کیرالا کے ترواننت پورم میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج
سدرسن نے سری کمار نامی سی پی ایم کارکن کے قتل میں آر ایس ایس کے شمبھو
کمار عرف شمبھو، سری جیت عرف اننی، ہری کمار، چندرموہن عرف امبیلی، اور
سنتوش عرف چندو کو تعزیرات ہند (آئی پی سی) کے تحت قصوروار پایا۔ ان کے
علاوہ ابھیشیک عرف اینی سنتوش، پرشانت عرف پزینجی پرشانت، اور سجیو – کو
مجرمانہ سازش کا حصہ قرار دیا اور ان کو سزا سنا نے کے لیے 15؍ جنوری کی
تاریخ طے کی ۔ استغاثہ کے مطابق شمبھو کا آد بنو کے درمیان مالی تنازعہ ہوا
تو اس کے دوست سری کمار نے تنازعہ میں مداخلت کی۔ اس سے شمبھو کو چوٹیں
آئیں اور اس کا انتقام لینے کی خاطر آٹھ ملزمان نے 5 مئی 2013 کو عالم کوڈ
کے قریب سری کمار پر حملہ کر کے قتل کر دیا۔نچلی عدالت نے ناکافی شواہد کی
بنا پر سبھی کو بری کر دیا تھا لیکن ضلعی عدالت میں بات نہیں بنی۔ سوال یہ
ہے کہ اگر ملک میں ایک قانون ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ یہ عام سی بات ہے
کہ نچلی عدالت میں جن کو پھانسی کی سزا ملتی ہے وہ آگے چل کر بری ہوجاتے
ہیں لیکن یہاں الٹا ہوگیا ۔
اس معاملے کے دو دن قبل جنوری 8( 2025) کو تھلاسری عدالت نے شمالی کیرالا
کے کنور ضلع میں 19 سال قبل سی پی آئی (ایم) کارکن کے قتل میں آر ایس ایس
کے 9 کارکنوں کو عمر قید کی سزا سنادی۔ کناپورم چنڈا سے سی پی آئی (ایم)
کے25سالہ رکن رجیت سنکرن پر 3 اکتوبر 2005 کو دونوں جماعتوں کے درمیان
سیاسی کشیدگی کے درمیان ایک مندر کے قریب ہلاک کر دیا گیا تھا۔ استغاثہ کے
مطابق جب رجیت اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ گھر جا رہے تھے تو ان پر آر ایس
ایس کے کارکنوں نے حملہ کیا۔ اس حملے میں ان کے تین دوست بھی زخمی ہوئے
تھے۔ تھلاسری کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ نے 4 جنوری کو اس معاملے کے کل
10 ملزمان میں سے ۹؍ کو سزا سنائی کیونکہ ایک سڑک حادثہ میں ہلاک ہو چکا
ہے۔ مجرموں میں سدھاکرن (57)، جیش (41)، رنجیت (44)، اجندرن (51)، انیل
کمار (52)، راجیش (46)، سری کانت (47)، سری جیت (43) اور بھاسکرن (67) شامل
ہیں۔ عدالت نے انہیں تعزیرات ہند کی دفعات قتل (302)، قتل کی کوشش (307)،
غیر قانونی اجتماع (143)، فسادات (147)، جان بوجھ کر ہتھیاروں سے زخمی کرنے
(324) کی دفعات کے تحت مجرم قرار دیاگیا ۔
یہاں سوچنے والی بات ہے کہ اگر یہی سنگھی مجرم شمالی ہند میں ایسا جرم کرتے
تو کیا نہیں اس طرح کی سزا ملتی؟ نہیں کیونکہ وہاں تو بلا اعلان منو سمرتی
کو نافذ کیا جارہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت وزیر اعظم نریندر مودی کے
حلقۂ انتخاب وارانسی میں واقع بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) میں طالب
علموں کی طرف سے منو اسمرتی کو جلانے کی کوشش کے خلاف انتظامیہ کےرویہ سے
سامنے آیا ۔ 25 دسمبر کی دیر رات بی ایچ یو کے 'فیکلٹی آف آرٹس' چوراہے پر
کچھ طلبہ نے منو اسمرتی کو جلانے والے طلبہ اور پراکٹریل بورڈ کی ٹیم کے
درمیان ہاتھا پائی ہوگئی۔ اس واقعہ کے بعد بی ایچ یو پراکٹریل بورڈ نے لنکا
پولیس اسٹیشن میں تحریری شکایت درج کرائی۔پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے
13 طلبہ کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔ ان طلباء کے خلاف مذہبی جذبات کو
ٹھیس پہنچانے اور حملہ کرنے جیسی سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ۔
تحریری شکایت ملنے کے بعد پولیس نے 25 طلبہ کے خلاف مقدمہ درج کیا مگر صرف
13 طلبہ کو گرفتار کرسکے ۔
دو سال قبل بی ایچ یو سے متصل آئی آئی ٹی آئی میں ایک طالبہ کی اکھل
بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے غنڈوں نے عصمت دری کی تھی۔ ان کو گرفتار کرنے
میں تو یوگی کی پولیس نے کوئی گرمجوشی نہیں دکھائی بلکہ مہینوں تک وہ لوگ
فرار رہے بلکہ مدھیہ پردیش میں پارٹی کی انتخابی مہم چلاتے رہے مگر اس
واقعہ کے بعد پولیس فرار ہونے والے طلباء کی تلاش میں سی سی ٹی وی فوٹیج کو
اسکین کرنے میں جٹ گئی تاکہ ان کوبھی گرفتارکیا جاسکے۔ پولیس نےڈھٹائی سے
اعلان کیا کہ جلد ہی اس کیس میں دیگر مفرور افراد کو بھی گرفتار کر لیا
جائے گا۔ بی ایچ یو کے پروکٹوریل بورڈ کی طرف سے لنکا پولس اسٹیشن کو ایک
تحریری اطلاع میں کہا گیا تھا کہ کچھ طلباء منوسمرتی کو جلانے کی کوشش کر
رہے ہیں، جس کی وجہ سے تنازعہ پیدا ہو رہا ہے۔ جب سیکورٹی اہلکاروں نے
انہیں روکا تو پراکٹریل بورڈ نے اس معاملے میں متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ
درج کیا گیا اور ڈی سی پی کاشی زون گورو بنسوال اس کام میں لگ گئے حالانکہ
ڈاکٹر امبیڈکر یہی کام ببانگِ دہل کر چکے ہیں۔
بنارس کے معروف دانشور ایس پی رائے پولیس اور انتظامیہ کے اس رویہ کو منو
نواز سوچ کا عکاس قرار دیا۔ وہ بولے جب یونیورسٹی میں منو سمرتی پر تحقیق
کے لیے وظیفہ دیا جارہا ہے تو اسی درسگاہ میں اس موضوع پر بحث کرنا کیسے
غلط ہوگیا؟ انہوں نے الزام لگایا کہ فی زمانہ پورے ملک میں جمہوریت کا گلا
گھونٹا جارہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مارچ2023 سے بنارس ہندو یونیورسٹی (بی
ایچ یو) میں ’منوسمرتی‘ کو لے کر ایک ریسرچ پروجیکٹ پر کام ہو رہا ہے۔ اس
معاملے میں اب کچھ طلبا نے سخت ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا ۔ دراصل
سنسکرت ودیا دھرم سائنس فیکلٹی کے ’دھرم شاستر-میمانسا ڈیپارٹمنٹ‘ نے 21
فروری2023 کو ’منوسمرتی کا ہندوستانی سماج پر اطلاق‘ نامی پروجیکٹ کے لیے
فیلوشپ کا اشتہار دیا تھا۔ 27 فروری تک اس پروجیکٹ کے فیلوشپ کے لیے
درخواست کی میعاد تھی ۔ اس پروجیکٹ کو 31 مارچ 2024 تک مکمل ہونا تھا لیکن
درج فہرست ذات کے کچھ طلبا نے اس کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
منوسمرتی ریسرچ پروجیکٹ معاملے کے اس فیصلے کا جواز پیش کرتے ہوئے بی ایچ
یو میں ’دھرم شاستر-میمانسا ڈیپارٹمنٹ‘ کے شعبہ صدر پروفیسر شنکر کمار مشرا
نے بتایا تھا کہ منوسمرتی یہ پہلی بار نہیں پڑھائی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق
جب سے یہ شعبہ بنا ہے، تبھی سے منوسمرتی سمیت کئی صحیفے کورس میں شامل ہیں
اور پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ پروفیسر شنکر کا کہنا ہے کہ ان کے شعبہ میں سبھی
طبقہ کے طلبا موجود ہیں اور ڈگری لیتے ہیں۔ اس کے بعد طلبا پی ایچ ڈی بھی
کرتے ہیں۔ موصوف نے یہ بھی فرمایا کہ منوسمرتی میں اچھے اخلاقیات کا سبق ہے
اور اس لیے تحقیق کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ منو سمرتی میں اگر اخلاقیات
کا درس ہے تو پھر بد اخلاقی کس چڑیا کام نام ہے۔شرما جی نے کہا کہ دھرم
شاستر (رلیجن سائنس) شعبے نے کئی نظریات اور موضوعات کو آسان الفاظ و
اختصار کے ساتھ عام لوگوں کے سامنے رکھنے کا عزم کررکھا ہے تاکہ انسانی
فلاح بہبود کے لیے ان نظریات میں بتائی جانے والی باتوں کو پھیلایا جا سکے۔
اسی مقصد سے کورونا بحران کے دوران اس تجویز کو آئی او ای سیل میں بھیجا
گیا تھا۔
پروفیسر شنکر کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو سے تین دہائی میں سماج کے اندر
انسانیت کا زوال ہوا ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن اگر انہیں منوسمرتی میں کوئی
بھی ناموافق نہیں ملی تو یہ تشویشناک حیرت ہوتی ہے۔احتجاج سے گھبرا کر وہ
بولے کہ پھر بھی اگر ایسا لگتا ہے کہ منوسمرتی کی چیزیں آج کے حالات سے
مطابقت نہیں رکھتیں تو وہ اپنے پروجیکٹ میں اصلاح کے لیے درخواست دیں گے۔
اس کے برخلاف بی ایچ یو کے طالب علم اجئے بھارتی کا کہنا تھا کہ ملک
منوسمرتی سے نہیں بلکہ آئین سے چلتا ہے۔ اس میں سبھی کو برابری کا حق دیا
گیا ہے، جبکہ منوسمرتی میں ذات اور اونچ،نیچ کی باتیں موجود ہیں۔ آئین
سبھی کو تعلیم و برابری کا حق دیتا ہے، جبکہ منوسمرتی میں ایسا نہیں ہے۔ اس
لیے آئین کے مطابق اس طرح کا ریسرچ پروجیکٹ نہیں چلایا جانا چاہیے۔ اس
احتجاج کے باوجود وہ تحقیق چلتی رہی ۔
مذکورہ بالا تحقیق کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبا نے مظاہرہ کیا تو انہیں
گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا ۔ دو ہفتہ بعد رہا ہونے
کے بعد ان طلبا نے الزام لگایا کہ بی ایچ یو کے سیکیورٹی اہلکاروں نے ان کے
ساتھ بدسلوکی کی ۔انہیں کئی گھنٹوں تک پراکٹیریل بورڈ کے دفتر میں رکھا
گیا۔ وہ جیل جہاں 50 لوگوں کی سہولت نہیں تھی 200 طلبا کو ٹھونس دیا گیا
اور دولت نہ ہونے کے سبب وہ بنیادی نوعیت کی سہولیات سے بھی محروم ذہنی
اذیت جھیلتے رہے۔ طلبا کے وکیل پرکاش سنگھ یادو نے پریس کانفرنس میں کہا کہ
تین طالبات سمیت کی گرفتاری، حراست اور جیل بھیجا جانا سب کچھ غیر قانونی
تھا۔ اس لیے وہ رہا ہوگئے اب ان غیر قانونی گرفتاری میں ملوث لوگوں پر سخت
کارروائی درکار ہے۔ اس طرح کی زیادتی کو روکنے کا یہ اہم ترین اصلاح ہے ۔
کیرلا اور یوپی کے حالیہ فیصلوں میں امید کی ایک کرن ہے بقول احمد فراز ؎
یہ قتل گاہیں یہ عدل گاہیں انہیں بھلا کس طرح سراہیں
غلام عادل نہیں رہیں گے غلط سزائیں نہیں رہیں گی
|