کیا معاشی مسائل کا اثر معاشرتی مسائل سے تعلق بنتا ہے

حالیہ رپورٹ میں عالمی بینک (ورلڈ بینک) نے بھی اپنی خصوصی رہورٹ طور پر غُربت کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان میں رواں سال مزید ایک کروڑ 25 لاکھ افراد سے زائد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔

جبکہ 2023 کی رپورٹ کے مطابق میں 34.3 فیصد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے تھے، جبکہ 2024 میں یہ شرح 39.4 فیصد سے زائد تک پہنچ گئی ہے۔

اس رپورٹ میں مختلف عوامل کے ساتھ ساتھ پاکستان کی غیر مستحکم سیاسی صورت حال کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور اس کا خاص ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

جبکہ دیگر وجوہات میں اندرونی و بیرونی درآمدات کی حوصلہ شکنی، اجناس کی عالمی قیمتوں میں اضافہ اور 2022 میں سیلاب کی تباہ کاریاں شامل کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے فصلوں اور مال مویشیوں کو نقصان پہنچا اس کا اثر 2024 میں بھی نظر آیا ہے.

اقتصادی ماہرین اور بین الاقوامی رپورٹس کے مطابقـ ’غربت کی لکیر’ مال و زر کی حد ہے، لہٰذا اگر ایک شخص اس لکیر پر کھڑا ہوجاتا ہے تو اسے غربت کی میں فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔

عالمی بینک اور اقوام متحدہ اپنی رپورٹس میں اس کی مزید وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ اگر ایک شخص کی یومیہ آمدنی 2.15 امریکی ڈالرز (تقریباً چھ سو روپے) ہے (جو ایک عالمی حد ہے) تو وہ غربت کی صف میں شمار ہوگا، تاہم اگر یومیہ آمدنی اس سے کم ہو تو اسے غریب ترین یعنی ’خط غربت سے نیچے‘ سمجھا جائے گا۔

’غربت کی لکیر کے نیچے وہ افراد ہوتے ہیں، جو دو وقت کھانے کی مالی استطاعت بھی نہیں رکھتے، نتیجتاً یہ لوگ صحت اور تعلیم تو درکنا بنیادی ضروریات سمیت اکثر ایک محفوظ پناہ گاہ سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔‘

جبکہ دیکھا جائے تو ڈالر یومیہ آمدنی کا عالمی بینچ مارک درست نہیں کیونکہ یہ پاکستان جیسے ممالک کے حالات کو مدنظر رکھ کر نہیں بنایا گیا۔

تاہم پاکستان میں آسمان چھوتی مہنگائی کے تناظر میں دو ڈالر یومیہ آمدنی یعنی پانچ سو ساٹھ پاکستانی روپے بنتے ہیں جو کہ ماہانہ تقریباً سولا ہزار آٹھ سو بنتے ہیں، بنیادی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے انتہائی ناکافی ہیں۔‘

اس وقت دنیا میں مختلف معیشت والے ممالک ہیں، کہیں کم آمدنی والے ہیں تو کہیں درمیانی۔ اسی حساب سے یومیہ آمدنی کا حساب بھی الگ ہوئیگا.

دیکھا جائے پاکستان میں عوام کو خط غربت سے بچانے کے لیے حکومت کو کارپوریٹ سیکٹر پر قوانین لازمی لاگو کرنے چاہیے, جو مزدوروں اور ملازمین کو کم اجرت پر رکھ کر ان کا کئی ادواروں سے استحصال کرتے آرہے ہیں کو ان کا پُرسان حال نہیں. مگر کسی حُکمراں کو بھی اس طرف نظر اُٹھانے کی فرصت بھی نہیں.

دراصل یومیہ دو ڈالرز کا فارمولا ’سروائیول‘ یعنی گزارے کے تناظر میں بنایا گیا ہے۔

’اس کا مطلب ہے کہ ایک انسان بس اتنی کیلیوریز لے کہ اگلے دن کام پر جا سکے۔‘

حالانکہ پاکستان کے معاشی مسائل کا اثر معاشرتی مسائل سے بہت تعلق بنتا ہے مثلا ’پاکستان میں غربت کی شرح میں اضافے کی وجوہات ایک خاندان کا تین نسلوں کو پالنا، گھر میں پانچ سے دس افراد میں صرف ایک شخص کی کمائی اور قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہے۔

پاکستان میں کہیں والدین اور کہیں بچے والدین پر انحصار کر رہے ہیں۔ اگر شادی کے بعد بیٹا الگ ہو جائے تو اس کا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے کیونکہ تب اس کو والدین کے گھر کے اخراجات بھی پورے کرنے ہوتے ہیں وہ بھی اس مہنگائی میں جہاں کئی ملکی اور بیرونی مسائل درپیش ہیں، وہیں پاکستانی معاشرتی نظام بھی غربت کو عوام پر مسلط کرتا آرہا ہے۔

خط غربت کے تین تصورات ہیں، جو ایک فرد کو غربت کی فہرست میں ڈالتے ہیں۔

ایک تصور صحت کے حوالے سے ہے، جس میں ایک شخص کی یومیہ کیلیوریز پورے نہ ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ دوسرا تصور یومیہ آمدنی کا ہے جو کہ موجودہ وقت میں یومیہ دو ڈالرز ہیں۔ اسی طرح خط غربت کا تیسرا تصور بنیادی ضروریاتِ زندگی جیسے کہ شیلٹر، صحت، خوراک اور تعلیم کی استطاعت نہ رکھنا ہے۔

’ان تین تصورات کی وجوہات سماجی، سیاسی، جغرافیائی، اقتصادیاتی اور دیگر ہیں۔‘

غربت سے بچاؤ کے حوالے سےمختلف حکومتوں میں عوامی سکیمیں اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، مگر پاکستان میں یہ کوششیں پھر بھی کارآمد ثابت نہیں ہورہی ہیں، جبکہ کہ غربت کی شرح میں اضافے کا سبب ہی بن رہی ہیں۔

دیکھا جائے تو پاکستان جیسے ملک میں غربت ایک تلخ حقیقت اور پوری انسانیت کا المیہ بن رہی ہے. اور ہمارے جیسے ملکوں میں غربت انسان کی تذلیل بن جاتی ہے. کیونکہ اس نفسانفسی کے ماحول میں لوگ آپ کے حالات سے ہاتھ ملاتے ہیں، آپ سے نہیں۔ یہ زندگی کی ایک تلخ حقیقت ہےاور اس میں کوئی دو رائے نہیں انسان زندگی میں ہر دکھ اور تکلیف برداشت کرسکتا ہے، مگر غربت ایسا بوجھ ہے جو انسان کی خودداری، عزتِ نفس، اور خوابوں کو بے دردی سے اس کو پیروں تلے روند دیتا ہے جب آپ کے وسائل نہ ہوں تو دنیا کا رویہ بدل جاتا ہے۔ آپ کی بات کا وزن پلڑے میں کم ہو جاتا ہے، اور لوگ آپ کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے آپ میں کوئی بڑئے کمی ہو۔ اور اس پر اگر سونے پہ سہاگہ بے روزگاری جوانی میں ذلت و رسوائی و مجبوری کا دوسرا نام بن جاتی ہے، اور کبھی تو یہ لگتا ہے کہ فقر و افلاس موت سے بھی بدتر ہے۔ غربت صرف آپ کی جیب کو خالی نہیں کرتی بلکہ دل و دماغ پر گہرے زخم چھوڑ جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا “عیب” بن جاتی ہے جو انسان کی تمام خوبیاں و اچھائیاں چھپا دیتی ہے۔ کیونکہ اس نفسانفسی میٹلیٹک معاشرے میں لوگ وسائل کے بغیر آپ کی محنت اور خلوص کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے، اور یہ دنیا کی بے رحمی کو ظاہر کرتا ہے. یہی ملکوں کا حال ہے آج پاکستان کی پوزیش بھی دنیا میں اس ہی طرح ہوگئی ہے. اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ انسان کی قدر صرف اس کی دولت و شہرت سے کی جاتی ہے؟ دنیا میں عزت اور خودداری صرف پیسے کی محتاج ہے؟ یا یہ ہم ہیں جنہوں نے اپنی اقدار کو دولت کے پیمانے پر تولنا شروع کردیا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو دل کو جھنجھوڑ دیتے ہیں اور ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ اس دنیا کی حقیقت پر غور کریں۔ کہ آج پاکستان بھی اس ہی دوراہے پر کاسہ لیے کھڑا ہے، مگر جو کبھی 1960 کی دہائی میں خلیج و دیگر مُلک کے سربراہ پاکستان سے دوستی کرنے پر اپنا فخر سمجھتے تھے آج اس سے اپنا پلو جھاڑتے نظر آتے ہیں اس کی وجہ صرف اور صرف پاکستان کی غربت ہے.


 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 468 Articles with 270841 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.