پشاور ائیرپورٹ ، عمرہ اور لوگوں کی مشکلات


پشاور ائیرپورٹ پاکستان کا واحد ائیرپورٹ ہے جہاں پر جانیوالے ہر شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے اگر ائیرپورٹ کے راستے پر جانیوالے سیکورٹی اہلکار سمیت پولیس کو پتہ چل جائے کہ آنیوالا شخص کسی قبائلی علاقے سے ہے یا پھر کسی ایسے علاقے سے جو پشاور ، مردان کے علاوہ کسی دوسرے شہر سے ہے تو پھر اس کیساتھ اللہ دے اور بندہ لے والاحساب کیا جاتا ہے یہی معاملہ ائیرپورٹ کے اندر بھی کیا جاتا ہے کپڑو ں کی تلاشی سے لیکر بیگ کی تلاشی بھی ایسی لی جاتی ہیں جیسے باہر جانیوالاشخص ہیروئن لیکر جارہا ہے ، ایسے شک بھری نگاہوں سے دیکھاجاتا ہے کہ بندہ اپنے آپ پر شرمندگی محسوس کرنے لگتا ہے ، کہ یہ کدھر آکرپھنس گیا ہوں ، خیر اس میں غلطی سیکورٹی اہلکاروں کی بھی نہیں ہمارے پختونخواہ کے لوگوں نے گوبھی سے لیکر اخروٹ ، چپلیوں، بیگ سمیت ہرچیز میں منشیات لے جانے کی کوشش کی حتی کہ کیپسول بھی اسی ائیروپورٹ سے لے جانے کی کوشش کی جاتی رہی ، جو کہ 1990 سے جاری و ساری رہی کئی لوگوں کے سر بھی بیرون ملک کٹ گئے لیکن پیسے کی ہوس اور زیادہ کرنے کی دوڑ نے ہر ایک کو حلال وحرام کی تمیز ہی ختم کردی

پشاور ائیرپورٹ کے بارے میں مختلف جگہوں پر ویڈیوز میں مسافروں کیساتھ پیش آنیوالے واقعات پر باتیں ہوتی رہی لیکن حقیقت یہی ہے کہ متعدد بیرون ملک سفر زیادہ تر اسلام آباد سے کئے اس لئے پشاور ائیرپورٹ کے بارے میں معلومات نہیں تھی لیکن جب راقم کوخود ائرپورٹ روڈ پر جانے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ اس ائیرپورٹ پر جانے والے افراد کی مشکلات کے حوالے سے باتوں میں بہت سی حقیقت ہے ، عمرہ پر جانا کیسا ہو ا ، یہ الگ ہی کہانی ہے حقیقت یہی ہے کہ وہاں پر آنیوالا ہر ایک شخص اللہ کا مہمان ہوتا ہے ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کروڑوں روپے رکھنے والے افراد بھی عمرے پر نہیں جاسکتے اور عام لوگ جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا ، وہ عمرے پر چلے جاتے ہیں ، یہ بلاوا ہوتا ہے ، وسیلے اسباب اللہ تعالی پیدا کرتا ہے ، کم و بیش راقم کیساتھ بھی یہی صورتحال رہی ، اکیس دن گزارنے کے بعد پتہ چل رہا ہے کہ جیسے ایک خواب ہو ، انیس جنوری کو عمرہ پر جانے کیلئے پشاور ائیرپورٹ کیلئے روانگی تھی ، ساڑھے نو بجے گھر سے نکلا اور تقریبا بیس منٹ بعد پشاور ائیرپورٹ روڈ پر پہنچا ، اور کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے سیکورٹی کے نام پر اہلکاروں نے گاڑی میں روڈ پر کھڑے کئے رکھا ، حیران کن طور پر یہاں پر چلنے والی سبز رنگ کی سوزوکی ٹیکسیوں کیساتھ سیکورٹی اہلکاروں کا معاملہ ٹھیک تھا لیکن اپنی گاڑیو ں میں آنیوالے ہر شخص کی ایسی تلاشی لی جارہی تھی جیسے ایٹم بم کا فارمولہ ان مسافروں کے پاس ہو ، فلائٹ کا وقت تو بارہ بجے تک لیکن ساڑھے دس بجے ائیرپورٹ میں داخل ہوا ، سیکورٹی اہلکاروں نے گاڑی میں بیٹھے بچوں کو ائیرپورٹ سے باہر نکال دیا کہ ان کی ضرورت نہیں.

ائیرپورٹ پر اندر داخل ہونے کے بعد جب انٹرنیشنل فلائٹ کے مقام پر اندر جانے کی کوشش کی تو ایک صاحب جس نے کالے رنگ کی واسکٹ پہنی تھی اور سفید کپڑوں میں ملبو س تھا ، بالکل اسی گیٹ کے نزدیک کھڑا ہو کر راقم کو کہنے لگا کہ ہمارا ایک بندہ اندر گیا ہے اس کا سامان رہ گیا ہے ، آپ اندر لے جائیں ، ایک تو ڈیڑھ گھنٹے روڈ کنارے کھڑے رہنے نے دماغ خراب کیا تھا ، اوپر سے یہ رشتہ دار بن کر سامان لے جانے کا کہہ رہا تھا ، میٹر ایک دم گھوم گیا اور اسے کہہ دیا کہ بھائی اپنے کام سے کام رکھو ، لیکن ساتھ میں یہ ذہن میں آگیا کہ اس مقام تک پہنچانے والا بھی کوئی تو ہے، اب وہ جو سامان دے رہا تھا کیا پتہ اس میں کیا تھا ہو سکتا ہے کہ سامان بھی ٹھیک ہو لیکن اعتبار کا زمانہ ہی نہیں رہا اس لئے کوئی چیز ہی نہیں لے ، کیونکہ اگر اس میں کچھ تھا بھی تو اندر جانیوالا تو راقم ہی تھا، کوئی چیز نکل آئی تو سیکورٹی اہلکار ہماری درگت بناتے ، وہ تو انٹرنیشنل لاﺅنج کے باہر تھا ، یکدم انکار بھی کرسکتا تھا کہ میں نے کچھ نہیں دیا -سوال یہ ہے کہ ائیروپورٹ کے اس مقام پر کوئی کس طرح پہنچ کر مسافروں کو سامان دینے کی کوشش کرسکتا ہے ، حال ہی میں پنجاب میںہونیوالا ایک واقعہ جس میں ائیرپورٹ کے حکام نے لیبل ٹیگ الگ بیگ پر ڈال کر عمرہ کرنے والوں کو اندر کردیا ، اس میں ائیرپورٹ کے اہلکار ہی ملوث ہیں ایسے میں پشاور ائیرپورٹ پر19جنوری کو اس مقام پر کھڑا ہو کر مسافروں کو سامان دینے کی کوشش کرنے والا کون تھا ، یہ وہ سوال ہے جس پر سیکورٹی اہلکاروں کو سوچنا چاہئیے کیونکہ سیکورٹی کیمرے بھی لگے ہوئے ہیں ، اگر کوئی سادہ بندہ سامان لے بھی جاتا تو درگت اس کی بننے کی تھی ، اور اگر سامان ٹھیک بھی تھا تو اندر جانیوالا اتنا ہی جلدی میں تھا کہ سامان بھول گیا ، یہ ناممکن سی بات ہے جو ہضم ہی نہیں ہورہی.

پشاورائیرپورٹ کے اندر جانے کے بعد ایف آئی اے کے اہلکار نے بیگ کھولن کا کہا اور مقام رہائش کا پوچھا ، پھر بیگ میں ایسے ہاتھ مارنے لگا جیسے اس کے ہاتھ میں کچھ آرہا تھا ، پھر بٹوہ چیک کیا اور جیب میں پڑی لونگ کو پکڑ کر پوچھا کہ یہ کیا ہے ،ایک اور صاحب نے تینوں پاسپورٹ دیکھ کر پوچھا کیاکرتے ہو ، جب بتایا کہ صحافی ہو تو پھر اس کے آنکھوں کی چمک ذرا دھیمی پڑ گئی ورنہ ایسے نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ راقم اپنے آپ کو بین الاقوامی ہیروئن سمگلر سمجھ رہا تھا.وہاں سے جان چھوٹی تو ایگزٹ پوائنٹ پر ایک ایف آئی اے کے اہلکار نے عمرے پر جانیوالے ایک بندے جو اپنی والدہ کیساتھ جارہا تھا پوچھا کہ کس محکمے میں ہو اس نے بتا دیا کہ استاد ہوں ، پھر این اوسی کا پوچھا تو ا س نے کہاکہ نہیں ہے لیکن ایف آئی اے کے اہلکار نے اسے جانے دیا ، جب راقم کی باری آئی تو راقم سے پوچھاکہ این او سی کدھر ہے ، راقم نے بتایا کہ بھائی میں فری لانس صحافی ہوں ، میں کس سے این او سی لیکر آﺅں اور میرا کسی سے کوئی تعلق نہیں ، جن سے این او سی لینا تھی اسے آپ نے چھوڑ دیا اور جن کیلئے ضروری نہیں آپ ان سے این او سی مانگ رہے ہیں جس پر اس بات پر ایف آئی اے امیگریشن کے اہلکار نے سر اٹھا کر پوچھا کیا کرتے ہو، میں نے بتایا کہ آپ کو بتا چکا ہوں کہ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں ، جرنلسٹ ہوں ، میں نے اسے کہہ دیا تھا کہ سرکار کے سارے کام نرالے ہیں ، اس نے کہا کہ ہم بھی سرکاری ملازم ہے ، میں نے اسے کہہ دیا کہ یہی بھی نرالا کام ہے ، جس پر اس نے پاسپورٹ پر ایگزٹ کی مہر لگا کر جانے کا کہہ دیا.

ائیرپورٹ کی حدود میں جا کر سب سے پہلا ایک اہلکار ملا جس نے کہا کہ صاحب وی آئی پی لاونج جانا ہے ، میں نے معذرت کی کہ ضرورت نہیں حالانکہ متعدد پی آئی اے کے دوستوںنے بات کی تھی لیکن جب اللہ کے گھر میں جانا ہو تو پھر کیسا وی آئی پی اور کیسا پروٹوکول و اہمیت ، ائیرپورٹ پر احرام باندھنا بھی بڑی بات ہے ، راقم نے یوٹیوب سے احرام باندھنے کی ویڈیو دیکھ کر احرام باندھنے کی کوشش کی لیکن نہیں ہوسکی آخر کار ایک بزرگ سے اس معاملے میں مدد لی اور احرام باندھنے کے بعد جیسے ہی باہر نکلا کہ دو رکعت پڑھنے ہیں ، ائیرپورٹ اہلکاروں نے کہہ دیا کہ فلائٹ پہلے جاررہی ہے فلائٹ میں جا کر نماز پڑھ لیںاور ائیرپورٹ اہلکاروںکو دل ہی میں صلواتیں سناتے ہوئے جہاز کی طرف روانہ ہو ا ، شکر ہے کہ سعودی ائیر لائن کے ابتدائی حصے میں سیٹ ملی ،-ورنہ جو دھکم پیل جہاز کے اندر جانے کی پاکستانی اور خصوصا پٹھان کرتے ہیں اور جہاز لینڈ کرنے کے بعد جتنی تیزی سے یہ سامان اتار کر کھڑے ہوجاتے ہیں ایسے لگتا ہے کہ یہ جہاز انہیں لیکر کسی دوسرے جگہ پر نہ چلی جائے ، اس حوالے سے سعودی ائیر لائن کے ایک سٹیورڈ سے بات بھی ہوئی تھی اس کا کہنا تھا کہ مسافروںکو کنٹرول کرنا ہماری ذمہ داری ہے اس کے بقول صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ مصر کے لوگ بھی اتنے ہی جلدباز ہوتے ہیں -

جہاز جیسے ہی روانہ ہونے لگا تو مسافروں کو بتایا گیا کہ سیٹ بیلٹ باندھ لیں، راقم کے دائیں سیٹ پر خاتون بیٹھی تھی اسے سیٹ بیلٹ باندھنا نہیں آتا تھا ، اس نے کہہ دیا کہ اسے باندھ لیں ،حیران کن طور پر سعودی ائیرلائن میں بیشتر سٹیورڈ سعودی عرب کے تھے جبکہ خاتون ائیرہوسٹس فلپائن کی تھی راقم نے پہلی مرتبہ احرام باندھا تھا اس لئے متعدد لوگ واش روم گئے لیکن راقم کے دل میں ڈر تھا کہ احرام کھول دیا تو پھر نہیں باندھ سکوں گا دوسر ے جہاز کا واش روم بھی انتہائی چھوٹا ہوتا ہے ایسے میں پتہ نہیں چلتا کہ کہیں پیشاب کے قطرے نہ لگے ، اس لئے اپنے آپ کو کنٹرول کئے رکھا ،

متعدد جان پہچان کے لوگ جہاز میں ہی مل گئے لیکن عمرہ پر جانیوالے بیشتر افراد کو عمرہ کے واجبات اور سنت کے بارے میں معلوم ہی نہیں ، اللہ کا شکر ہے کہ پی ٹی و ی میں تعینات ایک اہلکار نے عمرہ کے حوالے سے بہت کچھ بتایا تھا اس لئے ان چیزوں کے بارے میںپتہ تھا جس پر راقم ان صاحب کیلئے دعاگو ہے کہ اللہ تعالی انہیں لمبی عمر اور صحت دے تاکہ وہ لوگوں کو عمرے اور حج کے احکامات کے حوالے سے آگاہ کرتے رہیں ، بیشتر افرادکو عمرے کی بنیادی نکات کے بارے میں پتہ ہی نہیں ہوتا ، حالانکہ لوگ لاکھوں روپے خرچ کرکے جاتے ہیں لیکن کیا کرنا ہے ، کس طرح کرنا ہے ، عمرہ یا حج کے حوالے سے اہم نکات کیا ہے اس بارے میں لوگ نہ تو بزرگوں سے پوچھتے ہیں اور نہ اپنے علاقے کے پیش امام ، اسی طرح دیگر معاملات میں بھی ان کی یہی لاپرواہی انہیں مسائل کا شکار کرتی ہیں جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ، اور اس معاملے میں عمرہ زائرین سمیت ٹریول ایجنٹ و دیگر افراد کو بھی اسلام کے اہم رکن کے حوالے سے صرف ثواب کی نیت سے زائرین کو آگاہ کرنا چاہئیے ہر وقت پیسے کی ہوس اور زیادہ کرنے کی لالچ کسی کو کہیںکا نہیں چھوڑتی ، پانچ گھنٹے سے زائد کا سفر جدہ تک رہا ، اس میں کچھ لوگوں نے احرام نہیں باندھے تھے جن کیلئے اعلان ہوا کہ احرام باندھ لین اور نیت کرلیں جو انہوں نے کرلیا اور پھر جدہ ائرپورٹ پر جہاز اترنے کے بعد جو بھاگ دوڑ ہمارے پختو ن بھائیوں نے کی حالانکہ جہاز اس وقت تک رکا بھی نہیں تھالیکن نس وار کھانے والی قوم کو اللہ ہی سمجھائے-

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 661 Articles with 533277 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More