وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًا
(اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا(
نوع بشر کی زندگی کے آنے والے اگلے لمحے میں کیا ہو گا وہ اس سے بے خبرہی
رہتا ہے،کب موت کا فرشتہ اس کے دروازے پر دستک دے دے، اورموت اس کو اس کے
پیاروں سے چھین کر ابدی زندگی کی طرف روانہ کر دے،کسی کو علم نہیں۔
ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں اور اس بات کا مشاہدہ بھی لازماً کر چکے ہوں گے
کے والدین اپنے بچوں کی اچھی پرورش کرتے ہیں۔ان کی اچھی تعلیم کے لیے اپنی
جوانی اس آسررے پر گزار دیتے ہیں کہ کل کو ان کے بچے ان کے بڑھاپے کا سہارا
بن جائیں گے، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہوتا۔اور ماں باپ کا سہارا
بننے کی عمر میں وہ لقمہ اجل بن جاتے ۔بوڑھے ماں باپ کی کمر مزید جھک جاتی
اور وہ روتے بلکتے ایک دن خود دنیا فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔
اس کائنات کا تخلیق کردہ کوئی بھی بشر اس حقیقت سے مبرا نہیں ۔ اک لمحے میں
بنی نوع انسان کی دنیا بدل دی جاتی ہے۔ اک لمحے میں وہ سراپا مسرت کے عالم
میں ہوتا، اور اگلے ہی لمحے اس پر قیامت ٹوٹ پڑتی۔ یہ قیامت کئ نوعیت کی
ہوتی ہے۔
جیسے کےاکثر آ پ نے دیکھا ہو گا،عموماً پیدائش کے دن سے ہی ماں باپ اپنے
بچوں کی شادی کے خواب سجانے لگ جاتے ہیں، کچھ کے رشتے بھی بچپن میں ہی کر
دیے جاتے، پھر ساری زندگی شادی کی منصوبہ بندی میں گزرتی، اور پھر شادی سے
ایک دن قبل وہی ماں اس جہان فانی سےچل بستی جس نے ساری زندگی اس دن کے
انتظار میں گزار دی ہوتی۔ ساری خوشیاں ادھوری رہ جاتی ۔جس دن پھولوں سے سجی
گاڑی نے گھر سے خوشیوں سے رخصت ہونا ہوتا، اسی دن اس ماں کا جنازہ سجایا جا
رہا ہوتا۔
ہم بے خبرہی رہتے ساری حیات، ہر رات غیر یقینی ڈر دل میں لیے اس خیال سے
بسترپر جاتے ہیں نہ جانے صبح بیدار ہوں گے کے نہیں، کل کی رات قبر میں ہو
گی، یا ہسپتال میں، اب سو رہے ہیں تو سب ساتھ ہیں ،خوش ہیں، نا جانے صبح کا
سورج ہمارے کس عزیز کو ہم سے چھین لے۔ انسان کی زندگی غیر متوقعیت کے سوا
کچھ بھی نہیں۔
اکثر زہن میں یہ خیال ابھرتا ہے، کے کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہماری زندگی میں
ہونے والے معاملات کا پہلے سے ہی ہمیں اللّٰہ علم دے دیتا تو پھر ان غیر
متوقع پراسرار واقعات کے خیالات سے آزاد ہوتے۔ یوں روز ڈر ڈرکے نہ جیتے،
اپنوں کو غیر متوقع کھونے کے ڈر سے آزاد ہوتے۔ لیکن پھر یہ خیال ذہن سے
جھٹک دیتی ہوں کے کیا فائدے ایسے مستقبل کے بارے معلوم کرنے کا، جس کو
بدلنے پر ہی نہ قادر ہوں ہم۔ اب تو اکثر زندگی کی غیر متوقع اور پراسرار
حقیقت کو ایک طرف کر کےخوشی کے لمحات کو جی لیتے ہیں، کے جیسے سب ایسا ہی
رہے گا ۔ مستقبل کی پیشگوئی،اور زندگی کے اتار چڑھاؤ کا علم ہمیں خوشیوں کی
قدر سے محروم کر سکتا۔
لہذا ہمیں اپنی موجودہ زندگی سے مطمئن رہنا چاہیے اور زندگی کے ہر لمحے کو
خوشی سے گزارنا چاہیے ۔اور ہر دن کو ایک نئی شروعات سمجھنا چاہیے۔
کیونکہ زندگی کی غیر متوقعیت ہی اس کی خوبصورتی ہے۔ |