آخر کب تک۔۔۔۔ (پروفیسررفعت مظہر) قلم درازیاں
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
آخر کب تک۔۔۔۔ (پروفیسررفعت مظہر) قلم درازیاں 24نومبر کی ناکام ”آخری کال“ کے بعد اب تحریکی حلقوں میں فوجی پراڈیکٹس اور عسکری بینک کے بائیکاٹ کاغلغلہ ہے۔ ہم اِس بائیکاٹ کی بھرپور حمایت کرتے ہیں لیکن سب سے پہلے ہمیں اُس پراڈیکٹ کا بائیکاٹ کرنا ہوگا جسے بقول فہیم گوہربِٹ ”پڑھایا لکھایا تِن تِن ویاہ کرکے وزیرِاعظم بنایا“۔ حقیقت یہی کہ تاریخِ پاکستان کی عظیم الشان فوجی پراڈیکٹ توعمران خاں ہی ہے جسے وزیرِاعظم بنانے کے لیے فوج نے کیاکیا پاپڑ نہیں بیلے۔ سب سے پہلے عمران خاں کی تربیت جنرل حمیدگُل نے کی اورنئی سیاسی جماعت کے تانے بانے بُنے جانے لگے۔ جنرل حمیدگُل کے بعداِس پراڈیکٹ کی دَروبست درست کرنے کافریضہ جنرل احمدشجاع پاشانے سرانجام دیااور 30اکتوبر 2011ء کو مینارِپاکستان پرایک عظیم اجتماع میں اِس کی رونمائی ہوئی۔ جنرل پاشاکے بعدجنرل ظہیرالاسلام کی نگرانی میں اِس پراڈیکٹ کے خصائص ڈی چوک اسلام آبادکے 2014ء کے دھرنے میں عیاں ہوئے۔ اِس کے بعد جنرل فیض حمیداور جنرل قمرجاوید باجوہ کی کاوشوں سے اِس پراڈیکٹ کو اقتدارکی سب سے اونچی مسندپر بٹھایا گیا۔ جنرل باجوہ کوتو جلدہی احساس ہوگیا کہ اِس پراڈیکٹ میں ”کجی“ رہ گئی ہے اِس لیے وہ تو ”نیوٹرل“ ہوگئے لیکن جنرل فیض حمیدکو چونکہ آرمی چیف بننے کاشوق ہی بہت تھااِس لیے وہ اِس پراڈیکٹ کے ساتھ جُڑے رہے اورآجکل وہ کورٹ مارشل بھگت رہے ہیں۔ ہم پوری قوم سے اپیل کریں گے کہ وہ اپنی تمامتر توانائیاں استعمال کرتے ہوئے اِس پراڈیکٹ کابھرپور بائیکاٹ کریں کیونکہ اِسی میں فلاح کی راہ ہے۔ 24نومبر کی ”ناکام بغاوت“ کے بعدعمران خاں نے اعلان کیا کہ ابھی اُس نے اپناآخری کارڈ کھیلناہے جو اُنہوں نے چھپاکر رکھاہوا ہے۔ یہ آخری کارڈ اُنہوں نے اپنی بہن علیمہ خاں سے توچھپایا لیکن اُسی رات 10بجے اپنے آفیشل اکاؤنٹ (X) پر یوں عیاں کردیا کہ پشاورمیں 13دسمبر کو شہدائے ڈی چوک کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے عظیم الشان اجتماع ہوگا۔ اِسی ٹویٹ میں 2لکات پر 5رُکنی مذاکراتی کمیٹی کااعلان کیا۔ وہ 2نکات انڈرٹرائل سیاسی قیدیوں کی رہائی اور 9مئی، 26نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کاقیام ہیں۔ یہ بھی بتادیا گیا کہ اگر اِن 2مطالبات کونہ مانا گیاتو 14دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی جائے گی۔ اجتماع میں شہداء کے خاندانوں کو فی کَس ایک کروڑ روپیہ دینے کی بھی شنید ہے۔ سوال مگریہ ہے کہ وہ شہداء ہیں کہاں کیونکہ حکومت تو کسی ایک شخص کے مرنے سے بھی انکاری اور ثبوت مانگتی ہے ,پھر فی کَس ایک کروڑروپیہ کسے دیاجائے گا؟۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹرگوہر کے مطابق 12اموات ہوئیں لیکن ثبوت اُن کے پاس بھی نہیں جبکہ لمبی لمبی چھوڑنے والے لطیف کھوسہ نے ٹی وی پروگرام میں مرنے والوں کی تعداد 278بتائی۔ جب پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھنے والے حامدمیر نے کھوسہ صاحب سے سوال کیاکہ وہ مرنے والوں میں سے کچھ کے نام بھی بتادیں توعظیم ایڈووکیٹ مُنہ تکنے لگے۔ اگریہ اموات سوشل میڈیاکے مطابق لگ بھگ 300ہیں توکیا اُن کے ”ہوائی لواحقین“ کو خیبرپختونخوا کے خزانے سے 300کروڑ روپیہ ادا کیاجائے گا جبکہ یہ اجتماع ایک سیاسی جماعت کاتھا حکومت کانہیں؟۔ کہیں ایساتو نہیں کہ باربار اسلام آباداور لاہورپر حملہ آور ہونے کے بعد خیبرپختونخو حکومت ”پھانک“ ہوچکی ہواور شُہداء کابہانہ بناکر وہ 300کروڑ ڈکارنا چاہتی ہو۔ عمران خاں نے 14دسمبر کو سول نافرمانی کی تحریک کااعلان کرتے ہوئے بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں ترسیلاتِ زَرسے منع کیاہے۔ صورتِ حال یہ کہ امریکہ اوریورپ میں کثیرتعداد میں پاکستانی رہائش پزیرہیں اور بلاشبہ اُن کی اکثریت تحریکِ انصاف کے ساتھ ہے لیکن اُن کی ترسیلاتِ زَر صرف 6فیصد ہوتی ہے جبکہ 94فیصد مشرقِ وسطیٰ میں کام کرنے والے اپنے لواحقین کورقوم بھیجتے ہیں۔ یہ بھی طے کہ 16ماہ کی اتحادی حکومت میں بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے سب سے زیادہ رقوم بھیجیں۔ 2014ء کے دھرنے میں بھی عمران خاں کی سول نافرمانی کی تحریک بُری طرح پِٹ چکی ہے۔ اب 14دسمبر کی تحریک کا پِٹ جانابھی اطہرمِن الشمس لیکن یادرہے کہ اِس بار اسٹیبلشمنٹ کاہاتھ عمران خاں کے سَر پہ نہیں جو اُنہیں سول نافرمانی کے آفٹرشاک سے بچاسکے۔ اگر یقین نہ آئے توتحریکیے فارمیشن کمانڈرز کی کانفرنس کے اعلامیے کوغور سے پڑھ لیں۔ 4دسمبر کو 84ویں 2روزہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کے اعلامیے میں کہاگیا کہ دارالحکومت کی اہم سرکاری عمارتوں کومحفوظ بنانے اور قابلِ احترام غیرملکی وفود کو دورہئ پاکستان کے دَوران محفوظ ماحول فراہم کرنے کی غرض سے پاک فوج کی قانونی تعیناتی کے خلاف کیے جانے والے بَدنیتی پرمبنی پروپیگنڈے پرتشویش کااظہار کرتے ہوئے شُرکاء نے کہاکہ یہ مربوط اور پہلے سے تیارکردہ پروپیگنڈا بعض سیاسی عناصرکے مذموم عزائم کے تسلسل کی عکاسی کرتاہے جس کامقصد پاکستان کے عوام، مسلح افواج اور اداروں کے درمیان دراڑ پیدا کرناہے۔ شُرکاء نے کہا ”بیرونی عناصرکی مددسے کیے جانے والے پروپیگنڈے کی ایسی مذموم کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی، یہ ضروری ہے کہ حکومت بے لگام غیراخلاقی آزادیئ اظہارِ رائے کی آڑ میں زہراُگلنے، جھوٹ اور معاشرتی تقسیم کابیج بونے کے خاتمے کے لیے سخت قوانین وضوابط بناکر اُن پر عمل درآمد کروائے۔ سیاسی ومالی فوائد کی خاطر جعلی خبریں پھیلانے والوں کی نشاندہی کرکے اُنہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا وقت کی اہم ضرورت ہے، پاک فوج ملک وقوم کی خدمت بغیرکسی تعصب اور سیاسی وابستگی کے کرتی ہے۔ ذاتی مفادات کے حصول کے لیے معصوم شہریوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑاکرنے اور تشددکو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کسی بھی کوشش کوہرگز برداشت نہیں کیاجائے گا“۔ اب سوال یہ ہے کہ آخرفارمیشن کمانڈرز کے اعلامیے میں اتنا سخت لہجہ کیوں اختیار کیاگیا ہے۔ عرض ہے کہ جب سے تحریکِ انصاف کی حکومت ختم ہوئی ہے عمران خاں کی توپوں کارُخ صرف فوج کی طرف ہی ہے۔ وہ سیاستدانوں کی بجائے فوج سے مذاکرات کرناچاہتے ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک ہمہ مقتدر صرف فوج ہے جبکہ پاک فوج متعدد مرتبہ اپنے غیرسیاسی ہونے اور آئین وقانون کے مطابق چلنے کااعلان کرچکی ہے۔ فوج کا یہ اعلان عمران خاں کو قبول ہے نہ اُن کی جماعت کو۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ انصاف، اُس کے یوٹیوبرز، اینکرز اور سوشل میڈیا ٹرولرز ہمہ وقت پاک فوج کے خلاف زہر اُگلتے رہتے ہیں۔ 9مئی افواجِ پاکستان کے خلاف ہوااور 26نومبر کی نام نہاد فائرنگ کابھی فوج کو ذمہ دار ٹھہراکر اُسے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے میں اگر پاک فوج موجودہ حکمرانوں کو سدِباب کرنے کا نہ کہے تو کیا کرے۔
|