پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے جس طرح کی سلیکشن کے
ساتھ پاکستان کی چیمپئنز ٹرافی میں اُتاری ہے اس پر بہت کچھ لکھا اور کہا
جاچکا ہے.
پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی کے اراکین اگر آسٹریلیا اور جنوبی
افریقہ کو ان ہی کے مُلک میں شکست سے دوچار کرنے کو ایک مضبوط اور مستند
ٹیم کی صورت میں دیکھنے کو اس چیمپینز ٹرافی میں سلیکشن کو ان جیت پر ہی
ٹیم کا سلیکشن کیا ہے تو یہ سلیکشن بورڈ کی کم فہمی یا کہلو یا آج کل کی
ایک روزہ کرکٹ کی سمجھ سی آرہی ہونے کی دلیل ثبت ہوتی ہے کیونکہ آسٹریلیا
کرکٹ بورڈ نے اپنی بی ٹیم میدان میں اُتاری تھی اور اس ہی طرح جنوبی افریقہ
نے بھی کئی لڑکے اپنی ٹیم میں آزمائے تھے اس کو بھی بی ٹیم ہی سمجھو پھر اس
ہی پر بات نہیں رکتی جبکہ ٹیسٹ سیریز میں جنوبی افریقہ کے خلاف دونوں ٹیسٹ
میں شکست اور ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنی ہی سرزمیں پر شکست نے ٹیم کی
کارگردگی پر کئی سوالوں کو جنم دیا تھا جس پر کسی بھی بورڈ سلیکشن نے کوئی
مثبت بیان بھی دینے سے قاصر رہے.
اس وقت جب ٹورنامنٹ کا افتتاح ہوگیا ہے اور جو ٹیم منتخب کی ہے اس میں چند
کھلاڑیوں کی شمولیت پر بہت تنقید کا سامنا میدان میں بھی اور پرنٹ و
الیکٹرونک میڈیا پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑھ رہ ہے۔
جبکہ اس وقت ٹیم میں بیشتر تر وہی کھلاڑی ہیں جو جنوبی افریقہ کے خلاف
سیریز کھیلے تھے لیکن فہیم اشرف اور خوشدل شاہ کی سلیکشن نے ہاکستان کے
کرکٹ کے شیدائیوں کو حیران و پریشان کیا ہوا ہے.
کیونکہ فہیم اشرف جس نے آخری بار پاکستان کی طرف سے 2023 ستمبر میں ایشیا
کپ میں انڈیاکے خلاف میچ کھیلا تھا جس میں ان کی بولنگ کے وراٹ کوہلی اور
کے ایل راہل نے تارے دیکھا دیے تھے جبکہ ان کی بیٹینگ میں وہ ڈبل فگر بھی
کراس نہ کرپائے تھے. جس کے بعد انہیں ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا۔ اور ڈومیسٹک
سیزن میں بھی ہاتھ پیر نہ مار پائے تھے.
ایک روزہ کرکٹ میں ان کی کارکردگی اتنی اچھی نہ رہی اور نہ ہی بولنگ میں کہ
34 میچوں میں 10 رنز کی اوسط سے 224 رنز اور محض 26 وکٹیں ان کی بدترین
کارگردگی کا واضع منہہ بولتا ثبوت واضع سامنے عیاں ہے اور اسہی طرح خوشدل
شاہ جو کہ 19 میچوں میں محض 199 رنز بناسکے ہیں پاکستان کی طرف سے انہوں نے
2022 میں آخری دفعہ نیدرلینڈز کے خلاف میچ کھیلا تھا اور جب سے ٹیم سے باہر
ہیں۔ نہ انہوں نے اپنے ڈومیسٹک کرکٹ میں کوئی ایسی کارکردگی دکھائی ہو جو
وہ اپنے بورڈ سلیکشن کے اراکین کو متاثر کرسکیں. سلیکشن ممبرز کی رائے میں
کے وہ ہارڈ ہٹر ہیں ان کے متعلق یہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن وہ ہمیشہ سے
انٹرنیشنل ایک روزہ میچوں میں ہمیشہ ناکام و نامراد ہی لوٹے ہیں.
پاکستان ٹیم سلیکشن نیں میں صرف ایک مستند اوپنر فخر زمان ہیں جو چھ ماہ کے
بعد ٹیم میں واپس آئے تھے اگرچہ ان کی فارم بھی خاص نہیں ہے لیکن دوسرے
اوپنرز کے مسلسل ناکام ہونے سے انہیں واپسی کا موقع مل گیا تھا مگر ہائے ری
قسمت کے وہ ٹورنامنٹ کے ابتدائی دنوں میں ہی ان فٹ ہوکر پویلین کے ہوگے اور
ٹورنامنٹ سے بھی ان کی چھٹی ہوگئی.
سلیکشن کیمٹی اراکین نے ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی کے باوجود امام
الحق کو منتخب نہیں کیا گیا اور نہ ہی شان مسعود جو آس لگائے ہوئے تھے۔
اتنے اہم ایونٹ میں صرف ایک برائے نام اوپنر ہے اس سے سلیکشن اراکین کے
جانچنے کے معیار کا کیا اندازہ لگایں کہ ان کو پورے سسٹم میں کوئی دوسرا
مستند اوپنر ہی نہیں ملا۔
نظر یہی آتا ہے کہ ٹیم انتظامیہ سہ فریق سیریز میں کوئی میک شفٹ اوپنر کو
آزمائے گی اور اگر وہ کامیاب ہوگیا تو شاید مسئلہ حل ہوجائے لیکن فی الحال
اوپننگ ایک گھمبیر مسئلہ بنا ہوا ہے۔
دیکھا جائے جس طرح کی سب سے زیادہ زیادتی عامر جمال کے ساتھ ہوئی ہے اس پر
کوئی سلیکشن کمیٹی اراکین نے چپ سادھ رکھی ہے عامر جمال کی کارکردگی ایک
سال سے بہت نمایاں نظر آرہی ہے بولنگ میں ان کی رفتار 140 تک ہے اور بیٹنگ
میں وہ جارحانہ اندازسے کھیل سکتے ہیں لیکن نامعلوم وجوہات پر انہیں آخری
لمحوں میں کیوں ڈراپ کردیا گیا۔ شاید فہیم اشرف کو ٹیم میں لانے میں سلیکشن
کا ہاتھ تو بالکل نظر نہیں آرہا ہے وہ کون ہے وہ خود فہیم اشرف بھی نہ جان
پائے۔
اگر دیکھا جائے تو ٹیم انتیظامیہ و پاکستانی عوام محمد رضوان اور بابر اعظم
پر بہت زیادہ کچھ زیادہ بھروسہ کر رہی ہے جو ان کی خام خیالی نظر آرہی ہے.
کیونک بابر کی فارم اتنی حالیہ مہینوں نیں اچھی نہیں ہے لیکن بابر اب بھی
تکنیکی طور پر سب سے اچھے بلے باز ہیں اگر وہ اپنے آپ کو سمجھایں۔
دو تین سال سے پاکستان کو مڈل آرڈر کا مسئلہ ابھی بھی حل نہ ہو پایا ہے اور
مڈل آدر کا مسئلہ لگتا یہی ہے کہ درپیش رہے گا کیونکہ کامران غلام اور
سلمان علی آغا بے اہنی کارگردگی اپنی بیٹینگ میں دیکھادی تو ہھر وکٹری
اسٹینڈ ہر کچھ جانے کی بات بن جائے
پاکستان کی بیٹنگ بنیادی طور پر بابر اعظم، کامران غلام، محمد رضوان، سلمان
علی آغا اور سعود شکیل پر مشتمل ہوگی جبکہ فہیم اشرف کا کرداد فنشر کا
ہوگا۔
شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ اور حارث رؤف فاسٹ بولر ہوں گے جبکہ ابرار احمد
واحد اسپنر ہوں گے۔
شاید یہاں پاکستان کو ایک اور اسپنر کی ضرورت ہے ۔ ڈیڈ پچوں پر اسپنرز کا
کردار بہت اہم ہوگا۔
اگر دیکھا جائے تو گذشتہ چیمپیئنز ٹرافی سے اس کا موازنہ کریں تو اس ٹیم
میں محمد حفیظ جیسا آل راؤنڈر اور شاداب خان جیسا ماہر رسٹ اسپنر موجود
تھا۔ ان دونوں نے پاکستان کو قیمتی وکٹین دلائیں تھیں۔ جبکہ بیٹنگ میں فخر
زمان اور بابر بہت اچھی فارم میں تھے۔ سب سے بڑھ کر اس وقت کراچی کا ٹائیگر
سرفراز ٹیم کی قیادت کررہا تھا۔ جس کو کرکٹ کی سمجھ و بوجھ بہت تھی۔
رضوان کو سرفراز سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے تھا.
پاکستان کا پہلا میچ نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست ہر اختتام پزیر ہوا اب
بنگلہ دیش کے ساتھ راولپنڈی میں بھی آسان ہو لیکن دبئی میں انڈیا کے ساتھ
بہت اہم ہو گا۔
اگر ہر دفعہ اُس ہی روایتی طور پر میچ ہوا تو پھر نتیجہ انڈیا کے حق میں
ہوسکتا ہے اس لیے پاکستان کا سب سے اہم میچ نیوزی لینڈ کے ساتھ جو تھا وہ
یہ میچ پاکستان نہ جیت سکا یہی بات کہیں سیمی فائنل سے پہلے ہی ختم نہ
ہوجائے ۔
پاکستان کو کیویز کو قابو کرنے کے لیے جو موقع نظر نہیں آیا اس وقت دنیا کا
سب سے بہترین اسپنر نیوزی لینڈ کا مچل سارٹنر مخالف کپتان ہوگا۔
اگر اس کا داؤ چل گیا تو یہ جال مخالف ٹیموں کے لیے کہیں عذاب بن نہ جائے ۔
اس وقت بیشتر مُبصرین کی رائے یہی نظر آرہی ہے کہ نیوزی لینڈ اس چیمپیئنز
ٹرافی کے ہارٹ فیوریٹ میں شامل ہے اور رکی پونٹنگ، سنیل گواسکر اور رمیز
راجہ اسے پہلے ہی سیمی فائنل میں دیکھ رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو پاکستان بھی فیوریٹ میں شامل ہوسکتا ہے مگر پاکستانی کرکٹ
ٹیم اپنی غیر مستقل مزاجی کے باعث یہ کبھی امریکہ سے ہار جاتی ہے تو کبھی
آسٹریلیا کو ہرا دیتی ہے. اگر اس ہی طرح کی اس کی کارگردگی رہی تو پھر یہ
وکٹری اسٹینڈ سے قریب ہوکر بھی دور ہی نظر آرہی ہے.
|