خاصیت فطرت نہیں

گیلیٹ برگس کا وہ نظریہ جس میں انہوں نےدنیاکےانسانوں کودوحصوں میں تقسیم کیاہے.....سلفائٹس اور برومائڈز....
(سلفائٹس یعنی خاص سوچ اورخاص عمل رکھنےوالےلوگ اوربرومائڈزیعنی عام سوچ اورعام زندگی گزارنےوالے لوگ)
بلکل ہی غلط نظریہ ہے.....
کیونکہ دنیامیں موجودہرانسان خاص ہےہرانسان کی سوچ الگ ہےجواسے دوسرےسےمنفردبناتی ہےبس ضرورت اس امرکی ہےکہ انسان کواسکےخاص ہونےکااحساس دلایاجائے
کوئی بھی انسان مکمل طورپر پرفیکٹ نہیں ہوسکتاپرہرانسان کے اندرایک ایسی خوبی ضرورہوتی ہے جواسےدوسروں سےالگ بناتی ہے
دوسروں کی خوبیوں اورصلاحیتوں کودیکھنےاورافسوس کرنےکےبجائے ہمیں اپنی اس خوبی کوڈھونڈناچاہیےجوصرف ہمارےپاس ہےجوہمیں الگ بناتی ہے اور جوہمیں خاص بناتی ہے
عمومی طور پرانسان وہی سیکھتا ہے جو اسےسکھایاجاتاہےوہ بھی اس کے سیکھنےکی عمر تک یعنی زندگی کے پہلےدس سالوں میں اسے جو سیکھا دیا گیا وہ ہمیشہ اس کےساتھ جڑا رہتا ہے جو عادتیں اس کچی عمر میں پکی ہو جائیں تو پھر وہ کبھی نہیں چھڑائی جاسکتی
اگراسےاچھائی سکھائی جائےگی تو وہ اچھائی کی طرف ہی راغب ہوگا کیونکہ جب اس نے برائی کانام سنا ہی نہ ہوگاتوبھلاوہ ایساکام کیوں کرےگا جو اس نےدیکھا ہی نہ ہو جسےوہ جانتاہی نا ہو اور جس کے بارےمیں اسےکچھ پتا ہی نا ہو وہ کبھی بھی ایساکام نہیں کرےگا
جس طرح فطرتِ انسانی میں اچھا ہونا یا برا ہونا شامل نہیں اسی طرح خاص ہونا یا عام ہونابھی اسکی فطرت میں شامل نہیں جو اسے بتایا جائےگاوہ اسی پر عمل کرےگا.اس سے یہ ظاہر ہے کہ یہ نظریہ بلکل غلط ہے ہاں البتہ یہ کہا جا سکتا ہےکہ جس کے اندر یہ احساس پیدا ہو گیا کہ وہ خاص ہے تو اسےسلفائٹ کہا جاسکتا ہے
اگرہم شروع سےہی اپنےبچوں کویہ بات سمجھادیں کہ وہ اپنی زندگی کا ایسا مقصد ڈھونڈیں جو انہیں خاص بناتا ہے تو یقیناً ان کے اندر ایک ایسا جزبہ پیدا ہو گا جو انہیں ان کی منزل تک لے کر جائے گا
اس کابہترین طریقہ یہ ہےکہ جس عمر میں ہم اپنےبچوں کو موبائل جیسی آفت تھما دیتے ہیں اس عمر میں ہم انہیں ان لوگوں کی تاریخ سےآشنا کروائیں جنہوں نےدنیا میں بڑےاور عظیم کارنامےانجام دےکرخودکو خاص ثابت کیاہے
تاریخ ایسےلوگوں سےبھری پڑی ہے پر افسوس کی بات ہے کہ آ ج کل کی مائیں اپنے فیشن اور آرام سکون کے چکر میں اپنے بچوں سے جان چھڑانے کے لیے انہیں موبائل تھما دیتی ہیں جس عمر میں انہیں چاہیے کہ وہ دنیا پر غور کریں اور اپنے اس دنیا میں آنے کے مقصد کو پہچانیں اس عمر میں وہ بچے ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر اپنا نام کمانے کے لیے کچھ بھی کر دیتے ہیں چاہے اس میں ان کی عزت کی نیلامی ہی کیوں نہ ہو جائے اور اس سب میں وہ ایسے مدحوش ہو جاتے ہیں جیسے اس کے علاوہ دنیا تو کچھ ہے ہی نہیں بس جو کچھ ہے وہی ہے اب آخر میں وہی مائیں جنہوں نے اپنے بچوں کی اچھی تربیت نہیں کی ہوتی وہ سر پر ہاتھ رکھ کر روتی ہیں اور جس عمر میں انہیں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اس عمر میں وہ تنہا رہ جاتی ہیں
والدین کی کچھ فضول امیدیں بھی نوجوان نسل کو ان کی راہ سے ہٹا دیتیں ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے مقصد کو بھول جاتے ہیں والدین اپنے بچوں کی دلچسپی کو دیکھے بغیر ان کے سر پر بوجھ ڈال دیتے ہیں اور ہمیشہ انہیں دوسروں کو ہرانے کا کہتے ہیں وہ ہمیشہ اپنے بچوں کے معصوم ذہنوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ وہ بس دوسروں سے آگے نکلیں ان کی بےتکی خواہشات کو پورا کرتے کرتے وہ کبھی خود پر غور ہی نہیں کرتے کہ وہ خود کس چیز میں مہارت رکھتے ہیں جس میں وہ ایک اچھا نام کما سکتے ہیں اور اپنے آ پ کو خاص اور دوسروں سے بہتر ثابت کر سکتے ہیں مگر ہمارے والدین شروع سے ہی اپنے بچوں کے دلوں میں بغض اور عداوت ڈال دیتے ہیں جو آگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس کی تپش دوسروں سے زیادہ خود کو جلا دیتی ہے
اگر والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے دوسروں سے بڑھ کر دکھائیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی دلچسپی کو دیکھیں کیونکہ یقیناً وہ اسی کام میں خاص ہو سکتے ہیں جو ان کے لیے ہے یعنی جو انہیں کرنا پسند ہے وہ اپنی دلچسپی کے کاموں میں ہی ایک ایسی منزل تک پہنچ سکتے ہیں جو انہیں خاص بناسکتی ہے
اگر آپ اپنے بچوں کو خاص بنانا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ وہ کچھ ایسا کر کے دکھائیں جو آپ نے بھی نہ کیا ہو تو آپ کو چاہیے کہ انہیں انکےخاص ہونےکااحساس دلائیں
انہیں انکےمقصد سےآگاہ کروائیں
انہیں قرآن کی وہ آیات سنائیں جس میں انسان کےدنیامیں آنےکامقصد بیان کیاگیاہےکہ وہ غورکرےاپنی ذات میں اوراس کائنات میں
انکےناکام ہونےپر بھی انکی ہمت باندھیں انکی حوصلہ افزائی کریں
کیونکہ ہرانسان خاص ہےبس اسےاس بات کااحساس دلاناہےاوراس کی حقیقت سےاسےآشناکرواناہے
اورایسانہیں کہ صرف بچوں کوہی سیکھاناہےآپ نےخودبھی سیکھناہےابھی بھی وقت ہےابھی بھی دیرنہیں ہوئی آپ خودپرغورکریں اور اپنی حیثیت کوجانیں اورخودکو خاص ثابت کریں.خاص طورپربچوں کی تربیت کوٹارگٹ کرنےکامقصدیہ ہےکہ آج کےبچےکل کےنوجوان ہیں اوروہ بھی ایسےکل کےجس کا آج بھی فتنےسےبھراہواہےاس لیےضروری ہےکہ انہیں ان کےمقصدسےآگاہ کیا جائےتاکہ وہ دنیامیں مزیدفتنہ برپانہ کریں اوردوسروں کوبھی اپنی اچھائی سےروکیں
(بقلم:اُمِ غفاریہ)
 

Ummeh Ghafaria
About the Author: Ummeh Ghafaria Read More Articles by Ummeh Ghafaria: 4 Articles with 2021 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.