سائنسی شہروں میں چین کی نمایاں سبقت

نیچر انڈیکس 2024 سائنس سٹیز کے مطابق سرفہرست 20 سائنسی شہروں میں سے نصف اب چین میں ہیں۔سائنس ٹیک جدت طرازی کے مراکز اور سائنسی شہروں کے موضوع پر منعقدہ ایک فورم کے دوران بتایا گیا کہ بیجنگ ان شہروں میں سرفہرست ہے۔ شنگھائی اب دوسرے نمبر پر ہے اور نیو یارک تیسرے نمبر پر موجود ہے۔نیچر انڈیکس سے پتہ چلتا ہے کہ بیجنگ 2016 کے بعد سے دنیا کا سرفہرست سائنس شہر بنا ہوا ہے۔ دیگر چینی شہروں، خاص طور پر نان جنگ، ووہان، ہانگ چو، حہ فی اور شی آن جیسے صوبائی دارالحکومتوں نے بھی عالمی سطح پر مسابقتی سائنسی مراکز کے طور پر اپنی پوزیشن کو بہت بہتر بنایا ہے.

نیچر انڈیکس کے مطابق ان میں سے بہت سے ترقی پذیر شہر الیکٹرک گاڑیوں اور شمسی توانائی جیسے کلیدی ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ماہرانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ نیچر انڈیکس کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ بیجنگ اور شنگھائی نے واضح برتری برقرار رکھی ہے ، لیکن چین کے کچھ چھوٹے شہروں سے کیمسٹری گروتھ میں اضافہ انہیں اس میدان میں مستقبل کے حریف کے طور پر لاکھڑا کرسکتا ہے۔ فزیکل سائنسز میں مشرقی شہر نان جنگ پہلی بار بوسٹن اور نیویارک سے سبقت لیتے ہوئے تیسرے نمبر پر پہنچ گیا۔ نیچر انڈیکس کے مطابق پائیداری اور ماحولیاتی تحفظ پر اپنی مسلسل توجہ کے ساتھ، چین ارضیاتی اور ماحولیاتی سائنس میں خود کو ایک رہنما کے طور پر مضبوط کر رہا ہے. بیجنگ، نان جنگ اور گوانگ جو اس موضوع میں تین اہم شہر ہیں۔ انڈیکس مزید کہتا ہے کہ اگرچہ ہیلتھ سائنس میں واضح پیش رفت ہوئی ہے، لیکن یہ ایک ایسا شعبہ جہاں چینی شہر اب بھی اپنے مغربی ہم منصبوں سے پیچھے ہیں.

حالیہ برسوں کے دوران چین نے سائنس و ٹیکنالوجی میں بے شمار کمالات دکھائے ہیں اور تکنیکی اعتبار سے چین آپ کو صف اول میں نظر آئے گا. اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں ٹیکنالوجی دوست رویے ہیں جن کی بنیاد پر حالیہ برسوں میں چین نے تکنیکی شعبے میں بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کو ہمیشہ فوقیت دیتے ہوئے آج چین اختراعات کی نمایاں ترین اقوام اور عالمی اختراعی نظام کا اہم ترین حصہ بن چکا ہے۔

وسیع تناظر میں،حالیہ برسوں میں چین نے آر اینڈ ڈی میں اپنی سرمایہ کاری کے حوالے سے کئی اہم سنگ میل عبور کیے ہیں۔ ملک نے سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مستقبل کے لئے ایک جرات مندانہ نقطہ نظر بھی پیش کیا ہے۔چین کے نزدیک ملک کی آئندہ ترقی کے لیے آر اینڈ ڈی کا فروغ، انوویشن کی بنیادی قوت محرکہ ہے اور پالیسی سازی میں جدت طرازی کو قومی ترقیاتی حکمت عملی کے مرکز میں رکھنا ہوگا۔

چین کی اعلیٰ قیادت نے اس بات کا اعادہ بھی کیا ہے کہ ملک کو تکنیکی خود انحصاری کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے اور سائنسی اور تکنیکی کامیابیوں کو پیداواری صلاحیت میں تبدیل کرنے میں تیزی لانی چاہئے۔ اس کی عکاسی چینی حکومت کی جانب سے آر اینڈ ڈی میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ملک کے آر اینڈ ڈی نظام کی کارکردگی کو بڑھانے کی کوششوں سے ہوتی ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ چین کی سائنس و ٹیکنالوجی نے گزشتہ ایک دہائی میں تاریخ کی کسی بھی دوسری دہائی کے مقابلے میں تیزی سے ترقی کی ہے۔اس عرصے کے دوران سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کی تاریخی پیش رفت "جامع تو ہے ہی" مگر اس کی بدولت آج چین اختراعات کی نمایاں ترین اقوام اور عالمی اختراعی نظام کا اہم ترین حصہ بن چکا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں چین کی تیز رفتار ترقی کے پیچھے جو قوت کارفرما ہے وہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر مسلسل توجہ دینا ہے۔

اسی طرح چینی آبادی بھی سائنسی طور پر مزید خواندہ ہوتی جا رہی ہے، زیادہ سے زیادہ لوگ سائنس کو سمجھنے اور زندگی اور کام سے وابستہ مسائل کو حل کرنے کے لیے سائنسی رویوں کے اطلاق کو وسعت دے رہےہیں۔شہروں کی بات کی جائے تو شنگھائی، بیجنگ اور تھین جین کو سرفہرست تین شہروں کے طور پر شمار کیا جاتا ہے، جہاں سائنسی طور پر خواندہ افراد کا تناسب دیگر شہروں کی نسبت قدرے بلند ہے۔ چین کی کوشش ہے کہ ملک میں سائنسی رویوں کو بھرپور انداز سے پروان چڑھایا جائےاور ملک کی اقتصادی سماجی ترقی کی کوششوں میں سائنسی طور پر خواندہ افراد کی شمولیت کو مزید آگے بڑھایا جائے۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1330 Articles with 618844 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More