خیبرپختونخواہ گیمز ، ڈائریکٹریٹ کو کچھ تحفظات کیساتھ خراج تحسین
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام خیبرپختونخواہ گیمز کے مقابلے چارسدہ ، پشاور اور کوہاٹ کے مختلف مقامات پر منعقد ہوئے اور خوش اسلوبی سے اختتام پذیر ہوئے ، کم و بیش ڈھائی ہزار کے قریب کھلاڑیوں نے جن کا تعلق سات مختلف ڈویژن سے تھا جس میں ایک ہزار کے قریب خواتین کھلاڑی شامل تھی ، ان سب سے مختلف کھیلوں میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا ان کھیلوں میں اپنی مہارت دکھانے کے بعد نہ صرف کامیابی حاصل کرلی ، بلکہ صوبائی حکومت کی جانب سے مختلف کھیلوں کے ٹاپ پوزیشن ہولڈرز کیلئے ایک لاکھ جبکہ رنر اپ ٹیموں کیلئے پچاس ہزار روپے کی نقد رقم بھی دید گئی اسی طرح ان کھلاڑیوں کا بھی ان گیمز سے انتخاب ہوگیا جنہیں مئی میں کراچی میں ہونیوالے نیشنل گیمز کیلئے تربیت بھی دی جائیگی - ان کھیلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کو کم وبیش ڈھائیماہ آنیوالے نیشنل گیمز کی تیاریوں کیلئے مل جائیں گے جو کھیلوںکے ایسوسی ایشنز کیلئے بہترین ہے او ر اسی طرح صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو بھی آنیوالے نیشنل گیمز کیلئے تیاریوں کا موقع مل سکے گا ،خواہ وہ تربیت کے حوالے سے ہوں یا پھر مالی معاملات سمیت کوچنگ کے حوالے ہوں ، اسی طرح ان مقابلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کیلئے پچیس ہزار روپے کے ماہانہ سکالرشپ کا اعلان بھی بڑا اقدام ہے. جس پر صوبائی حکومت ، کھیلوں کی وزارت اور صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ مبارکباد کی مستحق ہیں -
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کم وبیش ایک ماہ سے زائد عرصہ سے اس مقابلوں کے انعقاد کیلئے کوشاں تھی ، ڈویژن کی سطح پر کھلاڑیوں کی سلیکشن سے لیکر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سمیت ، کوہاٹ ، انٹر بورڈ اور چارسدہ میں کھیلوں کے انتظامات کو حتمی شکل دینے سمیت کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے بھی آرگنائزنگ کمیٹی نے اپنی سطح پر بھرپور کاوشیں کی اس عمل میں صوبائی وزیر کھیل ، سیکرٹری سپورٹس ، ڈائریکٹر جنرل سپورٹس و ان کھیلوں کے کامیاب انعقاد کے پیچھے کام کرنے والے ڈائریکٹریٹ کے تمام ذمہ داران بھی کھیلوںکے ان مقابلوں کے انعقاد پر خراج تحسین کے لائق ہیں .کھیلوں کے ان مقابلوںکے انعقاد کے دوران کچھ ایسی چیزیں سامنے آئی جو انہی صفحات کے ذریعے قبل ازیں بھی پیش کی گئی اور اس کا بنیادی مقصدکسی کی کردار کشی یا بدنامی نہیںبلکہ اصلاح ہے تاکہ مستقبل میں ہونیوالے ان مقابلوں کو جن کا بنیادی مقصد کھیلوں کافروغ اور کھلاڑیوں کی بہتری ہے کیلئے مزیدبہتر کاوشیں کرنا ہے جس میں نہ صرف صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ ،ایسوسی ایشنز ، کھلاڑیوں سمیت کھیلوں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہیںکہ وہ ان چیزوں کو بلا کسی کے لحاظ ، مروت اور مفادکے سامنے لائے تاکہ اس پر کام ہوسکے اور آئندہ ان غلط چیزوں کاتکرار نہ ہو.
بنیادی طور پر یہ ان مقابلوں کی افتتاحی تقریب سمیت کچھ معاملات تھرڈ پارٹی یعنی کنٹریکٹرکے ذریعے کروائے گئے تھے جس میں اس مرتبہ بعض ایسے ایشوز سامنے آئے جس کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے فروری میں ہونیوالے ان مقابلو ں کے مردوں کھلاڑیوںکیلئے پانی پینے کیلئے کہیں پر کولر دیکھنے کونہیں ملے ، اسی وجہ سے کھلاڑیوں کو مشکلات کا سامنا رہا موسم اتنا گرم نہیں تھا لیکن پانی ایک بنیادی چیز ہے جس کیلئے اقدامات اٹھانا کنٹریکٹر کی ذمہ داری تھی ، یہ صورتحال باسکٹ بال سمیت ہاکی کے گراﺅنڈز اور بیڈمنٹن کے کھیلوں کے میدان میں دیکھنے کو ملی ، اسی طرح ان مقامات پر ایک بڑا بینرز کھیلوں کے حوالے سے لگایا گیا تھا جبکہ صرف کیش انعامات کے بینرز تھے ، چوتھے بینرز جو صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں لگائے گئے تھے دیکھنے کو نہیں ملے ، یہی صورتحال بعض مقامات پر کرسیوں کے ساتھ میز نہ ہونے کی شکایات کی گئی ، طارق ودود بیڈمنٹن ہال میں کھیلوں کے مقابلوں کے دوران پھٹے پرانے نیٹ پر مقابلوں کا اہتمام کیا گیا ، ایمپائرز کیلئے مخصوص کرسیاںنہیں تھی اور شادی یعنی کراکری والی کرسیوں سے کام چلایا گیا ، جوکہ ان مقابلوں کے شایان شان نہیں تھا.
کھیلوں کے ان مقابلوںبعض ایسے ججز و ایمپائرز دیکھنے کو ملے جو اپنا نام انگریزی زبان میں نہیں لکھ سکتے ، تجربہ اپنی جگہ پر لیکن ایسے لوگوں کے انتخاب میں ذاتی تعلقات اور مفادات کو نظر انداز کرناچاہئیے کیونکہ کھلاڑیوں کی دل شکنی ان کے مستقبل کو خراب کرسکتی ہیں ، بہت کم لوگوں کو کرسیوں کا نشہ خراب نہیں کرتا ، طاقت اور کرسی کا نشہ بیشتر افراد کو خراب کرجاتا ہے اس وجہ سے وہ ایسے فیصلے کر جاتے ہیں جو بعض میں مسائل پیدا کردیتے ہیں کچھ کھیلوں کے حوالے سے ایسی شکایات آئی ، پشاورسپورٹس کمپلیکس میں تھرو بال کے فائنل میں بنوں کی ٹیم نے جانبداری کا الزام لگایا اور اپنا کھیل پشاور کو دے دیا ،کیونکہ ان کے مطابق وہ سات کھلاڑیوں سے کھیل رہے تھے لیکن ان کے مد مقابل کھلاڑی گیارہ تھے ، جن میں وہ آفیشل کو بھی شامل کررہے تھے ، ریجنل سپورٹس آفیسرز سمیت ڈی ایس او بنوں نے حالات کوبہتر انداز میں اختتام تک پہنچایا ، کھلاڑیوں کو اپمپائرنگ کے حوالے سے شکایات تھی ، یہی صورتحال باکسنگ میں بھی دیکھنے کو ملی ، کچھ کھلاڑی اس میں ایسوسی ایشنز کو اور کچھ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ ان مقابلوں میں بنیادی کردار ایسوسی ایشنز کا رہا ہے اس وجہ سے زیادہ ذمہ داری ایسوسی ایشنز کی ہے .جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی نہ ہو.اس طرح بعض جگہوںپر کھلاڑیوں کے انتخاب سمیت ، کھیلوں کے ان مقابلوں میں کھلاڑیوں کی بینرز سے متعلق تصاویر پر بھی اعتراض تھا جسے مستقبل میںختم کرنے کی ضرورت ہے.
افتتاحی تقریب والے دن ہی مانیٹرنگ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ، جس میں چیئرمین اور ایک سابق ڈی ایس او جو پاکستان بیڈمنٹن ٹیم کے کوچ بھی رہے ہیں کے علاوہ دیگر تین ممبران کو کسی بھی چیز کا پتہ نہیں تھا ، عام حالات میںجلدی کاکام شیطان کا ہوتا ہے والامحاورہ یہاں پر فٹ بیٹھتا ہے ، مانیٹرنگ کمیٹی میں ایسے ممبران ر کھے گئے جن کا تجربہ نہیں ، ویسے عام حالات میں وہ اپنے شعبوں کے ماہر ہوسکتے ہیں لیکن آسان زبان میں یہ بات اس طرح بھی کی جاسکتی ہیں کہ کوئی بیٹا اپنے باپ سے پوچھ سکتا ہے کہ تم کیا کررہے ہو ، یہ حق باپ کا ہوتا ہے اور وہ بیٹے سے پوچھ بھی سکتا ہے ، اب ایک ڈیلی ویج ملازم جو بنیادی طورپرلائف گارڈ ہو و ہ کس طرح گریڈ اٹھارہ یا بیس کے افسران سے پوچھ سکتا ہے ، اسی طرح گریڈ پندرہ کے اہلکار کس طرح یہ کام کرسکتے ہیں ، بہت سارے لوگوں کو یہ باتیں بری بھی لگیں گی لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس مانیٹرنگ کمیٹی کا بنیادی مقصد صرف نوازنا ہی تھا ، اوراگر یہ سچ نہیں تو پھر سوائے چیئرمین اور ایک سابق ڈی ایس او کے دیگر تین ممبران کوانگریزی زبان کا اخبار دیاجائے یا پھر انہیں کہا جائے کہ وہ تین صفحات پر مشتمل رپورٹ کسی بھی شعبے کے حوالے سے لکھ دیں اورسب کے سامنے لکھ دیں تو پھر بات بنتی ہے ، تعلیم یافتہ نہیں تعلیم یاختہ تو یہاں بہت سارے ہیں لیکن کالج سطح سرٹیفیکیٹ کس کی مدد سے لوگوں نے حاصل کئے، اورکون لوگ کس کی جگہ پر بیٹھ کر امتحان دیکر پاس ہوئے ، یہ باتیں بہت ساری چیزیں اشکارا کرتی ہیں اس لئے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس سمیت ذمہ داران کو مانیٹرنگ کمیٹی بھی اس لیول کی بنانی چاہئیے جو بلا لحاظ اور بلا خاطرکام بھی کرسکے او ر لکھ بھی سکے ، ورنہ ایسے مانیٹرنگ کمیٹیاںقبل ازیں بھی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بہت ساری بنی ہیں . جوکچھ کرتی نہیں -
ان مقابلوں کے انعقاد میں جہاں بعض جگہوں پر ایسوسی ایشنز فعال نظر آئی وہیں پرکچھ آر ایس اوز بھی بہترین انداز میں کام کرتے ہوئے دیکھنے کو ملے ، افتتاحی تقریب میں کھلاڑیوں کی جانب سے ویڈیو بنانے کا آغاز کوہاٹ کی جانب سے ہوا جس کے بعد مردان ، بنوں اور پھر پشاور کے کھلاڑی بھی اس عمل میں سامنے آئے ، جو کہ ایک قابل افسوس امر ہے ، اسی طرح بغیر کسی ریجنل سپورٹس آفیسرز کا نام لئے ایک اہم واقعے کی نشاندہی انہی صفحات کے ذریعے کرنا چاہوں گا ، جس میں ایک آر ایس او نے ووشو ٹیم کے مینجر کو اس وجہ سے ٹیم سے نکال دیا کہ بقول اس کے وہ اس کے دفتر سلام کرنے نہیں آئے تھے حالانکہ ووشو کے اس مینجر کے کھلاڑی نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ، تین چاردن گراﺅنڈز میں گزارنے کے باوجوداسے ڈی اے نہیں ملا کیونکہ متعلقہ ریجنل سپورٹس آفیسرز نے اپنے دفتر کے ایک ملازم کو نامزد کیا تھا حالانکہ کاغذات میں ووشو کے متعلقہ مینجرز کے نام پر فنڈز جاری ہوا ، اسی طرح بعض کمپلیکسز کے کلاس فور ملازمین کو یہ کہہ کر پشاور بلوایا گیاتھا کہ ڈی جی کا حکم ہے کہ فوری طور پر پشاور پہنچ جائے ورنہ پھر سب کو فارغ کیا جائیگا کلاس فور ملازمین کی بڑی تعداد ڈر کے مارے اپنے جیب سے رقم خرچ کرکے آئے ، جبکہ ان کے نام پر ٹرانسپورٹ کی رقم کون لے گا یہ ایک الگ کہانی ہے جس کا وقت آنے پر سب کو پتہ چل جائیگا
اس طرح ایبٹ آباد کی آٹھ رکنی کھلاڑیوں کی ٹیم جو ووشو سے وابستہ تھی کی ڈی اے کی رقم ان کے کوچ لیکر گئے ، ان کھلاڑیوں میں ایک کھلاڑی کے پاس کھیلنے کیلئے کٹس تک نہیں تھاجبکہ انہیں کھانے کا موقع بھی اس طرح نہیں دیا گیا ، بقول ان کھلاڑیوں کے ان کے پاس کھیلوں کاسامان بھی نہیں تھا اسی وجہ سے انہیںکھیلنے بھی نہیں دیا گیا ، جبکہ کرایہ بھی انہیں ملا ، اور وہ اخری روز کرایہ نہ ہونے کے باعث گراﺅنڈز میں نظر آئے حالانکہ انہی کے کوچ انہیں چھوڑ کر چلے گئے تھے جو قابل افسوس اور قابل مذمت اقدام ہے، یہ تو شکر ہے کہ ریجنل سپورٹس آفیسرز ایبٹ آباد موقع پر موجود تھے جنہوں نے اپنی جیب سے کھلاڑیوں کو کرایہ کیلئے رقم دی اور کہا کہ وہ واپس جا کر اس معاملے کو دیکھیں گے لیکن ان کی بات بھی صحیح تھی کہ کھلاڑیوں نے قبل ازیںان سے رابطہ کیوںنہیں کیا اور کس طرح کھلاڑیوںنے رقم انہیںدی حالانکہ ڈائریکٹریٹ کے ذمہ داران کے بقول انہوں نے متعلقہ کھلاڑیوں کو رقم دی تھی اور کوچز نے ان کھلاڑیوں سے یہ رقم لیکر اپنے پاس رکھ دی ، مستقبل میں کھیلنے کے ڈر سے کھلاڑیوں نے بات نہیں کی جس کی وجہ سے نہ صرف ان کے کھیل متاثر ہوا بلکہ اس طرح کا معاملہ بھی سامنے آیا ، ان حالات میں ووشو ایسوسی ایشن کیا کرے گی یہ وہ سوال ہیں جو کرنے کا ہے ،پاکستان کے قومی ترانے کا احترام ہم سب پر فرض ہے ، اختتامی تقریب میں یہ سین کو بھی دیکھنے کو ملا کہ ایک صاحب بیٹھے ہیں جبکہ تمام کھڑے ہیں ، کیمرہ آتے ہی صاحب کھڑے ہوگئے ، یہ چند چیزیں ایسی ہیں جس پر کوئی بھی صحافی اس میں فریق نہ بنے، تعلقات ، دوستی اور رشتہ داریاں اپنی جگہ پر لیکن کھلاڑیوں کو ان کاحق ملناچاہئیے اور اگر نہیں ملتا تو پھر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو اس معاملے میں ایکشن لینے کی ضرورت ہے.
ایک اور اہم بات جس کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کچھ کھیل جو کہ نیشنل سطح پر نہیں کھیلے جاتے ، نہ ہی اس میں پروفیشنل لوگ ہیں بلکہ سرکاری ملازمین پر مشتمل ٹولہ اپنے مفادات کیلئے اس طرح کے کھیلوں میں ملوث ہیں ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئیے اور مستقبل میں ایسے کھیل جو نیشنل گیمز میں بھی ہوں اوران کے کھلاڑی صوبہ خیبرپختونخواہ میں ہوں ان کھیلوں کو شامل کیا جانا چاہئیے تاکہ ان کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی نہ ، لیکن اس کیلئے ہر ایک کو مفادات کا ٹکراﺅ ختم کرنا ہوگا ، یعنی کھیلوں کو شامل کرنا کسی ذات کی مفاد کیلئے نہ ہو ، بلکہ کھیلوں اور کھلاڑیوں کی وسیع تر مفاد میں ہوں .
مستقبل میں ہر طرح کے مقابلوں کے انعقاد میں کھلاڑیوں کیلئے شوز و دیگر چیزوں بشمول کیپ کی بروقت یقینی بنانا بھی ڈائریکٹریٹ کی ذمہ دار ی ہے ، نہ کہ کنٹریکٹر مقابلوں سے ایک روز قبل لیکر آئے اور جہاں ہے جیسے ہیں کی بنیاد پر کھلاڑیو ں کو دینا پڑ جائے ، یہ معاملات بھی مستقبل میں بہتر کرنا چاہئیے ، اگر کنٹریکٹر اس طرح کی سروسز فراہم کرتے ہیں تو پھر ان کا واحد حل اوپن مارکیٹ سے خریداری ہوگی تاکہ کھلاڑیوں کو ملنے والے شوز یکساں ہوں اور معیاری ہوں اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ مارچ پاسٹ میں سب اسے پہن کر آئیں تبھی بہت ساری چیزیں ڈسپلنڈ ہو سکیں گی،.کھیلوں کے صحافی ایسوسی ایشنز اور صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے بیشتر افراد کو ا س وقت اچھے لگتے ہیں جب وہ پروموشن کے نام پر مکھن بازی کرتے ہوں، چاپلوسی اور خوشامد کی فضاءمیں سچ لکھنا اور کسی کے خلاف لکھنا بہت مشکل ہے لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اگر کھلاڑی ہے تو گراﺅنڈز بھی آباد ہے ، ڈیپارٹمنٹ بھی قائم ہے اور لوگوں کا روزگار بھی چل رہا ہے اسی طرح ان چیزوں سے وابستہ صحافی بھی چل رہے ہیں ، ورنہ کھلاڑی نہیںتو پھر کچھ بھی نہیں ،نہ ملازم ، نہ ایسوسی ایشن اور نہ ہی کھیلوں کیلئے لکھنے والے صحافی-
#kikxnow #sports #kpk #kp #pakistan #games #sportsnews #kpgames #2025 #concern #issues
|