حکایتِ عالمِ گمشدہ

تصویر کے ایک ایک گوشے سے گمشدگی اور ویرانی کی مہک آتی ہے۔ ایک سنسان کمرہ، جس کی دیواریں زخم خوردہ اور چھت وقت کی مار سے جھلسی ہوئی، ایک ایسی دنیا کی کہانی بیان کرتی ہے جو کبھی آباد تھی، لیکن اب فنا کی گہرائیوں میں ڈوب چکی ہے۔ یہ منظر ایک طرف انسانی بے بسی کو عیاں کرتا ہے تو دوسری جانب وقت اور فطرت کی بے رحمی کو نمایاں کرتا ہے۔ کھڑکی کے باہر نظر آتی سبزہ زار زمین کے برعکس یہ کمرہ موت اور زندگی کے درمیان ایک تضاد کی تصویر پیش کرتا ہے، جو دیکھنے والے کو حیرت اور تفکر میں ڈال دیتا ہے۔

تصویر کے مرکزی حصے میں ایک شخص خاموشی سے بیٹھا ہوا ہے، جو چہرے پر ماسک پہنے کتاب کا مطالعہ کر رہا ہے۔ یہ منظر خود میں ایک کہانی چھپائے ہوئے ہے، جس کا ہر پہلو انسانی جذبات، علم کی جستجو اور تنہائی کو اجاگر کرتا ہے۔ ماسک اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ جگہ کسی خطرناک ماحول کا حصہ ہو سکتی ہے، یا پھر یہ کسی بیماری، آلودگی، یا تباہی کے بعد کا منظر ہے۔ لیکن کتاب کا وجود اس خاموشی میں زندگی کی ایک امید کا چراغ روشن کیے ہوئے ہے۔ علم اور شعور کے ذریعے شاید یہ شخص اس ویران ماحول میں بقا کی تلاش میں ہے یا پھر ماضی کے نشانات اور انسانی غلطیوں کا مطالعہ کر رہا ہے۔

یہ کمرہ اپنی حالت سے وقت کی بے مروتی کا گواہ ہے۔ دیواروں پر رنگ اُکھڑ چکا ہے، اور جگہ جگہ داغ دھبے اور نمی کی نشانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ جگہ مدتوں سے کسی نے آباد نہیں کی۔ لکڑی کی پرانی درازیں اور خستہ الماریاں اس بات کی علامت ہیں کہ یہ جگہ کسی زمانے میں کسی کے لیے نہایت اہم رہی ہو گی، لیکن اب یہاں صرف تنہائی کا راج ہے۔ اس کمرے کی خاموشی چیخ چیخ کر اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ جو چیز آج اہم ہے، وہ کل غیر ضروری ہو سکتی ہے۔
یہ منظر ایک گہری داستان کو بیان کرتا ہے: ویرانی اور زندگی کے درمیان کی کہانی۔ ماسک پہنے شخص کا وجود اس بات کی علامت ہے کہ زندگی کسی نہ کسی صورت آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈ لیتی ہے، چاہے حالات کتنے ہی بدتر کیوں نہ ہوں۔ وہ کتاب جو اس کے ہاتھ میں ہے، انسان کی علم کی طلب اور تجسس کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ علم ہی ہے جو انسان کو بقا کی جانب لے جا سکتا ہے، اور شاید یہی وہ امید ہے جو اس ویرانی میں بھی نظر آ رہی ہے۔

لیکن تصویر کا ایک اور پہلو ماحولیاتی تباہی کا پیغام ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ اگر انسان اپنی دنیا اور ماحول کا خیال نہ رکھے، تو وہ دن دور نہیں جب ہم سب کو ایسی ویرانی کا سامنا کرنا پڑے۔ کمرے کے اندر کی تباہی اور کھڑکی سے جھانکتی ہریالی کے درمیان جو فرق ہے، وہ ہماری لاپرواہی اور فطرت کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دیتا ہے۔ یہ تصویر ایک خاموش انتباہ ہے کہ زمین کے وسائل محدود ہیں، اور ان کا بے دریغ استعمال ہمیں ایسے انجام کی طرف لے جا سکتا ہے جہاں ہمارے پاس صرف تباہی کے آثار رہ جائیں گے۔

اس تصویر میں انسانی تنہائی کو بھی خوبصورتی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ وہ شخص جو تنہا بیٹھا ہے، اس کے آس پاس کے ماحول سے بے خبر لگتا ہے۔ یہ تنہائی اس بات کی علامت ہے کہ انسان اپنی ہی غلطیوں کا نتیجہ بھگت رہا ہے۔ یہ تنہائی نہ صرف جسمانی ہے بلکہ روحانی بھی۔ شاید وہ کتاب میں ماضی کی کہانیاں پڑھ رہا ہے، یا شاید وہ مستقبل کی تلاش میں ہے۔ لیکن یہ منظر واضح کرتا ہے کہ علم اور تجسس ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو آگے بڑھنے اور اپنی غلطیوں سے سیکھنے میں مدد دے سکتا ہے۔

تصویر کا ہر عنصر ایک داستان بیان کرتا ہے۔ خستہ حال دیواریں، جھلسی ہوئی چھت، اور بوسیدہ فرنیچر، سب انسان کی عارضی حیثیت اور فطرت کی طاقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ کھڑکی کے باہر موجود سبزہ اس بات کا پیغام دیتا ہے کہ زندگی کہیں نہ کہیں جاری رہتی ہے، چاہے حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں۔ لیکن اس سب کے باوجود، یہ تصویر انسانیت کے زوال، امید، اور علم کی اہمیت کا ایک جامع مظہر ہے۔

آخر میں، یہ تصویر ہمیں خود سے ایک سوال کرنے پر مجبور کرتی ہے: ہم اپنی دنیا کو کس طرف لے جا رہے ہیں؟ کیا ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ کر اپنی زمین کو بچا سکتے ہیں، یا ہم بھی ایسے ہی کسی ویران کمرے میں اپنے ماضی کی کہانیاں پڑھتے رہ جائیں گے؟ ماسک پہنے اس شخص کی مانند، ہمیں بھی سوچنا ہوگا کہ علم، عمل اور شعور کے ذریعے ہم اپنی دنیا کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ تصویر ایک آئینہ ہے جو ہمیں ہماری ہی حقیقت دکھاتی ہے، اور ایک تنبیہ ہے کہ اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی، تو یہ ویرانی ہمارا مستقبل بن سکتی ہے۔
 

Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 300 Articles with 248009 views Shakira Nandini is a talented model and dancer currently residing in Porto, Portugal. Born in Lahore, Pakistan, she has a rich cultural heritage that .. View More