اور پھر وقت پلٹا

مکافات حق ہے، یہ بدلہ ہے انسان کے اعمال کا۔

وہ خوبصورت، ذہین، ہر فن میں اپنے آپ کو منوا لینے والی ایک پر اعتماد اور باوقار لڑکی تھی، فاطمہ بنتِ درِّ عدن علی، مگر جو ایک مسئلہ تھا وہ تھا بصارت سے محرومی!

ہمیشہ خوش رہنا اس کا معمول تھا، ملنساری اور محبت کا پیکر ہر ایک سے خوش اخلاقی اور مسکراہٹ ایسی کہ چہرے سے ہٹتی ہی نہیں تھی حالانکہ دنیا نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ بظاہر تو سب کی لاڈلی مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہم جنھیں سب سے زیادہ اپنا سمجھتے ہیں زیادہ تر ان ہی سے چوٹ کھاتے ہیں؟

چونکہ فاطمہ کی آواز اچھی تھی تو اسے بچپن ہی سے گانے کے مقابلوں میں حصہ ملتا اور وہ بہت دل سے گاتی یہاں تک کہ اسنے پیانو سیکھا اور بجانا شروع کر دیا الغرض، اسے بہت سے میوزیکل انسٹرومنٹس بجانے آ گئے۔ جو لوگ نابینا ہوتے ہیں ان کے لیے عام رواج یہ ہے کہ یا تو والدین ان کو حفظ قرآن میں ڈال دیتے ہیں یا جن اسکولز میں یہ جاتے ہیں وہاں انھیں میوزک کی دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ جانے کیوں، مگر یہی غلط روش نسلیں برباد کر رہی ہے۔

تو ایک دن وہ بھی عام بچوں کی طرح سب کو بتا رہی تھی کہ اسنے کون کون سے مقابلوں میں حصہ لیا اور پھر مختلف گیت گا گا کر بھی دکھاتی۔ اس کے ماموں یک دم بولے: "تم مراسی ہو کیا؟ کیا مراسیوں کے خاندان سے ہو؟" فاطمہ چپ ہو گئی، جیسے کچھ سمجھ ہی نہ آیا ہو۔

ہمارے پاس جو سمجھانے کا سب سے اچھا طریقہ ہے وہ کسی کی تذلیل ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کو سب کے سامنے ڈانٹیں گے تو وہ شرمندہ ہوگا اور وہ برائی چھوڑ دے گا۔ بعض مرتبہ ہمیں ایسا ہی نظر آتا ہے۔ پھر وقت گزرتا گیا، فاطمہ بڑی ہو گئی، پھر ایک دن اچانک اس کے پیارے نانا انتقال کر گئے۔ وہ ماموں کے گھر پر تھے تو سب ان ہی کے گھر جمع ہو گئے۔ رواج کے مطابق جہاں بھی کوئی میت ہوتی ہے اس گھر کھانا دوسرے لوگ یعنی محلے دار اور رشتہ دار پہنچاتے ہیں۔ وہ سب بیٹھے تھے غم سے نڈھال اور کچھ پریشان، اس موت کے موقع پر بھی دو ماموں آپس کی گرما گرمی میں مصروف تھے، ان کی باتوں کا متن کھانا تھا، "وہ بینک میں کام کرتا ہے بھلا اس کا لایا ہوا کھانا حرام ہے ہم کیسے کھا سکتے ہیں؟" چھوٹے ماموں کہہ رہے تھے، "مت کھائو مگر ایسے مت بولو، ایسے کسی کا دل دکھ سکتا ہے، دھیمے ہو جائو!" بڑے ماموں محض سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وقت گزر گیا، کھانا آیا اور پتا نہیں کس نے کھایا یا کسی نے کھایا ہی نہیں، مگر وقت گزر گیا اور اس کے بعد جانے کتنے ہی لوگ دنیا سے گزر گئے۔

فاطمہ بنتِ درِّ عدن بھی سمجھ دار ہو گئی اور اس نے دین سمجھنا شروع کیا۔ بیس سال بعد۔۔۔۔۔۔۔۔

فاطمہ نے اللہ کا راستہ چن لیا یا شاید اللہ نے فاطمہ کو اپنے راستے کے لیے منتخب کر لیا، اب وہ اللہ کے احکامات بجا لانے کی کوشش کرتی ہے، باپردہ رہتی ہے، نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، قرآن سیکھنا اب اس کے معمولات ہیں۔ میوزک کو خیر آباد کہہ چکی ہے، مگر آپ کو پتا ہے کیا ہوا؟ وہ ماموں جو فاطمہ کو مراسی کا لقب دے رہے تھے آج گانے بجانے کی محفلیں اپنے گھر میں خوشی سے سجاتے بھی ہیں اور آنے والوں کے لیے طعام کا انتظام بھی کرتے ہیں، یعنی ہر شادی کے ناچ گانے کے لیے ان کا گھر حاضر ہوتا ہے اور وہ جو بینک کی کمائی کا کھانا نہ کھانے کا درس دے رہے تھے آج انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ایک بینکر سے کی ہے اور خود ان کی بیٹی بھی بینک میں زیرِ ملازمت ہے۔

تو یہ تھا وقت کا جواب، ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ نہیں دکھاتا مگر ہم یقینی طور پر سمجھتے نہیں! توبہ کریں اس وقت سے کہ جب وقت آپ پر پلٹ کر آ جائے اور آپ اپنی ہی نظروں میں گر جائیں۔
مکافات حقیقت ہے ٹھوس حقیقت اللہ سورة آل عمران، آیت 182 میں ارشاد فرماتا ہے، "یہ ان کاموں کی سزا ہے جو تمہارے ہاتھ آگے بھیجتے رہے ہیں اور اللہ تو بندوں پر مطلق ظلم نہیں کرتا۔" اسی طرح ارشاد ہوتا ہے، "پس جو کوئی ذرہ برابر بھی اچھا عمل کرے گا، وہ اُسے دیکھے گا۔ اور جو کوئی ذرہ برابر بھی برا عمل کرے گا، وہ اُسے دیکھے گا۔" (سورة الزلزلة، آیات 7-8) یعنی یہ اللہ ہی ہے جو معاف کرنے پہ قادر ہے ورنہ وقت تو ضرور جواب دیتا ہے۔

برائی روکیں اور ضرور روکیں، مگر بات کہنے کا ڈھنگ سیکھیں، کسی کی دل آزاری اسے اعلیٰ اور آپ کو نچلے ترین درجے تک پہنچا سکتی ہے۔
ابھی بھی وقت ہے، پلٹ جائیں۔۔۔۔ ایسا نہ ہو کہ پھر وقت پلٹے!


 

Dr. Saba Ghizali
About the Author: Dr. Saba Ghizali Read More Articles by Dr. Saba Ghizali: 2 Articles with 932 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.