خیبرپختونخواہ گیمز افتتاحی تقریب ، کھلاڑیوں کی ویڈیوز اور کنٹریکٹر کی غفلت
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبرپختونخوا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیراہتمام خیبرپختونخوا گیمز کے مقابلوں کا آغاز ہوگیا ، اس سلسلے میں افتتاحی تقریب پشاورسپورٹس کمپلیکس میںمنعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی صوبے کے چیف ایگزیکٹو علی امین گنڈا پور اور صوبائی وزیر کھیل سید فخر جہاں تھے ، تقریب میں مختلف کالجز ، سکولوں سے تعلق رکھنے والے طلباﺅ طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور لمبے عرصے بعدپشاور سپورٹس کمپلیکس میں ببڑی تعداد میں کھیلوں کے مقابلوں میں عام لوگوںنے شرکت کی اس.تقریب میںکابینہ اراکین ، پارلیمنٹیرینز بھی شریک ہوئے - خیبر پختونخواہ گیمز میں مردوں کے سترہ جبکہ خواتین کے بارہ کھیلوں کے مختلف مقابلوں کااہتمام کیا گیا ہے جس میں مردوں کے مقابلے پشاور جبکہ خواتین کے مقابلے چارسدہ میں منعقد کروائے جارہے ہیں.تقریب کے آغاز میں خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے انٹرنیشنل کھلاڑی محمد سمیع،خالد نور،تامین گنڈاپور،مراد علی،عبدالوہاب اور امجد خان نے گیمز کی مشعل روشن کی اس موقع پر سات مختلف ریجن کی مرد و خواتین کھلاڑیوں کی ٹیموں نے اپنے آفیشل کے ہمراہ مارچ پاسٹ میںحصہ لیا -
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اس میگا ایونٹ میں ڈی آئی خان ، بنوں ، کوہاٹ ، مردان ، سوات ، ایبٹ آباد سمیت پشاور ریجن کی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں ۔ مرد کھلاڑی اتھلیٹکس، فٹبال، ہاکی، والی بال، باسکٹ بال، کراٹے، تائیکوانڈو، باکسنگ، اسکواش، ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن، جمناسٹکس،تھروبال،جوڈو،ووشو اورہینڈ بال جبکہ خواتین کھلاڑی اتھلیٹکس، ہاکی، کرکٹ، والی بال، باسکٹ بال، کراٹے، تائیکوانڈو، جوڈو، نیٹ بال، اسکواش، ٹیبل ٹینس اور بیڈمنٹن میں حصہ لیں گی،مجموعی طور2500 مردوخواتین کھلاڑی ان گیمز میں مد مقابل ہوں گے، جن میں 1043 خواتین کھلاڑی بھی شامل ہیں.
پشاور سپورٹس کمپلیکس کے فٹ بال گراﺅنڈ میں منعقدہونیوالی اس تقریب سے بطور مہمان خصوصی وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے والے کھلاڑیوں کو ماہانہ 25 ہزار وظیفہ دیاجائیگا.انہوں نے کھیل اور کھلاڑیوں کوسہولیات فراہم کرنے کا اعلان کیا تاکہ وہ صوبائی اور قومی سطح پر قوم کا نام روشن کرسکیں علی امین گنڈا پور کے مطابق کھیل میں ہار جیت ہوتی ہیں کھلاڑیوں کو سپورٹس مین شپ کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئیے اس موقع پر صوبائی وزیر کھیل سید فخرجہاں نے بھی خطاب کیا اور کھیلوں کے کامیاب انعقاد پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ کے ذمہ داران سمیت تمام افراد کا شکریہ ادا کیا ، انہوں نے کھیلوں کے مزید مقابلوں کاانعقاد کا بھی اعلان کیا اور کہاکہ ڈیرہ جات کے بعد پولو کے مقابلے بھی کروائے جائیں گے. صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ ان مقابلوں کے کامیاب انعقاد کیلئے گذشتہ دو ہفتوں سے انتظامات کو حتمی شکل دینے میں مصروف عمل تھا جو خوش آئند اقدام ہے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے نچلی عملے سے لیکر ڈائریکٹر جنرل سپورٹس ، سیکرٹری سپورٹس سمیت وزیر کھیل نے متعدد بار انتظامات کے حوالے سے خود گراﺅنڈ کا دورہ کیا اور کھیلوں کی افتتاحی تقریب سمیت دیگر انتظامات کاجائزہ لیااسی بناءپر کچھ تعمیراتی کام جلدی میں بھی کروائے گئے، تاکہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں لمبے عرصے بعد منعقد کی جانیوالی خیبرپختونخواہ گیمز کا کامیاب انعقاد ہوسکے.یہ مقابلے اب پشاور، چارسدہ اور کوہاٹ میںکروائے جائیںگے - ہاکی کے مقابلے ایک دن قبل شروع کئے گئے تھے کیونکہ ان مقابلوںمیں حصہ لینے والی ٹیمیں چیف آف آرمی سٹاف ہاکی ٹورنامنٹ کے فائنل تک پہنچی ہیں جو اگلے دو دن میںلاہور میںشروع ہونگے اسی بناءپر ان کے مقابلے ایک روز شروع کروائے گئے خواتین کھیلوںکے مقابلے چارسدہ میں آج شروع ہونگے.کچھ خواتین کے مقابلے پشاور بورڈ کے گراﺅنڈز پر افتتاح کے بعد شروع ہوگئی ہیں.
افتتاحی تقریب کو کامیاب بنانے اور عام لوگوں کو گراﺅنڈ سے دور رکھنے کیلئے اپنی حد تک انتظامات بہترین کئے تھے اور وی آئی پی لاﺅنج سمیت سپورٹس پویلین میں عام لوگوں کی آمد دوسرے دروازوں پر کردی تھی کیونکہ ان کا خیال تھاکہ عام لوگ گراﺅنڈز میں آکر کھیلوںکے مقابلوں اور مظاہروں کے دوران مداخلت کرتے ہیں حالانکہ انڈر 22 کے ان مقابلوں میں سب سے زیادہ مداخلت مختلف ریجن سے تعلق رکھنے کھلاڑیوں نے خود کردی اور اچھے بھلے ایونٹ کا بیڑ ہ غرق کرنے کی پوری کوشش کی ، افتتاح کے موقع پرخواتین کھلاڑیوں نے ڈسپلن کا مظاہرہ کیا لیکن مرد کھلاڑیوں میں کچھ ریجن کے ریجنل سپورٹس آفیسرز اپنے دستے کو کنٹرول کرنے میں مکمل طورپرناکام رہے ، ان میں صف اول کوہاٹ کا دستہ تھا جن میں شامل کھلاڑی موبائل ہاتھ میں لیکر نہ صرف اپنے جگہ چھوڑ گئے بلکہ دھکم پیل اور تصاویر او ر ویڈیوز کے چکر میں وزیراعلی کے سامنے گراﺅنڈ میں آگئے تھے ، جیسے انہوں نے کبھی مارشل آرٹ کا مظاہرہ نہیںدیکھا یا پھر خٹک ڈانس ، بیٹنی ڈانس سمیت دیگر مقابلے ان کے سامنے نہیں ہوئے ، ٹک ٹاک کے شوقین کوہاٹ ریجن کے دستے نے اس معاملے میں آغاز کیا اورپھر مردان اور پشاور ریجن کے کھلاڑیوں سمیت دائیں ہاتھ پر کھڑے بیشتر مرد کھلاڑیوں کی ٹیمیں اپنی مقررہ جگہیںچھوڑ کر گلوکاروں کی ویڈیوز بنانے میں مصروف عمل ہوگئی ، بنیادی طور پر اس طرح کے کھیلوں کا مقصد نہ صرف نئے ٹیلنٹ کو موقع دینا بلکہ ان کھلاڑیوں میں ڈسپلن پیدا کرنا بھی ہوتا ہے لیکن ویڈیو بنانے کے معاملے میں پہل کرنے والے کوہاٹ ریجن کے کھلاڑیوں کے آغاز کے دوسرے ریجن کے کھلاڑیوں کو بھی آگے آنے کاموقع دیا اور یوںاچھی خاصی تقریب جس کیلئے دو ہفتے سے کوششیں کی جارہی تھی میں عجیب سی دھکم پیل ہوئی ، جس کیلئے کم از کم سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کو اہلکاروں سے باز پرس کرنی چاہئیے.
افتتاحی تقریب میں طلباءکو لایا گیا تھا جنہوں نے تقریب کے آغاز اور وزیراعلی کے خطاب کے دوران قیدی نمبر 804 کے نعرے بھی لگائے ، سیاسی معاملات اپنی جگہ پر لیکن طلباءسے ایسی تقریب میں اس طرح کے نعرے لگوانا صرف سیاسی مقاصد کے تحت ہوسکتا ہے ، طلباءاپنی تعلیمی سرگرمیوں سمیت اگر غیر نصابی سرگرمیوں پر توجہ دیں تو یہ ان کے مستقبل کیلئے بھی بہتر ہے کسی بھی مخصوص سیاسی پارٹی کے ورکر کے طور پر متعارف ہونا طلباءکیلئے بھی باعث افسوس ہے ، انتظامیہ کو اس پر بھی توجہ دینا چاہئیے ، کیونکہ پھر کھیل کے میدان بھی سیاسی میدان بن جائینگے ، قائد اعظم گیمز میں ہونیوالی خیبرپختونخواہ کے دستے میں شامل خاتون کی جانب سے اس طرح کی نعرے بازی بھی ہوئی ، جس پر اور کچھ نہیں ہوا لیکن وفاق کی سطح پر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو نشانہ بنایا گیا ، اس طرح ان طلباءکو لانے والے افراد کے خلاف بھی پتہ کرنا چاہئیے کہ کہیں ان نعروں کی آڑ میں سیاسی مقصد حاصل تونہیں کئے جارہے ، کیونکہ مسلسل اور ایک مخصوص سائیڈ سے اس طرح کے نعروں کاآنا صرف چند لوگوں کا کام ہوسکتا ہے.کھیل کے میدانوںکو اگر کھیل تک ہی محدودرکھا جائے تو بہتر ہوگا.
یٹنی ڈانس کے موقع پر متعلقہ گروپ کی جانب سے کی جانیوالی فائرنگ اورآتش بازی کے ایک ساتھ شروع ہونے کے واقعات نے جہاں پر شائقین کو کنفیوژ کیا وہیں پر کبوتروں اور غبارے ہوا میں اڑانے والے اہلکار بھی کنفیوزنظر آئے ، تبھی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے دیگراہلکاروں کو گراﺅنڈ میں جا کر غبارے خود چھوڑنے پڑے.صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑیوںکو شوز بھی مختلف اقسام کی دی گئی جس میں خواتین کھلاڑیوں کو سفید جبکہ مرد کھلاڑیوں کو الگ کلرکی دی گئی تھی ،سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اندرونی ذرائع کے مطابق کنٹریکٹر آخری دنوںمیںچار کلر کے شوز لیکرآیاتھا تاہم ڈی جی سپورٹس کی جانب سے کنٹریکٹر کی کھنچائی کے بعد دوکلر کے شوز لائے گئے ، سوال یہ ہے کہ یہ کیسا کنٹریکٹر ہے جوڈھائی ہزار شوز ایک ہی کلر ہی نہیں لاسکتا ، او رآخری دن میں لانے کی کیا تک بنتی ہے کیونکہ کھلاڑیوں کے سائز کامسئلہ بنا ، اسی بناءپر بعض کھلاڑی مارچ پاسٹ میں اپنے شوز کے ڈبے اٹھائے نظر آئے، آخری رات ہونیوالی شوز کی ڈسٹری بیوشن میں تین بجے تک ڈیوٹی انجام دینے والے کلاس فور سے پروموشن حاصل کرنے والے اہلکار تو نظر آئے، لیکن جو سٹور کے انچارج ہیں انہوں نے اس معاملے میںدلچسپی تک نہیں لی، پورے چھ ماہ میں ایک ہی بڑے ایونٹ میں اس طر ح کی مس مینجمنٹ مسائل پیدا کرتی ہیں کیونکہ باقی سال تو معمول کے معالات چلتے ہیں ، اسی طرح کھلاڑیوں کو د ی جانیوالی کیپ میں بھی اچھی خاصے مسائل سامنے آئے ، کنٹریکٹر رات گئے کھلاڑیوں کی ٹوپیاں لیکر آیا جبکہ کچھ افتتاح والی صبح لیکر آیا اسی بناءپر بعض کھلاڑیوں کو ان گیمز کی کیپ تک نہیں ملی ، اس معاملے پر سیکرٹری سپورٹس ، ڈی جی سپورٹس سمیت تمام ذمہ داروں کوتوجہ دینے کی ضرورت ہے.
کھیلوں کے یہ مقابلے اگلے تین روز بھی جاری رہینگے ، نئے کھلاڑی سامنے آئینگے لیکن افتتاح کے بعد پیش آنیوالے چند واقعات نے خیبرپختونخواہ گیمز کے حوالے سے جہاں کھیلوں کے مختلف ایسوسی ایشنزکے خدشات سامنے آرہے ہیں وہیں پر بعض جگہوں پر آر ایس اوز کی جانب سے ایسوسی ایشن کیساتھ جانبداری کی شکایات بھی آئی ہیں ، جس کی شکایت ڈی جی سپورٹس تک پہنچادی گئی ہیں اور اس معاملے پر کم از کم متعلقہ افراد کے خلاف کاروائی ہونی چاہئیے ، کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کے مطابق بعض کھیلوں کو مکمل طورپر نظر انداز کیا گیا ہے حالانکہ ان کی قومی سطح اور بین الاقوامی سطح پر کارکردگی سب کے سامنے ہیں ، اس طرح سلیکشن کے معاملے میں بعض جگہوں ریجنل سپورٹس آفیسرزاگر مضبوط نظر آئے تو انہوں نے اپنے مخصوص بندے ٹی اے ڈے کو دینے کیلئے ایسوسی ایشن کے نمائندوں کیساتھ زیادتی کی ، جبکہ بعض مقامات سمیت پشاور میں ایسوسی ایشنز کے لوگ مضبوط نظر آئے تو انہوں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو تارے دکھا دئیے ہیں ، خیر یہ چوہے اور بلی والا کھیل تو چلتا رہے گا لیکن کھیلوں کے فروغ کیلئے ایسوسی ایشنز اور صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو ایک پیج پر ہونا ہوگا تبھی نہ صرف آنیوالے نیشنل گیمز جو مئی میں کراچی میں ہونے کیلئے کیلئے تیاری ہوسکے گی بلکہ ان مقابلوں میں صوبے کی پوزیشن بھی بہتر ہوگی.
آخر میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو پشاور کے واحدسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر نو پر توجہ دینا چاہئیے ، جس میں دو سال سے زائد عرصے سے کنٹریکٹر دو کروڑ روپے سے زائد کی رقم لیکر خاموش ہے اور اتھلیٹکس گراﺅنڈز میںٹارٹن ٹریک بھی نہیں ڈالا جارہا ، جس کی وجہ سے یہ مقابلے کوہاٹ منتقل کئے گئے ہیںکوہاٹ بھی اس صوبے کا حصہ ہے لیکن ٹارٹن ٹریک اور فٹ بال گراﺅنڈز دوسال سے زائد عرصہ گزرنے باوجود مکمل نہ ہونا بھی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی غفلت ہے، جس کی وجہ سے ان د وکھیلوںکے کھلاڑی سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں آنیوالے نیشنل گیمز میں صوبے کے کھلاڑیوں کی بہتر پوزیشن لانے کی خاطر اس طرف توجہ ضروریہے. #kikxnow #sportsnews #mojo #mojosports #kpkgames #kpgames #digitalcreator #musarratullahjan
|