پشاور پریس کلب کی انتخابی شفافیت کی تجویز: ایک نیا ماڈل جو پاکستان بھر کے پریس کلبز کے لیے مثال بنے گا


صحافت ایک مقدس پیشہ ہے جو معاشرتی انصاف، شفافیت اور عوامی احتساب کی راہ ہموار کرتا ہے۔ صحافیوں کا کردار ہر سطح پر حکومتی فیصلوں، عوامی مفادات اور کرپشن کو بے نقاب کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جب یہ خود مالی معاملات اور اثاثہ جات کی غیر شفافیت کا شکار ہوں، تو ان کی ساکھ پر سوالات اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں صحافیوں کے لیے یہ ایک اہم لمحہ ہے کہ وہ خود کو شفافیت اور احتساب کے اصولوں پر عمل کرنے کے لیے تیار کریں۔
پشاور پریس کلب کے انتخابات کے قریب آتے ہی، پریس کلب کے ایک رکن کی جانب سے ایک انقلابی تجویز پیش کی گئی، جس کے تحت تمام امیدواروں کو اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات جمع کرانی ہوں گی، نہ صرف انتخابات سے پہلے بلکہ عہدے کی مدت مکمل ہونے کے بعد بھی۔ یہ تجویز پشاور پریس کلب کے انتخابی کمیٹی کو پیش کی گئی ہے، جو ایک نیا ماڈل پیش کر رہی ہے جو پاکستان بھر کے پریس کلبز کے لیے مثال بن سکتا ہے۔
پشاور پریس کلب کے رکن نے انتخابی کمیٹی کو انتخاب میں حصّہ لینے والے ممبران کے اثاثہ جات کی جانچ پڑتال کی تجویز پیش کر کے ایک تاریخ ساز قدم ا±ٹھایا ہے۔ کیونکہ صحافی دوسروں سے شفافیت کی توقع کرتے ہیں، تو انہیں خود اس عمل کا آغاز اپنی ذات سے کرنا ہوگا۔ اگر پریس کلب کے امیدوار اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات انتخابات سے پہلے اور بعد میں ظاہر کریں گے، تو یہ نہ صرف ان کی ساکھ کو مستحکم کرے گا بلکہ یہ پاکستان بھر کے پریس کلبز کے لیے ایک رہنمائی بھی بنے گا۔
یہ تجویز پشاور پریس کلب کے انتخابات میں شفافیت کو فروغ دینے، احتساب کے عمل کو مضبوط کرنے اور صحافیوں کی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے ایک بڑا قدم ہے۔ اس تجویز کے تحت نہ صرف انتخابات سے پہلے بلکہ ہر کابینہ ممبر کو اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد بھی اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات جمع کرانی ہوں گی۔
صحافت کا کام صرف عوامی حکومتی اداروں کی نگرانی کرنا نہیں، بلکہ اپنی ذات میں بھی شفافیت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہے۔ جب صحافی اپنے اثاثہ جات اور مالی حالات کی تفصیلات نہیں دیتے، تو ان کی ساکھ پر سوالات اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کیا ہم اپنے آپ کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ ہم حکومتی اداروں یا سیاسی شخصیات سے مالی شفافیت کا مطالبہ کریں جبکہ ہم خود اس پر عمل نہیں کرتے؟
پشاور پریس کلب کی انتخابی کمیٹی اگر اس تجویز کو منظور کرتی ہے تو ایسا ماڈل پیش کیا جا سکتا ہے جس کی پیروی نہ صرف پشاور بلکہ پورے پاکستان کے پریس کلبز کو کرنی چاہیے۔ یہ شفافیت کی جانب ایک قدم ہے جو صحافت کی ساکھ کو مزید مستحکم کرے گا اور عوام کے اعتماد کو بحال کرے گا۔
پشاور پریس کلب کا یہ اقدام ایک رہنمائی کا کام دے رہا ہے۔ اگر اس ماڈل کو دیگر پریس کلبز بھی اپناتے ہیں تو یہ پاکستان میں صحافت کی شفافیت کو ایک نئی سطح پر لے جائے گا۔ صحافیوں کو خود اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات ظاہر کرنے کی پالیسی اپنانا اس بات کی غمازی کرے گا کہ صحافی اپنے کردار میں سچے اور ایماندار ہیں۔
پشاور پریس کلب کے انتخابی کمیٹی کو پیش کردہ اثاثہ جات کی جانچ پڑتال کی تجویز نہ صرف ضروری بلکہ ایک انقلابی قدم ہے۔ یہ تجویز نہ صرف پشاور پریس کلب کی انتخابات میں شفافیت کو فروغ دے گی بلکہ پورے پاکستان کے پریس کلبز کو ایک نیا ماڈل فراہم کرے گی جس سے صحافیوں کی ساکھ اور عوام کا اعتماد مزید مضبوط ہوگا۔ اگر صحافی خود شفافیت کے اصولوں پر عمل نہیں کرتے تو وہ کسی دوسرے ادارے یا شخصیت سے اس کی توقع نہیں کر سکتے۔
پشاور پریس کلب کا یہ قدم نہ صرف صحافتی دنیا میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا بلکہ پاکستان کے تمام پریس کلبز کے لیے ایک مثال بنے گا کہ صحافیوں کو خود میں شفافیت لانے کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ وہ عوام سے انصاف کی توقع رکھ سکیں۔
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 638 Articles with 501319 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More