میرے سامنے ڈاکٹر سہیل کی کتاب "انسانی نفسیات کے راز"
کھلی ہوئی ہے۔ اس کے ایک باب نے مجھے گہرے غور و فکر پر مجبور کیا، اور یہی
غور آپ کے سامنے یہ تحریر پیش کرنے کا باعث بنا۔ ڈاکٹر سہیل اپنی کتاب کے
ایک باب کا عنوان یوں رکھتے ہیں: "ایک زنجیر اتنی ہی مضبوط ہوتی ہے جتنی اس
کی کمزور ترین کڑی"۔ اس باب کے آخری صفحے سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے:
"عوام اب جانتے ہیں کہ حکومت کو ماں کی طرح ہونا چاہیے، جو اپنے تمام بچوں
سے برابری کا سلوک کرے اور اپنی کمزور، بیمار بچیوں اور جسمانی یا ذہنی
معذور بچوں کا زیادہ خیال رکھے، کیونکہ کسی قوم کی زنجیر اتنی ہی مضبوط
ہوتی ہے جتنی اس کی کمزور ترین کڑی۔"
اس اقتباس کی روشنی میں ایک ذاتی مشاہدہ پیش کرنا چاہوں گا۔ چند روز قبل
مجھے یورپ کے ایک انتہائی ترقی یافتہ ملک سوئٹزرلینڈ کے ایک شہر جانے کا
موقع ملا۔ یہ سفر EPFL یونیورسٹی کی جانب سے منعقدہ ایک ورکشاپ کے سلسلے
میں تھا، جس کا موضوع LC3 سیمنٹ پر تحقیق تھا۔
واپسی کے سفر کے دوران، بس میں ایک ایسا واقعہ دیکھنے کو ملا جس نے مجھے
گہرے اثرات دیے۔ جس بس میں میں موجود تھا، وہ ایک اسٹاپ پر رکی۔ وہاں ایک
معذور لڑکی اپنی ویل چیئر کے ساتھ بس کے انتظار میں کھڑی تھی۔ میری حیرت کی
انتہا نہ رہی جب بس ڈرائیور اپنی ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھا، باہر آیا، اور بس
میں موجود رَیمپ کو کھول کر اس لڑکی کی ویل چیئر کو اندر لے آیا۔ اس کے بعد،
اُس نے ویل چیئر کو محفوظ جگہ پر کھڑا کیا اور لڑکی کو مکمل سکون کے ساتھ
بیٹھا دیا۔
اس لمحے نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ میں نے اس لڑکی کے چہرے کے
تاثرات کا بغور جائزہ لیا۔ اس کی خود اعتمادی اور سکون اس بات کا ثبوت تھے
کہ سوئٹزرلینڈ جیسے معاشروں میں ریاست اپنے کمزور ترین شہریوں کو بھی تحفظ
اور عزت فراہم کرتی ہے۔ یہاں مجھے ڈاکٹر سہیل کے الفاظ یاد آئے: "ایک زنجیر
اتنی ہی مضبوط ہوتی ہے جتنی اس کی کمزور ترین کڑی"۔
اس کے برعکس، جب میں اپنے وطن، پاکستان کی طرف دیکھتا ہوں تو شدید مایوسی
ہوتی ہے۔ یہاں کے کمزور طبقے کو نہ صرف ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم
رکھا جاتا ہے بلکہ اگر وہ اپنے حقوق کی آواز بلند کریں تو انہیں ہمیشہ کے
لیے خاموش کر دیا جاتا ہے۔
بحیثیت پاکستانی، یہ حقیقت مجھے شرمندہ کرتی ہے کہ میرے ہم وطن آج بھی
انسانی حقوق کے لیے ترس رہے ہیں، جبکہ ترقی یافتہ معاشروں میں کمزور افراد
کو معاشرے کا فعال اور باعزت حصہ بنایا جاتا ہے۔
|