جدہ ائیرپورٹ ، خواتین اہلکار ، عربی اور مکہ کے فندق
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
مسرت اللہ جان
جدہ ائیرپورٹ پر تعینات بیشتر اہلکار خواتین ہیں ،ان میں نوجوان خواتین کی تعداد زیادہ ہے ، جو ہر آنیوالے شخص کا ویزہ اپنے موبائل میں چیک کرتی ہے ، پتہ نہیں کسی سافٹ وئیر کے ذریعے چیک کرتی ہیں یا پھر ویزے کی تصاویر بھیج کر معلومات لیتی ہیں لیکن ائیرپورٹ پر اتر کر عبایا پہنی خواتین اورایک مخصوص ڈیزائن کے کم عمر لڑکے ہر عمرہ زائر کو حاجی کہہ کر مخصوص جگہوں پر کھڑی گاڑیوں میں جانے کی ہدایت کرتے ہیں ، راقم اپنے سامان لیکر جیسے ہی انٹرنیشنل لاﺅنج سے نکلا تو ایک کم عمر خاتون اہلکار جس کی صرف آنکھیں نظر آرہی تھی ، نے راقم کو کھڑا کرکے پاسپورٹ چیک اور پھر ایک مخصوص لائن میں کھڑی گاڑیوں میں جانے کی ہدایت کردی ، جدہ ائیرپورٹ پر پہنچ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی یورپی ملک کے ائیرپورٹ پر پہنچ گیا ہو، عربی اور انگریزی زبان میںاناﺅنسمنٹ ہوتی ہیں ، عربی کی سمجھ نہیں آتی اس لئے راقم جیسے لوگ انگریزی کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ یہ کچھ بول دیں تو ہمیں سمجھ آجائے .
چین کے بنے بڑی گاڑیاں ٹرانسپورٹ کے طورپر استعمال ہوتی ہیں جس میں مسافروںکوحرم مسجد کے قریب واقع ہوٹلوں میں پہنہچایا جاتا ہے کم و بیش مغرب کی نماز تک راقم اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ھجرہ روڈ پر واقع اپنے ہوٹل پہنچ گیا ، جہاں پر ہوٹل میں شیئرنگ روم تھی ، ایک گلی میں واقع ہوٹل کے سامنے پشاور کے ایک نواحی علاقے سے رکھنے والے ہیرڈریسر کی دکان تھی جس میں دو شفٹوں میں ہیر ڈریسر عمرے پر آنیوالے افراد کو پانچ ریال کے عوض گنجا کراتے تھے ،پندرہ ریال کی کٹنگ ہوتی تھی ، ماشاءاللہ ان صاحب کی اتنی آمدنی راقم نے دیکھی کہ اس کے دکان پر دو شفٹوں میں تین تین ہیرڈریسر کام کرتے تھے ، پشتو زبان میں بات کرنے والے ہیئرڈریسر ایسے سمارٹ تھے ، اس طرح کے ہیر ڈریسر کی دکان مکہ کے ہر کونے میں ہیں جس میں بھارتی ہیر ڈریسر سمیت بنگالی ہیر ڈریسر بھی کام کرتے ہیں ، ہمارے ہاں بالوں کو ٹھیک کرتے وقت ہیر ڈریسر کپڑا ڈالتے ہیں جبکہ وہاں پر پلاسٹک شیٹ کا استعمال ہوتا ہے ، ایک پلاسٹک شیٹ ایک مرتبہ استعمال ہوتی ہیں اور پھر گرائی جاتی ہیں ، جنہیں شام کے اوقات میں ایک مخصوص لفافے میں بند کرکے کچرا اٹھانے والے گاڑی میں ڈالا جاتاہے.
سعودی عرب میں ہیر ڈریسر کے کام کرنے والوں کی آمدنی زیادہ ہے، راقم نے اس دکان کے پشتو ن مالک کے پاس ایسی گاڑی دیکھی کہ جو ہمارے ہاںو زراءکے پاس بھی نہیں ہوتی ، کیونکہ ہر کوئی شخص جو یہاں پر آتا ہے لازما عمرہ کرتا ہے اور عمرے کرنے کی بعد لازمی سر کے بال کاٹنے ہوتے ہیں یا پھر استرا پھیرا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ یہاں پر استرے پھیرنے والے ہیرڈریسرز کبھی آپ کو فارغ نہیں ملیں گے ، ٹھیک ٹھاک آمدنی ہیر ڈریسرز کی دکانوں کی ہیں.
سعودی عرب میں بیشتر ہوٹلوں پر فندق لکھا ہوتا ہے ، ابتداءمیں جب روڈ کنارے اتار کر ہمیں کہا گیا گیا کہ فلاں فندق چلے جائیں ، وہاں پرآپ کا کمرہ ہے ، روڈ کنارے اتنی بڑی بلڈنگ پر فندق فلاں ، فلاں دیکھ کر عجیب سا لگا ، پہلے تو سرسری نظر سے پتہ لگا کہ یہ خندق ہے لیکن بعد میں غور کرنے پر پتہ چلا کہ یہاں پر ہوٹل کو فندق کہتے ہیں اس لئے یہاں پرفندق بھی ایسے ایسے ہیں کہ بندہ اتنی عالی شان اور بڑی بڑی بلڈنگ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے ، جس ہوٹل میں راقم کو کمرہ ملا تھا ، اس کے چھٹے فلور پر پہنچ کر سامان رکھا ہی تھا کہ گجرات سے تعلق رکھنے والا ایک لڑکا ملا جس نے پوچھا پہلی مرتبہ آئے ہو، کتنی رقم لائے ہو ، یہاں پر سو ریال اور ڈیڑھ سو ریال کی سم ملتی ہیں اس کی بات سن کر عجیب سا بھی لگا کیونکہ اتنی رقم تو راقم کے پاس تھی کہ کام چل جاتا ، خیر اس نے ہاتھ پکڑ ا ، مغرب کی نماز ہم نے حرم کے راستے میں ادا کی ، وہ مسجد حرم کے راستے لے گیا 79 نمبر گیٹ کے سامنے پہنچ کر اس نے بتایا کہ یہاں سے جانا ہے اور پھراندر داخل ہو ا ، لبیک اللہ ھم لبیک کی صدائیں سن رہا تھا اور یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میں حرم میں داخل ہورہا ہوں پاکستان سے سعودی عرب جاتے ہوئے بہت سارے لوگوں نے کہا تھا کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جاتی ہیں وہ قبول ہوتی ہیں او ر اسے دیکھ کر رک جانا ہے ، نیچے جا کر آنکھیں نیجے کرکے جا رہا تھا کہ خانہ کعبہ کو پورا دیکھو ، اور پھر کچھ لمحوں میں رب ذوالجلال کا گھر دیکھ لیا ، اس وقت کے کیفیت بیان نہیں کرسکتا لیکن محبت کرنے والے اللہ کی شان دیکھ لی ، بس خوشی اور حیرانگی کے آنسو تھے کہ کہاں پر راقم اور کہاں پر اللہ کا گھر ، لیکن سچ ہے کہ جب اللہ کرتا ہے تو پھر اس کے کن ہوتے ہی اسباب ، وسائل خود دوڑے چلے آتے ہیں .الحمد اللہ ، طواف کے بعد نفل نماز اور زمزم پی اور پھر سعی کے بعد ہوٹل کی طرف روانہ ہوا ، جہاں پر بال کاٹ دئیے ، نیچے لوگوں کا ہجوم دیکھ کر اللہ کی کبریائی کا احساس ہوا ،وہ ذات جو یکتا ہے جو اذل سے ابد تک ہے جس کا کوئی شریک نہیں ، اس کی شان ہی الگ ہے.بے شک الفاظ ختم ہو جائیں لیکن اللہ کی بڑائی ، اس کی شان ، اس کی اپنے بندوں سے محبت کو ئی بھی نہیں لکھ سکتا -وہ جو رحمان و رحیم ہے ، وہ جو دلوں کا مالک ہے . وہی کن فیکون ہے اور وہی اللہ ہے.
اپنے ہوٹل کے کمرے میں جا کر سونے کی کوشش کی لیکن نیند ہی نہیں آرہی تھی ، شیئرنگ روم کے بہت سارے فائدے ہیں لیکن نقصان بھی بہت ہیں ، اگر آپ کا بیڈدروازے کے نزدیک ہے تو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ دروازے کھولیں گے، اسی طرح ہم پاکستانی ڈرتے بھی ہیں کہ کہیں کوئی موبائل پار نہ کرے ، حالانکہ کم و بیش اکیس دن ، مکہ اور مدینہ میں گزارنے کے بعد پتہ چلا کہ یہاں پر چوری کا کوئی تصور ہی نہیں ، یہ اللہ کاڈر ہے ، یا ہاتھ کاٹنے کا ڈر ، لیکن حقیقت یہی ہے کہ عمرے کیلئے آنیوالے افراداتنا ایک دوسرے کیساتھ تعاون کرتے ہیں کہ حیرانگی ہوتی ہیں ، ہر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ اللہ کا مہمان ہے اور مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہیں ، شیئرنگ روم میں خراٹے بھی ملتے ہیں ، یہاں آکر پتہ چلا کہ جو بندہ سیدھا سیدھا سوتا ہے اس کے خراٹے لازمی ہوتے ہیں جو سنت کے مطابق سوتے ہیںوہ خراٹے لیتے ہی نہیں ، اپنے روٹین کے مطابق اٹھ کر مسجد حرم کی طرف دوڑ لگائی ، تہجد کی نماز پڑی اور قرآن پاک کی تلاوت کے بعدفجر کی نماز پڑھی اور ہوٹل کی طرف روانہ ہوا .
مسجد حرم سے نکل کر ایسا لگا کہ جیسے میں مری میں آگیا ہوں ، اتنی ٹھنڈی اور تازہ ہوائیں جیسے یہاں پر بھیج گئی ہوں ، صبح سویرے یہاں پر کبوتر چوک میں افریقین خواتین بیٹھ کر عبایا ، بچوں کے کھلونے اور دیگر سامان دو ریال سے لیکردس ریال اور بیس ریال میں بیچتی ہیں ، اس طرح بازاروں میں دو ریال میں سامان بیچنے والے افراد بھی ہیں جہاں پر گھڑی ، تسبیح ، انگوٹھیوں سے لیکر ٹوپیاں ، جائے نماز اور ہر قسم کی چھوٹی موٹی چیزیں ملتی ہیں -جس پر سب لوگوں کا رش ہوتا ہے ، اس طرح بعض ہوٹل والوں کے سامان مفت میں چاول دینے والوں کی لائن لگی ہوتی ہیں ، او ر اس لائن میں لگنے والے بیشتر پاکستانی ہی ہوتے ہیں ، کسی بنگلہ دیشی ، بھارتی ، ملائشین ، انڈونشین ، کورین ، جاپانی ، ازبک ، افغانی کو راقم نے نہیں دیکھا کہ لائن میں کھڑے ہو کر چاول لینے کیلئے کھڑا ہوا ، حیرانگی بھی ہوتی ہیں کہ جب اللہ کے گھر لاکھوں روپے اپنا لگا دئیے تو پھر مفت کے کھانے کے پیچھے کیوں خوار ہوتے ہیں ، یہ سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے ، کچھ لوگ کھجور لیکر کھڑے ہوتے ہیں کہ کھجور کوئی اٹھا لے اور ہوٹلوں میں جانے والے افراد ان سے کھجو ر لیتے ہیں ، کوئی ایک دو ، کوئی چار پانچ اور کو مٹھی بھر لیتا ہے لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ آپ نے اتنے زیادہ کیوں لئے -
مکہ کے ہجرہ روڈ پر عبایا بیچنے والے سمیت کبوتروں کو دانہ دینے والے خواتین جو پیکٹ فروخت کرتی ہیں پولیس کو دیکھ کر وہ دوڑی لگاتی ہیں کہ حیرانگی ہوتی ہیں ، یہاں پر بھیک مانگنے والی بیشتر خانہ بدوش خواتین ہوتی ہیں اور ان میں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے ، جو عمرہ کرنے والے زائرین سے چمٹ کر پیسے مانگتی ہیں ،ان کے کپڑوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پاکستانی ہے ، لاکھوںکے اجتماع میں پاکستانی بھک منگوں اور لائن میں کھڑے ہو کر چاول لینے والے افراد کو دیکھ کر عجیب سی کیفیت ہوتی ہیں کہ یا اللہ ، ہم خود کو کس کھائی میں گرا رہے ہیں ، پیٹ سب کے پاس لگا ہوتا ہے لیکن یہاں پر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ایک فرمان جو زمزم کے حوالے سے ہے کہ اس میں رزق بھی ہے اور اس میں شفا ءبھی ہے ، اور یہ راقم کا ذاتی تجربہ ہے کہ اگر کوئی زمزم کے پانی کو کو کھانے کے طور پر پی لے تو یقینا نہ صرف اس کی بھوک مٹے گی بلکہ اسے وضو ٹوٹنے کی شکایت کبھی نہیں ہوگی ، بقول ہمارے ایک کوئٹہ کے رہائشی دوست کے کہ زمزم کا پانی تو پیٹ کے اوپر حصے میں جا کر غائب ہوتا ہے .پتہ ہی نہیں چلتا اور واش روم جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی.
فندق یعنی ہوٹل کی طرف جاتے ہوئے صبح سویرے پاکستانی ہوٹل کے اہلکار چیخیں ما ر کر عمرہ کرنے والے زائرین کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں کہ پراٹھا ، انڈھا ، چنے ملیں گے اس طرح بعض یہی کہتے ہیں کہ پانچے بھی ملیں گے ، مدینہ کے مقابلے میں مکہ کے ہوٹلوں کے مالکان مہنگی چیزیں بیچتے ہیں ، چائے جو مدینے میں دو ریال کی ہوتی ہیں مکہ میں وہی کپ تین ریال کا ملتا ہے.یعنی چھ ریال میں مدینے میں چائے ، پراٹھا اور انڈا ملتا ہے جبکہ مکہ میں یہ سات ریال میں ملتا ہے ، ہوٹل کے مالکان نے ایک طرف ہر چیز کی قیمت لکھی ہوتی ہیں لیکن مکہ میں چائے کی قیمت نہیں لکھتے ، یہاں پر ہوٹل کے کھانے والوں کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ جیسے سب لوگ عمرہ کرنے نہیں بلکہ یہاں پر پانچے کھانے کیلئے آئے ہوئے ہیں.
اتنی رش کے باوجود بھی کہیں پرکوئی ہلڑ بازی نہیں ، کہیں پر کوئی گندگی نہیں ، ہوٹل کے میز پر کھانے یا ناشتے کیلئے بیٹھ کر میز پر سب سے پہلے چیز پلاسٹک بچھائی جاتی ہیں اور پھر اشیاءسرو کی جاتی ہیں ، نئے گاہکوں کے آنے کے بعد نیا پلاسٹک ڈالا جاتاہے اور آرڈر دیا جاتا ہے.پانچ ریال کے پانچ چھوٹے چھوٹے مالٹے ، تین سیٹ یا پھر تین کیلے ملتے ہیں ، کچھ راقم کی طرح کے لوگ جو بچت کے چکر میں ہوتے ہیں ، جنرل سٹور سے تین ریال میں صبح کے ناشتے میں لبان کا پیکٹ لیتے ہیں جو نمکین لسی ہوتی ہیں ، جسے پینے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ یہ واقعی لسی ہے ، کوئی ملاوٹ نہیں.
|