دنیا کو سمجھنا چاہتے ہو اس سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہو ، تو مطالعہ کی عادت اپناؤ


ایک یہودی تاجر اور ایک نوجوان وکیل کے درمیاں جو شرط ٹھہرتی ہے، وہ بھی عجیب اور حیران کن ہوتی ہے۔یہودی تاجر کا کہنا ہوتا ہے کہ سزائے موت کی سزا بہتر ہے،جو انسان کو تمام اذیتوں سے فوراً نجات دلا دیتی ہے،جبکہ عمر قید میں ہر دن اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ اذیت سزائے موت کے برابر ہوتی ہے، یعنی روزانہ سزائے موت اور سولی پر چڑھنا ۔لیکن نوجوان وکیل کا اس بات پر زور ہوتا ہے کہ عمرقید اچھی ہوتی ہے اور اس کے اپنے بہت سارے فوائد ہیں ۔ اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کی بات درست ہے اور کس کی بات غلط؟

یہودی تاجر ایک کاروباری شخصیت ہوتی ہے،اس کی بہت بڑی دولت کا کوئی حساب و کتاب نہیں ہوتا اور بہت نیک دل کا قسم کا شخص ہوتا ہے ۔نوجوان وکیل غضب کا ذہین ہوتا ہے،قانونی موشگافیوں کو خوب سمجھتا ہے اور یہودی تاجر کا زبردست مددگار، جو اس کے کاروبار میں پیش آنے والے قانونی مسائل کے حل کرنے میں اس کی بہت کامیابی کے ساتھ مدد کرتا رہتا ہے۔

ایک رات بہت شاندار ، پڑھے لکھے اور بہت مالدار لوگوں کی محفل میں یہ بحث چل پڑتی ہے کہ خوفناک سزاؤں میں سب سے خوفناک سزا کونسی ہے ،سزائے موت یا عمر قید ؟ کیا ان دونوں میں سے کوئی بہتر بھی ہو سکتی ہے۔؟

نوجوان وکیل کے ساتھ ساتھ اس محفل میں بیٹھے تمام لوگ، جو اس بحث میں شریک ہوتے ہیں، سزائے موت کے خلاف ہوتے ہیں اور وہ اس کو ایک بہت ہی بری،سنگین اور خوفناک سزا قرار دیتے ہیں، وہ تمام بحث اور دلائل کے ذریعے اپنی اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور اسی حوالے سے مختلف حوالے بھی دیتے ہیں۔لیکن یہودی تاجر اپنی بات پر اڑا رہتا ہے۔

بلآخر جب یہودی تاجر اور نوجوان وکیل کے درمیان یہ بحث بہت زور پکڑتی ہے تو ان دونوں کے درمیان ایک شرط ٹھہرتی ہے اور شرط بھی عجیب اور خوفناک سی، جس پر وہ دونوں متفق ہو جاتے ہیں اور جس کے ردعمل میں تمام محفل حیران رہ جاتی ہے۔اب تمام محفل ان دونوں کو اس شرط پر عملدرآمد کرنے سے روکتی ہے، یہودی تو مان جاتا ہے،کیونکہ اسے نوجوان کی خوبصورت جوانی پر رحم آتا ہے،لیکن نوجوان وکیل نہیں مانتا۔

شرط یہ ہوتی ہے کہ نوجوان وکیل یہودی کی قید میں عمر قید کا عرصہ جو کہ پندرہ سال پر محیط ہوگا ، گزارے گا اور یوں یہودی اس کے بدلے اسے لاکھ روپے کی رقم ادا کرے گا۔

اس طرح اگلے روز یہودی تاجر کے گھر کے باغ میں ایک چھوٹا سا کمرہ بنایا جاتا ہے، جس میں نوجوان وکیل کو قید کیا جاتا ہے اور اس کے دروازے کو ایک موٹا سا تالا لگا دیا جاتا ہے۔

اس تمام عرصے کے دوران نوجوان وکیل کو وہ تمام کتابیں فراہم کی جاتی ہے ،جس کی فرمائش وہ اس قید خانے کے چوکیدار سے کرتا ہے اور اس پندرہ سال کے دوران وہ نوجوان صرف اور صرف اپنے مطالعہ میں مصروف رہتا ہے۔وکیل اس دوران پہلے کی طرح خوبصورت نہیں رہتا، بلکہ ایک لاغر سے ڈھانچے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اب وہ بوڑھا ہوتا ہے اور اس کے تمام بال سفید۔لگتا ہے کہ جیسے اسی قید میں اس کی موت واقع ہو جائے گی۔

جونہی پندرہ سال ختم ہونے کا آخری ہفتہ شروع ہو جاتا ہے۔یہودی کو خوف آن گھیر لیتے ہیں،کیونکہ اب وہ پہلے کی طرح امیر نہیں ہوتا،اس کا تمام کاروبار تباہ ہو چکا ہوتا ہے۔وہ سوچتا ہے کہ نوجوان وکیل نے تو شرط جیت لی ہے۔ اب اگر میں اسے اس کی تمام رقم دے دوں گا ،میرے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہے گا اور میں پائی پائی کا محتاج ہو جاؤں گا۔میرے پاس اس خوفناک صورتحال سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ میں اس وکیل کو قتل کردوں۔

اب اپنے باغ میں نوجوان کو قتل کرنے کی نیت سے جب یہودی تاجر اس کے قیدخانہ نما کمرے کے پاس پہنچ جاتا ہے،تو وہ اسے وہاں سویا ہوا پاتا ہے۔وہ دروازے کے پرانے تالے کو آسانی سے توڑ کر جب نوجوان کے سرہانے پہنچتا ہے، تو اس کی نیت ہوتی ہے کہ اس کا گلا دبا دے گا،جس سے بہت ہی آسانی سے اس کی موت واقع ہو جائے گی اور اس کے گلے پر اس کے قتل کرنے کے کوئی آثار بھی نہیں ہؤں گے۔ کیونکہ وہ انتہائی لاغر اور کمزور ہے اور اس طرح کسی کو یہ شبہ بھی نہیں ہوگا کہ اسے قتل کیا گیا ہے۔

اب تاجر کو حیرت ہوتی ہے ،جب وہ نوجوان کے سرہانے کسی خط کو پاتا ہے۔ خط میں تحریر ہوتا ہے کہ میں نے یہودی سے تقریباً شرط جیت لی ہے کیونکہ میں نے عمر قید کا عرصہ خوشی خوشی قید میں گزارا ہے ،لیکن میں نے اس دوران جو خزانہ پایا، اس کے سامنے یہودی کے بیس لاکھ روبل کی کوئی اوقات اور اہمیت نہیں، اس لیے میں اسے معاف کر دوں گا۔ اب نوجوان آگے لکھتا ہے کہ اس دوران وہ مسلسل مطالعہ کرتا رہا اور اس طرح اس نے سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں پڑھ ڈالیں۔

نوجوان آگے چل کر لکھتا ہے کہ مطالعہ کے دوران اس نے تمام دنیا کی سیر کی، وہ ایک ایک ملک، ایک ایک شہر، ایک ایک بستی اور ایک ایک گھر گیا ،ہر طرح کے کرداروں سے ملا، دنیا بھر کی خوبصورتی، باغات، شہروں کا حسن اور حسین لوگ اس نے دیکھے اور زندگی کی تمام رعنائیاں اور حسن اس نے اسی مطالعہ میں پایا ۔جسے شاید وہ عام زندگی میں نہیں دیکھ سکتا تھا اور نہیں دیکھ بھی سکے گا۔

اگلے دن یہودی کو خبر ملتی ہے کہ قید کے آخری پانچ منٹ ختم ہونے سے قبل ہی قیدی اپنے قید خانے اور باغ سے کہیں کسی نامعلوم مقام کی طرف بھاگ گیا ہے۔

دیکھا جائے تو انتون چیخوف نے اپنا اس افسانہ " شرط" 14 جنوری1889 کو لکھا۔کہا جاتا ہے کہ ان دنوں وہ روسی ادیب لیوٹالسٹائی سے بہت متاثر تھے اور ان کی تحریروں میں جن اخلاقی اقدار پر زور دیا جاتا ہے ،وہ اس کو بہت پسند کرتے تھے۔ شرط میں چیخوف نے سزائے موت کی سزا کو یکسر مسترد کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس دنیا میں سب سے اہم انسانی زندگی ہے اور اس کی قدر کی جانی چاہیے۔ یہاں اس تخلیق میں علمی حوالے سے بھی بڑی شاندار بات کی گئی ہے کے دنیا کا سب سے بڑا خزانہ اگر کوئی ہے تو وہ کتاب ہے، جس کی قیمت ہر دولت سے زیادہ ہے۔اسی لئے تو طالبعلم 20 لاکھ روبل کی رقم چھوڑ جاتا ہے۔

درحقیقت مطالعہ جس کی اہمیت کی اس افسانے میں بات کی گئی ہے۔اس موضوع پر ایک مضمون تو کیا سیکڑوں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔

‏دیکھا جائے جب بھی آپ کوئی کتاب پڑھیں گے، تو اس میں ایک رنگین اور جادوئی دنیا پائیں گے۔

دیکھا جائے تو اگر دنیا کو سمجھنا چاہتے ہو اور اس سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہو ، تو مطالعہ کی عادت اپناو اور میرے خیال ہے کہ یہی بات موجودہ افسانے کا لب لباب بھی ہے
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 412 Articles with 223228 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.