صبح سویرے تیار ہو کر لیکچر دینے کے لیے یونیورسٹی روانہ
ہو گئی، میں کیا دیکھتی ہوں کہ کوئی ابے تبے سے گویا ہے تو کوئی سیدھی
گالیاں دے دے کر بات کر رہا ہے؛ کسی کو گلا پھاڑ پھاڑ کر ہنسنے سے فرصت
نہیں جبکہ ایمبولینس کو رستہ دینا ہے اور کوئی نہایت بیزاری سے بغیر کاپی
کاغذ کلاس میں میری خاطر فیس بھر کر احسان کرتے ہوئے بامشکل تمام بیٹھا ہے!
یہ کیا ہے؟ کیا یہ ہماری تربیت ہے یا ہماری روایات و ثقافت؟ کیا ہمیں بڑوں
نے یہی سکھایا ہے یا کچھ سکھایا ہی نہیں! جی ہاں! یہ آخری بات بالکل صحیح
ہے، ہم نے اپنے چھوٹوں کو وہ تہذیب منتقل نہیں کی جو ہمیں ہمارے بڑوں نے کی
تھی۔
آئیے آپ کو تھوڑا اور آئینہ دکھاتے ہیں پھر اس کا حل بھی تلاش کرنے کی کوشش
کریں گے۔
جملہ بہت عام ہے پر ہے بھی سچہ کہ "جب ہم چھوٹے تھے" تو ہمارے بڑے ہر بات
ہمارے سامنے نہیں کرتے تھے اور کبھی اگر کرتے بھی تو ہمیں درمیان میں بولنے
کی اجازت تو ہرگز نہ ہوتی تھی۔ ماں باپ کو غلط کہنا اور وہ بھی کسی دوسرے
کے سامنے انتہائی ناگوار فعل تھا، سچ کہیے تو ایسا سوچ کر بھی شرم آتی ہے۔
کیوں؟ یہ تھی ہمارے بڑوں کی تربیت! کیا آپ کے بچے آپ کو اس وقت ٹوکتے ہیں
کہ جب آپ لان کے سوٹ کی قیمت چار ہزار بتا دیتی ہیں جبکہ وہ تین ہزار سات
سو پچاس کا ہوتا ہے؟ اگر ہاں تو بات توجہ طلب ہے! کیا آپ کی پانچ سال کی
شہزادی کبھی یہ کہتی ہے کہ مجھے بھی لپسٹک لگانی ہے اور جواباً آپ اسے لگا
دیتی ہیں تو بھی معاملہ سنجیدہ ہے۔
ذرا سوچیے، کون ہیں وہ بچے جو گالیاں دے کر بات کر رہے ہیں؟ کون ہیں وہ جن
کے پاس پیسہ تو ہے پر جستجو نہیں! کون ہیں وہ جن کو ہم شناختی کارڈ بننے کی
عمر میں بھی آداب سکھا رہے ہیں، جبکہ یہ ہمارے ملک کے معمار ہیں سیاسی طور
پر بالغ ہونے جا رہے ہیں پر افسوس صد افسوس کہ ابھی تو وہ شعوری طور پر بھی
بالغ نہیں ہیں! انہیں یہ پتہ ہے کہ شادی کرنی ہے پر اس شادی کا مقصد نہیں
پتا۔ یہ دنیاوی لذّتوں سے تو آشنہ ہیں، پر اس غفلت کا انجام کیا ہے یہ تو
انہیں کوئی بتا ہی نہ سکا، جانے کیوں شاید وقت کی کمی کی وجہ سے یا پھر کمی
علم کے باعث! یا ایک بات اور بھی تو ہو سکتی ہے کہ اتنے پیسے کیونکر دیتے
ہیں یہ اسکول والے سکھائیں گے!
حضور والا بات کچھ ایسی ہے کہ بچے کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہے اور یہ
بات میں نے نہیں بلکہ اس دنیا کی سب سے کامیاب ہستی رسول اللہ ﷺ نے فرمائی
ہے اور اللہ کہتا ہے "جو اللہ کے رسول دیں سو لے لو اور جس سے روکیں اس سے
باز رہو"۔ لہٰذا، اب ان اسباب کو جانتے ہیں جو ہمارے بچوں کی تربیت کی راہ
میں حائل ہیں:
1۔ میں ملازمت پیشہ ہوں: جی بالکل اگر تو آپ ہی کو کام کرنا ضروری ہے اور
کم یا زیادہ آپ نے ہی کما کر گھر لانا ہے تو یہ مجبوری ہے البتہ اس مجبوری
کو حل کرنے کے لیے گھر کا وقت گھر کو دیں، گھر آنے کے بعد دفتر کے کام ساتھ
لانا بچوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ سو جو کام دفتر کا ہے اسے دفتر تک محدود کر
دیں، اپنے وقت کا زیادہ حصہ کوشش کریں کہ آپ کے بچوں کے ساتھ گزرے، ملازمت
ایسی کرنے کی کوشش کریں کہ جو بہت وقت طلب نہ ہو۔
2۔ بہت تھک جاتی ہوں: جو خواتین بہت کام کرتی ہیں وہ تھک جاتی ہیں پر سوچیے
کے اگلی نسل آپ کے ہاتھ میں ہے اور پاکستان 77 سال کا ہو گیا مگر معاشرہ بد
سے بد تر اور بد تر سے بد ترین ہوتا جا رہا ہے آخر کیوں؟ ابن خلدون کہتا ہے
کہ تہذیب تین نسلوں سے بنتی ہے اور پھر اگر اس تہذیب کو نہ سنبھالا جائے،
اس کی حفاظت نہ کی جائے تو یہ قوم تباہ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا یہ یاد رکھیں کہ
یہ دنیا قید خانہ ہے اور ہم سب یہاں مسافر ہیں اور ہمیں ایک دن اپنے عبدی
گھر جانا ہے۔ اگر آپ ہمت کریں اور اپنی زندگی میں اچھی خوراک اور ورزش کو
شامل کر لیں تو یہ تھکن کسی حد تک کم ہو سکتی ہے اور آپ اپنے بچوں کو تازہ
دم ہو کر وقت دے سکیں گی۔
3۔ مجھے آزادی چاہیے: آزاد انسان وہ ہوتا ہے جو دنیا میں پیش آنے والی
مشکلوں سے گھبراتا نہیں اور حق و باطل میں تمیز کرنا جانتا ہے، حق کے لیے
کھڑا ہونا جانتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات کی پاس داری کرنے کی
جہت میں کوشاں رہتا ہے اور ان کی حکمت کو سمجھتے ہوئے معاشرے میں اپنے
کردار کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے مشنز تشکیل دے جو اسے اس کے وژن
تک لے جائیں۔ آزادی یہ نہیں کہ نہ کوئی آپ کو جھوٹ پر روکے نہ غیبت اور نہ
کسی اور غلط بات پر۔ یہ ایسے نہیں کہا جا سکتا "میں اپنے جسم و جاں کی مالک
ہوں" جی نہیں! یہ جسم بھی اللہ کا ہے اور یہ جان بھی اسی کی امانت ہے اور
اس نے آپ کو اس پر نائب بنایا تاکہ آپ اس کے باقی بندوں تک اس کا پیغام
پہنچائیں۔ تو قرآن سے جڑیے، ورنہ ہماری دنیا اور آخرت دونوں ہی بھلائی سے
بہت دور ہو جائیں گی۔
عورتوں کا مقام بھی اونچا ہے اور ان کی ذمہ داری بھی۔ ایک مشہور رہنما کہتے
ہیں "اللہ جتنا نوازتا ہے، ہم پہ اتنی ہی ذمہ داری ڈال دیتا ہے"۔ لہاذا
اپنی ذمہ داری پہچانیے اور یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ احترام، عزت اور
ستائش کامیاب زندگی کے تین اصول ہیں اور اگر یہ تین اصول اور ساتھ میں دینی
تعلیم ہم اپنی نسلوں کو دینے میں کامیاب ہو گئے، تو ہماری بقا ہے وگرنہ
بربادی تو پر تول ہی رہی ہے آئی کے آئی۔
یاد رکھیے کہ یہ آپ ہی ہیں جو دین، تہذیب، تمدن، ثقافت، شعور، اخلاقیات اور
ادب اپنی نسلوں تک منتقل کر سکتی ہیں اور آپ سے بہتر یہ کام کوئی بھی نہیں
کر سکتا۔ تو ہمت کیجیے اور اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے کمر بستہ ہوجائیں۔
اب یہ منحصر ہے میری مملکت خداداد پاکستان کی مائوں پر کہ وہ اپنی نسل کو
بربادی کی طرف دکیلتی ہیں یا ان کی مناسب تربیت کے ذریعے ان کو ایک کار آمد
مسلمان اور پاکستانی بناتی ہیں۔ اللہ ہمارا یہ سفر آسان فرمائے۔ آمین
|