کیا اسلام صرف ہم نے ہی فالو کرنا ہے؟
یہ سوال اکثر ذہن میں آتا ہے کہ اگر باقی قومیں، طبقے یا ممالک اسلام پر
عمل نہیں کر رہے تو ہم ہی کیوں کریں؟ کیا ہمیں اکیلے ہی دینداری کا بوجھ
اٹھانا ہے؟
اسلام کا نقطہ نظر
اسلام میں کسی کی کوتاہی کو بہانہ بنا کر اپنی ذمہ داری چھوڑ دینا درست
نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرمایا:
> "لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ"
(کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔) (الأنعام 164)
یعنی ہر شخص اپنے اعمال ک خود جوابدہ ہے، نہ کہ دوسروں کے اعمال کا۔ اگر
کوئی دوسرا اسلام پر عمل نہیں کر رہا تو یہ ہمارے لیے عذر نہیں بن سکتا کہ
ہم بھی دین چھوڑ دیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "لوگوں کی برائی دیکھ کر تم خود اچھائی نہ چھوڑو، بلکہ خود اچھائی پر
قائم رہو۔" (ترمذی)
عمل کی بنیاد اجتماعی غلطیوں پر نہیں ہونی چاہیے
اگر کوئی دوسرا جھوٹ بول رہا ہے، دھوکہ دے رہا ہے، حرام کما رہا ہے، یا
ناانصافی کر رہا ہے، تو یہ ہمارے لیے جواز نہیں بن سکتا کہ ہم بھی ایسا
کریں۔
مثال کے طور پر:
اگر کوئی چرس، ہیروئن یا گٹکا بیچ رہا ہے، تو کیا ہم بھی بیچیں؟
اگر سب سگنل توڑ رہے ہیں، تو کیا ہم بھی توڑیں؟
اگر دفتر میں سب رشوت لے رہے ہیں، تو کیا ہمیں بھی لینی چاہیے؟
اگر لوگ جھوٹ بول کر ملاوٹ یا فراڈ کر رہے ہیں، تو کیا ہمیں بھی کرنا
چاہیے؟
نہیں! بلکہ جو حق پر ہو، وہ اپنا کردار درست رکھے۔ اللہ نے ہر انسان کو اس
کے اپنے عمل کا جوابدہ بنایا ہے، نہ کہ دوسروں کے عمل کا۔
مایوسی نہیں، اصلاح کی ضرورت ہے
یہ سوچ کہ "اسلام کیا صرف ہم نے فالو کرنا ہے؟" دراصل مایوسی کی علامت ہے۔
اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ:
✔ ہم اسلام کو بہترین انداز میں کیسے فالو کر سکتے ہیں؟
✔ ہم اپنے عمل سے دوسروں کو کیسے ترغیب دے سکتے ہیں؟
✔ کیا ہم صرف دوسروں پر تنقید کر رہے ہیں، یا خود بھی اسلام پر مکمل عمل کر
رہے ہیں؟
اگر ہر شخص اپنی ذمہ داری قبول کرے، اپنی اصلاح کرے، اور دوسروں کو نرمی و
حکمت سے دعوت دے، تو یہی سب سے مؤثر طریقہ ہے۔
معاشرتی زوال کی بنیادی وجوہات
ہم دیکھتے ہیں کہ 1985 کے بعد کی نسل میں حرام و حلال کی تمیز کمزور پڑ
گئی۔ دولت کی چمک دمک نے لوگوں کو اندھا کر دیا، اور معیارِ عزت اچھے کردار
کے بجائے مال و دولت بن گیا۔ آج کرپٹ لوگ ہمارے رول ماڈل / آئیڈیل بن چکے
ہیں، جس کا نتیجہ ہم سب بھگت رہے ہیں۔
افسوسناک حقیقت:
ہماری اپنی برادری کے ایک شخص نے کہا: "ہمارے قوم کے بچے نے منشیات بیچنے
کا ٹھیکہ لیا ہے، اس کے ساتھ ہماری قوم کے 15-16 لوگ کام کر رہے ہیں، اسکے
ملازم ہیں, مگر اپنے ہی لوگ لوگ حسد میں اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اگر ہم
نے انھیں نہیں روکا تو یہ ٹھیکہ کسی اور قوم کے فرد کے پاس چلا جائے گا اور
ہمارے لوگ بےروزگار ہو جائیں گے۔"
کیا یہ رویہ کسی غیرت مند قوم کو زیب دیتا ہے؟
کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو یہی سبق دینا چاہتے ہیں کہ روزگار کے لیے
حرام بھی جائز ہو سکتا ہے؟
ذمہ داری اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے
اگر ہم واقعی اپنی قوم، معاشرے اور ملک کی بھلائی چاہتے ہیں، تو ہمیں
تبدیلی کا آغاز اپنے گھروں سے کرنا ہوگا۔ بچوں اور نوجوانوں کی کردار سازی
پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی اور حرام و حلال کی تمیز
دوبارہ زندہ کرنی ہوگی۔
یاد رکھیں!
اسلام فرد سے شروع ہو کر پورے معاشرے میں پھیلتا ہے۔ اچھائی اور برائی بھی
ایک فرد سے معاشرے میں سرایت کرتی ہے۔ اگر ہم اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈال
کر بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں، تو یہ خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔
لہٰذا، اپنی اصلاح کریں، معاشرے کو بہتر بنانے میں کردار ادا کریں، اور
دوسروں کو بھی نرمی اور حکمت کے ساتھ راہِ حق کی طرف بلائیں۔ یہی حقیقی
کامیابی کا راستہ ہے۔
|