ون پوائنٹ ایجنڈا

یوں تو ہم بہت سارے مسائل سے دوچار ہیں اور فی الحال مسائل کے حل کی بجائے ان میں اضافہ ہی ہوتا نظر آرہاہے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسائل کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش ہو ہی نہیں رہی اور اگر غور کریں تو ان مسائل کی جڑ و ہ بد دیانتی ہے جو ہمارے معاشرے میں نیچے سے لے کر اوپر تک ہر ایک کے کردار کا حصہ بن چکی ہے اگر سچ پوچھا جائے تو ہم میں سے کوئی پارسائی کا دعویٰ کرنے کے قابل نہیں رہاہے لیکن جب یہی کرپشن اور رشوت خوری اعلیٰ حکومتی درجے پر ہوتی ہے تو ادارے تباہ کر دیتی ہے اور ملک کو صدیوں پیچھے دھکیل دیتی ہے اور یہی کچھ ہمارے ملک میں ہورہا ہے ۔ ہر ایک کو اپنے بینک بیلنس کا خیال ملک سے بڑھ کر ہے اس دوڑ میں ملک کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک کے انتہائی اہم اداروں کو بیچ کر کھایا گیا یا ایسا کیا جا رہا ہے بغیر یہ سوچے کہ ان اداروں کے بغیر ملک اپا ہج ہو رہا ہے۔ آج کل ریلوے کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے کیا وہ ایسا ہی نہیں ہے جیسے ایک دشمن ملک کے اس طرح کے اداروں کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ ریلوے زمانہ امن سے لے کر حالت جنگ تک جو اہم کردار ادا کرتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں امن میں یہ ایک سستی سواری ہے اور جنگ میں بھاری سامان جنگ کی ترسیل کا اہم ذریعہ لیکن بقول لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عظمت حیات کے ڈیڑھ سوسالہ پرانا ریلوے کا نظام کرپٹ افسروں نے تباہ کر دیا ہے اور اس میں کوئی مبا لغہ بھی نہیں وہ ریلوے جس نے عرصہ دراز تک غریب اور متوسط طبقے کو سستی سواری فراہم کی وہ آج بند ہونے کے قریب ہے۔ روزانہ بند ہونے والی گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، تین سو انجن خراب ہو چکے ہیں، سینکڑوں ملا زمین بے روزگار بیٹھے ہوئے ہیں اور اِن حالات میں بھی ریلوے افسران ایک ہی شہر میں ایک سٹیشن سے دوسرے پر تبادلے کے لیے کوشاں ہیں اور وجہ صرف یہ ہے کہ اس دوسرے سٹیشن پر آمدنی زیادہ ہے۔ ظاہر ہے اسی کرپشن کا پیٹ بھرنے کے لیے ہی ریلوے کے سارے وسائل وقف ہوچکے ہیں ۔ریلوے ایک ایسا ادارہ ہے جو حکومت کے لیے بھی آمدنی کا ذریعہ بن سکتا ہے لیکن اس وقت خود یہ ادارہ حکومت کا سو ارب روپے کا مقروض ہے اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے تو اِس قرض کا مستقبل قریب تو کیا مستقبل بعید میں بھی ادا ہونا نا ممکن ہے ۔قومی نوعیت کے اس انتہائی اہم ادارے کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ شدید قسم کا قومی جرم ہے لیکن اس سے بھی بڑا جرم تو یہ ہے کہ ان مجرموں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں اور ایک منافع بخش ادارہ نا صرف ناکارہ ہوگیا ہے بلکہ ملکی معیشت پر بوجھ بن چکا ہے ۔ یہ تو صرف ریلوے کی تباہی کا ایک انتہائی مختصر اور سرسری سا جائزہ ہے لیکن دوسرے قومی اداروں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں پی آئی اے جسے کبھی واقعی باکمال لوگوں کے لیے لا جواب سروس سمجھا جاتا تھا آج انتہائی خسارے میں جارہی ہے بلکہ اکثر اوقات بین الا قوامی سطح پر قوم کے لیے شرمندگی کا باعث بن جاتی ہے لیکن انتہائی مخدوش حالات میں بھی اس اہم قومی ادارے کے افسران انتہائی ڈھٹائی سے اعلیٰ ترین تنخوا ہیں وصول کر رہے ہیں اور مسلسل اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کر رہے ہیں اس کے لیے وہ ملک و قوم کو خاطر میں توکیا وہم و گمان میں بھی نہیں لاتے اور ہر ایک اپنی ذات کے لیے کوشاں ہے۔ حکومت اداروں سے زیادہ اپنے من چاہے لوگوں کی ترقی کے بارے میں فکر مند ہے قومی ترقی کے کام نہ صرف رکے ہوئے ہیں بلکہ موجود منصوبوں اور اداروں کو بھی کرپشن کی عفریت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ منافع بخش قومی اداروں کو ملکی معیشت پر بوجھ بنا دیا گیا ہے کرپشن کی ایک نہ بھولنے والی مثال تو سٹیل ملز کی بلا مبالغہ اونے پونے فروخت کی کوشش تھی ظاہر ہے اتنے بڑے سودے اور منصوبے حکومتی نظروں سے اوجھل تو نہیں رہ سکتے اور اگر رہ جائیں تو یہ کرپشن سے بھی بڑا جرم ہے ۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرات کے کنارے پیاسے کتے کی مرنے کی ذمہ داری لے سکتے ہیں تو ہماری حکومتیں ہزاروں لاکھوں افراد کے بھوکے سونے اوربھوکے بلکنے مرنے کی ذمہ داری کیوں نہیں لیتے ۔ بات اُس کردار اور قوت ایمانی کی ہے جسے ہم نے اپنے بزرگوں کے ساتھ ہی دفن کردیا ہے۔ اگر آدھی دنیا پر محیط سلطنتوں پر حکومت کرکے بھی سادہ ترین زندگی گزارنے کے باوجود ایک دنیا اُن سے کانپتی تھی تو اس کی وجہ وہ بے مثال کردار تھا جس کا اعتراف ہر زمانے میں دنیا نے کیا۔دولت سے زیادہ ان کو عزت عزیز تھی اور اسی لیے مال و زر نے ان کو کبھی متوجہ تک نہ کیا لیکن آج ایک عام عہدے پر فائز افسر بھی کروڑوں کا مالک بننے کے چکر میں حرام اور حلال کا فرق بھلا بیٹھا ہے۔

بات ریلوے میں کرپشن سے شروع ہوئی تھی لیکن یہ واحد ادارہ نہیں جسے ہم نے تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کر دیا ہے اگر ہم آج بھی سوچ لیں کہ پاکستان ہے تو ہماری عزت بھی ہے اور آسائش بھی تو میرے خیال میں اس ادارے کو بشمول دوسرے اداروں کے بچانے کے لیے لمبے چوڑے اور پیچیدہ منصوبے بنانے سے زیادہ اس سوچ کو پروان چڑھا نا ہوگا اور پھر اسے نافذ کرنا ہوگا کہ ہم نے ملک کو خود پر فوقیت دینی ہے، ہم نے ہر حال میں کرپٹ اور راشی اہلکاروں کو سزادینی ہے چاہے یہ اہلکار افسر ہوں یا ماتحت یا پھر وزیر اور مشیر۔ جب تک ملک کے لیے سوچنے اور حرام اور حلال کی تمیز کی سوچ کو پروان نہیں چڑھایا جائے گا تب تک ہمیں کسی خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ کرپشن ختم کرنے کے لیے صرف ون پوائنٹ یعنی یک نکاتی ایجنڈا یہی ہونا چاہیے کہ ہر راشی کو انتہائی سخت سزا دی جائے گی اور چونکہ حکومت خود اس کرپشن میں حصہ دار ہی نہیں بلکہ کلیدی کردار ہے لہذا اس کے لیے ہماری عدالتوں کو ہی وہ کردار ادا کرنا ہو گاجو اسلامی نظامِ عدل کا خاصہ ہے اور یہ سزائیں دیتے ہوئے کسی تفریق کو روا نہ رکھا جائے، بڑااور چھوٹا ، پسندیدہ ا ورناپسندیدہ سب کو ایک ہی ترازو میں تولا جائے تو تب ہی ہم اپنے اداروں کو بچا سکیں گے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 509682 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.