موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور پاکستان کی زراعت کو اس
کے اثرات سے بچانے کیلئے ہمیں زرعی شعبے میں ریسرچ کے کلچر کو پروان چڑھانا
ہوگا۔ زرعی شعبے کا گروتھ ریٹ بڑھانے کیلئے کسانوں کی سرپرستی اور سہولت
کاری ہی مسئلے کا واحد حل ہے۔ یہ پہلا سال ہے کہ نومبر سے لیکر اب تک کوئی
بارش نہیں ہوئی۔ بادانی علاقوں میں بھی کوئی بارش نہیں جس سے گندم کی
پیداوار میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔ ہماری فوڈ سیکورٹی کی سب سے بڑی فصل
بھی گندم ہی ہے۔ گزشتہ دو سالوں سے ہماری ہماری حکومت نے موسمیاتی تبدیلی
کے حوالے سے کچھ خاص کام نہیں کیا۔ پچھلے سال گندم کی دستیابی کا یہ عالم
رہا کہ آٹے کی لائنوں میں لگی چوبیس خواتین جاں بحق ہو گئیں لیکن ہم نے پھر
بھی حالات سے سبق نہیں سیکھا۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے ایسے نہیں نمٹا جاتا
جیسے ہماری حکومت کر رہی ہے۔ انڈیا میں بھی یہی موسم ہے لیکن ان کی فصلوں
کی پیداوار میں خاطرخواہ کمی نہیں آئی جبکہ ہمارے ہاں گندم، کپاس، تل، آم،
کینو سمیت کئی فصلوں کی پیداوار چالیس سے ساٹھ فیصد تک کم ہوئی ہے۔ کسان
اتحاد کے صدر خالد کھوکھر کا کہنا ہے کہ کپاس کی فصل اس سال پچھلے سال کی
نسبت چالیس فیصد کم ہوئی ہے یہ صرف پچھلے سال کا موازنہ ہے اگر اس کا
موازنہ ماضی سے کیا جائے تو یہ ایک تہائی رہ گئی ہے۔ اس ساری کمی کی وجہ
ہمارے ملک میں زرعی شعبے میں ریسرچ کے کلچر کا نہ ہونا ہے۔ہمارا ایگریکلچرل
کا ریسرچ کا بجٹ ہے زراعت کی جی ڈی پی کا 0.18 ہے۔ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے۔
برازیل کیوں زراعت میں آگے نکل چکا ہے کیونکہ اس کا زراعت میں ریسرچ کا بجٹ
ہے 1.75 جو کہ ہم سے کئی سو گنا زیادہ ہے۔ ہمارے لئے اس وقت سب سے بڑا
مسئلہ بیج اور موسمیاتی تبدیلی ہے۔ دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں جو اس گرم
موسم میں کپاس کاشت کرے۔ ہمارے ملک میں زوننگ نہیں کی گئی۔ کبھی ہوتا تھا
کہ پنجاب کے صرف گیارہ اضلاع میں چاول کی فصل کاشت کی جاتی تھی اب پورے
پنجاب میں چاول کاشت کیا جاتا ہے۔ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں نواب آف کالا
باغ کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا تھا۔ اس کمیشن نے سفارش کج تھی کہ پتوکی
سے رحیم یار خان تک کوئی شوگر ملز نہ لگے یہ ایریا کپاس کی فصل کے لئے یے۔
لیکن ہم ساری شوگر ملز وہاں لے کے چلے گئے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے
کے لئے ہمیں اس شعبے میں ریسرچ کی صورت میں سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ جس
زراعت کے شعبے سے ہم بیس سے پچیس ہزار ارب کی پیدوار کے رہے ہیں اس میں
ہماری سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے نہ ہم ریسرچ کے شعبے میں پیسہ لگاتے
ہیں نہ مارکیٹنگ پر کچھ خرچ کرتے ہیں۔ پھر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے
لئے کھادوں کو متوازن استعمال بہت ضروری یے۔ ہمارا کسان یہ توازن قائم نہیں
رکھ سکتا کیونکہ ہمارے کسان کے پاس کھاد خریدنے کے یکساں مواقع موجود نہیں
۔ اسی خطے میں اگر دیکھا جائے تو بھارت میں کسان کو یوریا کھاد کی بوری
پاکستانی روپوں میں ایک ہزار کا دستیاب ہے جبکہ پاکستان میں یہی بوری ساڑھے
چار ہزار روپے میں ملتی ہے۔ انڈین کاشتکار کو ڈی اے پی کی بوری پاکستانی
روپوں میں چار ہزار کی ملتی ہے جبکہ پاکستانی کاشتکار کو یہی بوری بارہ
ہزار روپے میں ملتی ہے۔ بھارتی کسان کو بجلی مفت ملتی ہے ادھر کاشتکار بجلی
کے بھاری بلوں کی وجہ سے پریشان ہے۔ یہ جو پی ڈی ایم اے نے ایڈوائزری جاری
کی ہے کہ ہم خشک سالی کا شکار ہو سکتے ہیں ہم تو پہلے ہی اس کا شکار ہیں۔
گرمی کی وجہ سے ہماری زمین کا آرگینک میٹر زیرو ہو چکا یے۔ ہمارے ہاں کپاس
ہوتی ہے بنگلہ دیش میں کپاس نہیں ہوتی لیکن دلچسپ امر یہ یے کہ ہماری
ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ایکسپورٹ سترہ بلین ڈالر ہے جبکہ بنگلہ دیش کی یہی
ایکسپورٹ اڑتالیس بلین ڈالر کی یے۔ یعنی ہم انڈسٹری اور آئی ٹی میں بہت
پیچھے ییں ہمارے پاس صرف زراعت یے۔
پچھلے سال زراعت کے شعبے کا گروتھ ریٹ چھ فیصد تھا اس سال اسی سیکٹر کو
بٹھا دیا گیا۔ ہم کسان کو سپورٹ پرائس نہیں دیتے ہمارے کسان نے 2024 میں جو
گندم کاشت کی اور رواں سال فصل کاٹے گا اس کو اس کی فصل کی قیمت کا پتہ
نہیں۔ لیکن دنیا میں اب فیوچر مارکیٹنگ ہو رہی ہے مثلآ بھارت میں کسان کو
نہ صرف 2025 کی فصل کی قیمت بتا دی گئی ہے بلکہ 2026 میں آنے والی گندم کی
فصل کی قیمت بھی بتا دی گئی ہے۔ بھارتی کسان کو پتہ ہوتا ہے کہ اس کی فصل
پر اس کے کیا اخراجات آئیں گے اور اس کو قیمت کیا ملے گی۔ موسمیاتی
تبدیلیوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا پانی بھی بچانا چاہئے کیونکہ ہم
چاول اور شوگر کی فصلوں کی ایکسپورٹ کے ساتھ یہ کہنا چاہئے کہ ہم پانی
ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔ ہمیں کم پانی کے ساتھ کاشت ہونے والی فصلیں کاشت کرنا
چاہئیں۔ ہمیں مکئی کی فصل کاشت کرنے کی بجائے اگیتی کپاس کاشت کرنی چاہئے
جو پانی کم مانگتی ہے اور اس کی قیمت بھی بین الاقوامی مارکیٹ میں بہتر مل
رہی ہے۔ اگست میں کھیت کو خالی کر کے کوئی اور فصل بھی کاشت کی جاسکتی ہے۔
|