اونچی دکان پھیکا پکوان کے مصداق ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے کھیلوں کے مقابلے جاری


وزیر ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ خیبرپختونخواہ سے مودبانہ گزار ش ہے کہ انہوں نے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے کھیلوں کے مقابلوں کی افتتاحی تقریب تو بڑی کردی یعنی وزیراعلی کو مدعو کردیا اور تقریب بہت بڑی کردی لیکن اصل صورتحال کھیلوں کی کالجز میں کیسی ہے اس کا اندازہ اس بات سے کرلیںکہ لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں ہونیوالے ہاکی کے مقابلوں میں ڈیپارٹمنٹ نے ٹیکنیکل آفیشل کو کٹس تک نہیں دی اسی وجہ سے پشاور میں ہاکی کے میدان میں واسکٹ پہنے شخص بطور ریفری فرائض انجام دیتا رہا۔ جس طرح چاول کے پورے دیگ کا ایک چمچ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پوری دیگ کس طرح پکی ہے اسی طرح صرف ہاکی کے ان مقابلوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے کس طرح کے کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کیا۔کچھ صاحبان فرماتے ہیں کہ ہاکی میں ٹیکنیکل ماہرین کو مفت میں خدمات انجام دیناچاہئیے ، اور یہ کھیلوںکے ایسوسی ایشن کا کام ہے ، ویسے سوال یہ ہے کہ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے اس معاملے میں کتنی مدد لی ، کسی ایسوسی ایشن سے رابطہ کیا اور کیا یہ فرائض انجام دینے والوں کے پاس پیٹ نہیں ہوتا ، ان کی ضروریات نہیں ہوتی ، ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے افسران تو ہر جگہ ٹی اے ڈی اے لیتے ہیں اور کیا انہوں نے یہ مقابلے خدا واسطے منعقد کروائے ہیں کہ ٹیکنیکل آفیشل سے اللہ کے واسطے ڈیوٹی دینے کا مطالبہ کررہے ہیں ،

محترم وزیر ہائیر ایجوکیشن یہ بھی پتہ کریں کہ کون کونسے گرلز کالجز میں کتنے کھیلوں کے ڈائریکٹر موجود ہیں اور وہ کون کونسے کھیل کرچکی ہیں، بنیادی طور پر بعض کھیلوں کے شعبے سے وابستہ ہی نہیں۔ دوسری طرف بعض ایسے سپورٹس ڈائریکٹر بھرتی ہوئی ہیں جو کالجز میں سالانہ داخلوں کے مقابلوں میں کھیلوں کے شعبے میں داخلے تو کرلیتی ہیں لیکن پھر کھلاڑیوں کو نکالنا اور انہیں ٹریننگ دینا ان کی بس کی بات نہیں۔ یہ بھی پتہ کرلیں کہ کتنے کھلاڑی اس وقت مختلف کھیلوں میں کھیل رہی ہیں، ایک ہی کھلاڑی کئی کئی کھیلوں میں کھیل رہی ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فٹ بال کے کھیل میں کھیلنے والی خواتین کھلاڑیوں کو فوری طور پر ہاکی گراونڈ آنے کی ہدایت کی گئی، وہاں سے میچ ختم ہونے کے بعد ان میں بعض خواتین کھلاڑیوں کو باسکٹ بال کے کورٹ میں جانے کی ہدایت کی گئی۔ یہ صوبائی دارالحکومت میں واقع گرلز کالجز کاحال ہے۔ان حالات میں کس طرح ایک ہی کھلاڑی کون کونسے کھیل میں کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی ہیں ، یعنی ماسٹر آف آل ماسٹر آف نن..والا معاملہ بنتاہے

اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو پھر گرلز کالجز میں کھیلوں کے کھلاڑیوں کے شناختی کارڈ، فارم ب منگوالیں اور خود دیکھ لیں کہ کس طرح پورے ڈیپارٹمنٹ کو اور عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ ایک ہی کھلاڑی کئی کئی کھیلوں میں کھیل رہی ہیں۔ جب اس بارے میں ایک خاتون ڈائریکٹر سے پتہ کیا گیا تو فرمانے لگی اگر یہ بھی گھر بیٹھ گئی تو پھر کیا ہوگا؟

سوال یہ ہے کہ گریڈ اٹھارہ میں تعینات ان ڈائریکٹر سپورٹس کا بنیادی کام کیا ہے؟ اور لاکھوں کی تنخواہیں یہ کس مد میں لے رہی ہیں؟ کم و بیش یہی صورتحال مرد کالجز کی بھی ہے۔ وزیر ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کھیلوں کے فکسچر منگوالیں اور دیکھ لیں کہ کتنے کالجز ہیں اور اس میں کتنی ٹیموں نے حصہ لیا اور ایک کھلاڑی نے کتنے کھیلوں میں حصہ لیا، اور ایک ایک کھیل کے مقابلے کاغذات میں کتنے دن چلے اور حقیقت میں ایک دن میں کوارٹر فائنل ، سیمی فائنل اور فائنل تک کتنی ٹیمیں پہنچی ، چار ٹیموں میں کم و بیش یہی صورتحال بنتی ہے ، یہ الگ بات کہ چودہ ٹیمیں کاغذات میں دکھائی جاتی ہیں ، کیونکہ کئی دن کے مقابلوں کے انعقاد پر زیادہ خرچہ نکلتا ہے.اگر وزیر ہائیر ایجوکیشن اس کو حقیقی معنوں میںدیکھنا چاہتے ہیں تو صرف یہ پتہ کرلیں کہ ہاکی کے مقابلے کتنے دن چلے.پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائیگا۔

وزیر ہائیر ایجوکیشن خیبرپختونخواہ یہ بھی پتہ کرلیں کہ کون کونسے ہائیر ایجوکیشن سے وابستہ سپورٹس ڈائریکٹر کھیلوں کے ایسوسی ایشن کے کرتا دھرتا ہیں اور کب سے ہیں اور ٹریننگ کے نام پر انہوں نے کہاں کہاں پر پروگرام کئے، اور فنڈز لئے، کبھی ان کے ریفریشر کورس کے نام پر اور کبھی اپنے مخصوص کھیلوں کے تربیتی کیمپ کے نام پر، لیکن صورتحال ویسی کی ویسی ہے۔ متعدد کھیل ایسے ہیں جن کے کرتا دھرتا کھیلوں کے ایسوسی ایشنز میں اہم عہدوں پر تعینات ہیں اور ہم خرما ہم ثواب والا کام کررہے ہیں۔

یہ بھی دیکھیں کہ ان مقابلوں میں جنوبی اضلاع سے آنے والی ایک ٹیم کئی گھنٹے تاخیر کا شکار رہی، مسلسل انتظار کے باوجود جب ان سے لوکیشن مانگی گئی تو جواب آیا کہ نیٹ کام نہیں کررہا، حالانکہ واٹس ایپ پر رابطے تو ہورہے تھے لیکن لوکیشن شیئر نہیں ہورہی۔ کھیلوں سے وابستہ بعض افراد نے سب کو اندھا، کانا اور بے وقوف سمجھ رکھا ہے۔

ویسے کھیلوں کے ان مقابلوں کے انعقاد کے بعد ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہم نے اتنے کھیلوں کے کھلاڑی پیدا کئے۔ کیا بی ایس کے کھلاڑیوں کو کھیلوں کے میدان سے صرف اتنی دلچسپی ہوسکتی ہے کہ کچھ وقت کیلئے کھیل لیں، وہ کھیل کے میدان کو پورا وقت نہیں دے سکتے۔ البتہ یہی ہوسکتا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ یہی اعلان کردے کہ ہم نے کھیلوں کے نام پر اچھے میلے منعقد کروائے ہیں۔

محترم وزیر ہائیر ایجوکیشن خیبرپختونخواہ!

امید ہے کہ آپ کو یہ باتیں بری لگی ہوں گی کیونکہ سچ بہت کڑوا ہوتا ہے اور کڑوی چیزیں طاقت والی کرسی پر موجود بہت کم لوگوں کو برداشت ہوتی ہیں کیونکہ اس سے منہ کا ذائقہ خراب ہوتا ہے۔ دوسرے ان کے آگے پیچھے پھرنے والے چند بیورو کریٹ، "یو آر آل وے رائٹ" سر کہنے والے لوگ صرف اپنے مطلب براری کیلئے کام کرتے ہیں۔ اس لئے وہ صاحب کو خوش کرنے والی باتیں ہی بتاتے ہیں. ویسے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ خیبرپختونخواہ کو کھیلوں کے میلے کے انعقاد پر ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ یہ بھی بتادیں گے کہ کھیلوں کے ان مقابلوں کے انعقاد پر انہوں نے کتنی رقم عوامی ٹیکسوں کی لگائی۔

شکریہ

#SportsTransparency #StudentRights #EducationKP #FairSports #KPKColleges #WomenInSports #AthleteRights #EducationSystem #Accountability #HigherEducationKP #SportsBudget #PublicFunds #SportsFunding #EducationTransparency #PublicAccountability #KPKSportsIssues #StudentAthleteRights #FairPlay
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 664 Articles with 539145 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More