مسجد عائشہ سے عمرہ اور بھارتی عمرہ زائرین سے دوستی
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
مسرت اللہ جان
مکہ میں ہوٹل کے کمرے میں رات گزارنے کے بعد جس وقت تہجد کیلئے جانے لگا تھا تو سڑک کو سائیڈ پر کاٹا گیا تھا اور اس میں بڑ ی بڑی لائنیں ڈالی جارہی تھی ، پتہ نہیں کس چیز کی تھی ، حیرانگی ہوئی کہ یہاں پر بھی یہ سلسلہ ہے ، لیکن کنسٹرکشن کے اس عمل میں ترتیب اس طرح تھی کہ انہوں نے پلاسٹک کے بنے سٹاپنگ لائن کھڑے کئے تھے جسے کوئی پھلانگ نہیں سکتاجبکہ جس روڈ کی کھدائی کی جاری تھی اسے مشینوں کے ذریعے کاٹا جارہا تھا اور اس کا ملبہ فوری طورپر کھڑے لوڈر میں ڈالا جارہا تھا ، رات کو آتے وقت یہ صورتحال نہیں تھی ، رات کے تین بجے مسجد حرم جاتے ہوئے عجیب سا لگا کہ یہ کونسی جگہ ہے رات کویہ نہیں تھا لیکن اب سڑک کو کاٹا جارہا ہے جبکہ کٹنگ والی سڑک میں بڑی بڑی تین پائپ ڈالی جارہی تھی ،کام کرنے والے تمام مزدورں نے سیفٹی کیپ پہنے ہوئے تھے ، یقینا یہ انٹرنیٹ کی لائن تھی کیونکہ اس جگہ پرایک انٹرنیٹ کاکھمبا کھڑاتھا ، نماز پڑھ کر تقریبا ساڑھے سات بجے کر اس روڈ پر آکر پتہ چلا کہ نہ صرف کٹنگ مکمل ہو چکی ہیں بلکہ دوسرے جگہ پر بنے کنسٹرکشن میٹریل کو لا کراس میں مشینوں کے ذریعے اسے بند بھی کیا گیا تھا پتہ نہیں چل رہا تھا کہ یہاں پر کٹنگ ہوئی ہے ، ہاں اسے لوگوں کی طرف سے نقصان کے ڈر سے اس کے دونوں اطراف میں سٹاپنگ وال کھڑے کئے گئے تھے.
ہوٹل میں جاتے ہوئے کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی ، تعارف پر پتہ چلا کر یہ گروپ کے شکل میں آئے ہوئے ہیں اور مدھیہ پردیش کے علاقے اندور سے تعلق رکھتے ہیں ان میں دو تو مسجد کے پیش امام تھے ، گپ شپ ہوئی تو کہنے لگے کہ ہم تو مسجد عائشہ جارہے ہیںوہاں سے عمرہ کرنے آئیں گے ، اندور کی بہت ساری کہانیاںبچپن میں جاسوسی ڈائجسٹ ، سیارہ اور ستارہ ڈائجسٹ میں پڑی تھی ذہن میں وہی باتیں تھی ، بس ان کے ساتھ احرام باندھ کر روڈ کی طرف نکل آئے اور دس دس ریال دیکر مسجد عائشہ کی طرف روانہ ہوئے ، سعودی عرب میں پٹرول کی قیمت کم و بیش ڈھائی ریال فی لیٹر ہے اس لئے کرایہ اتنا نہیں ، ہمارے لئے اس لئے مہنگا کہ ہماری روپے کی قدر نہیں ،مسجد عائشہ کی طرف جاتے ہوئے پاک بھارت کے حوالے سے موازنہ ہوئے ، ان میں ایک بزرگ تھے ، لاڈلے صاحب ان کا نا م تھا ، حکمرانوں کے حوالے سے بات چیت ہوئی ، تو اس نے ایک دفعہ یہ کہا کہ پاکستانی بھائی ، برا مت ماننا میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جس طرح کے تم لوگ ہو ، اس طرح تم لوگوں پر حکمران بھی آتے ہیں ، اوراس کی بات سن کر غصہ بھی آیا لیکن یہ حقیقت تھی اس لئے خاموش رہا ، کیونکہ جیسی روح ویسے فرشتوں والا حساب ہوتا ہے ، مہنگائی کے حوالے سے بات ہوئی تو ایک صاحب جن کا اندور میں کپڑے کا کارخانہ تھا بجلی کی فی یونٹ قیمت پوچھی تو بتایا کہ وہاں سات روپے فی یونٹ ہے ، جب میں نے بتایا کہ ہمارے ہاں کیا رٹ ہے تو اسے حیرانگی ہوئی ، اندور کے پیش امام کے بقول ہم وہاں بیس فیصد ہے لیکن ہم اسی فیصد اکثریت پر غالب ہے ان کے بقول ہمارے گھروں میں لوڈشیڈنگ کا کوئی تصور نہیں اور ہمارے گھروں کا بل دو سو روپے آتا ہے.اس کے باتیں سن کر جب میں نے بتایا کہ بھائی ہمارے ہاںچھ ہزار اوردس ہزار سے کم بجلی بل اور گیس بل کا تصور نہیں تو وہ حیران ہورہے تھے کہ تم لوگ کھاتے کیا ہو ، تم لوگ تو ٹیکسوں میں سب کچھ دے رہے ہوں بھارت کے اس گروپ کے دو پیش امام تھے جنہوں نے بتایا کہ ان کے علاقے کے لوگوں نے چندہ کرکے انہیں عمرے پر بھیج دیا ہے ، ایک نوجوان اور ایک بزرگ جس کیساتھ اس کی اہلیہ بھی تھی اس کی بات سن کر افسوس بھی ہوا کہ ہمارے ہاں پیش امام کو کس نظروں سے دیکھا جاتا ہے ، حالانکہ یہی پیش امام ہمارے مساجد میں نماز بھی پڑھاتے ہیں، بچوں کو قرآن بھی پڑھاتے ہیں ، اور انہیں دینے کیلئے ہمارے ہاں پیسے نہیں ہوتے ، دس سے پندرہ ہزار روپے دیکر پیش اماموں پر احسان کیا جاتا ہے ، حالانکہ مہنگائی کا رونا رونے والے عام لوگ ہیں لاکھوں کی تنخواہیں لینے والے ملازمین ہیں لیکن کبھی کسی پیش امام نے احتجاج نہیں کیا ، اپنے پچاس سالہ زندگی میں کبھی پیش امام کو ذاتی زندگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا ، اگر بات بھی کی تو مسجد کے بجلی بلوں کے حوالے سے بات کی ، مسجد عائشہ تک جاتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ ہم پاکستان کے مسلمان کیسے مسلمان ہیں اور بھارت کے مسلمان کیسے ہیں ، یہ وہ سوال ہیں جو ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کرکے خود سے کرنے کی ضرورت ہے.
مسجد عائشہ جا کر احرام باندھا ، دو رکعت پڑھے ، یہ سعودی حکومت کی سب سے بڑی مہربانی ہے کہ جہاںجہاں پر میقات ہے یعنی احرام باندھا جاتا ہے وہاں پر واش روم کا بہترین انتظام کیاگیا ہے ، مساجد کے اندر جا کر ایک نئی خوشبو محسوس کی جاسکتی ہیں مسجد عائشہ کے حوالے سے روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہاں سے عمرہ کیا تھا اسی بناءپر نزدیک ترین جگہ ہونے کی وجہ سے بیشتر عمرہ زائرین یہاں سے احرام باندھ کر مسجد حرم کی طرف عمرہ کرنے آتے ہیں ، مسجد عائشہ سے آتے ہوئے مکہ کے ان پہاڑوںکودیکھ کر عجیب سا لگا کہ چودہ سو سال پہلے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کن مشکلات سے دین اسلام کی خاطر سفر کئے ، کیسے کیسے حالات سے گزرے ، بس ہم سوچ ہی سکتے ہیں ، سعودی حکومت کی جانب سے ٹریفک کے بہترین انتظامات دیکھنے کو ملے ، سعودی عرب میں بائیں طرف ڈرائیونگ سیٹ ہوتی ہیں ہمارے ہاں پاکستان میں دائیں ہاتھ پر ڈرائیونگ سیٹ ہوتی ہیں اس لئے یہاں پر ہمارے پاکستان کے برعکس ٹریفک چلتی ہیں ، ایک پولیس کی گاڑی کہیں کہیں پر ملتی ہیں جنہیں دیکھ کر ڈرائیونگ کرن والے اہلکار ایسے ڈر جاتے ہیں جیسے ملک الموت کو دیکھ لیا ، حالانکہ کم و بیش بیس دنوں میں راقم نے یہ نہیں دیکھا کہ کسی پولیس والے نے گاڑی کو روکا ہو ، یا پھر کوئی بد تمیزی کی ، یا کہیں پر سخت لہجہ استعمال کیا ، جس طرح ہمارے ہاں سڑک کنارے ہر ایک کو کھڑا کرکے صبح و شام بغیر کسی جواز کے ڈھائی سو س پانچ سو روپے جرمانے کرتے ہیں لگتا یہی ہے کہ پاکستانی ٹریف اہلکاروں کو جرمانوں کیلئے بھرتی کیا گیا ہے.گاڑیوں کی لمبی قطار لگی ہوگی لیکن پاکستانی ڈرائیوروں کی طرح کوئی ایک لائن سے دوسرے لائن میں جا کر تیز رفتاری کا مظاہرہ کہیں پر نہیں دیکھا.، خیر مسجد عائشہ سے ایک عمرہ کیا ، وہی حرم ، وہی خوشبو ، وہاں اللہ کا جلال ، وہی خوبصوت حرم اور وہی لبیک ، الھم لبیکی صدائیں بلند ہورہی تھی-
|