میں پیرزادہ قاسم سے ملاقات ہونی تو لازمی ہے۔ بلاآخر بی بی سی (وسعت اللہ خان) بھی بول پڑا:

” پراسرار تعلیمی قابلیت کے حامل پراسرار وزیر داخلہ کی پراسرار خدمات کے عوض کراچی یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کرنے کے پراسرار فیصلے کی خبر پر اس یونیورسٹی کے مشفق وائس چانسلر ہی کا ایک شعر یاد آرہا ہے:

یہ سوچتے ہیں کب تلک ضمیر کو بچائیں گے
اگر یونہی جیا کیے، ضرورتوں کے درمیان

اور تب سے ہم پیرزادہ صاحب ہی کا یہ مصرع کچھ ترمیم کے ساتھ گنگنا رہے ہیں:

صاحب اختیار ہو، ڈگری دے دیا کرو
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 280105 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.