چین میں مصنوعی ذہانت کی ترقی کا نیا عروج

اس وقت عالمی سطح پر مصنوعی ذہانت (اے آئی) ایک مقبول ترین موضوع ہے۔ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اچھی ساکھ والے سبھی ممالک کی کوشش ہے کہ اس شعبے میں مزید مہارت حاصل کی جائے اور اسے اپنے عوام کے بہترین مفاد میں استعمال کیا جائے۔ چین کا شمار بھی دنیا کے اُن سرفہرست ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں مصنوعی ذہانت کی ترقی اور اطلاق کو مسلسل فروغ مل رہا ہے اور چینی حکام بھی عہد حاضر کے تیزی سے بدلتے منظرنامے میں اے آئی کو پالیسی سازی سے مزید آگے بڑھانے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔

ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ چین تیزی سے مصنوعی ذہانت کی "سپر مارکیٹ" میں تبدیل ہو رہا ہے، جس میں فرنٹیئر ٹیکنالوجی کا اطلاق اس کی معیشت کے وسیع شعبوں میں شامل ہے۔چینی حکام کی یہ کوشش بھی ہے کہ اے آئی پلس منصوبے کو آگے بڑھایا جائے۔اس ضمن میں مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کے وسیع پیمانے پر اطلاق کی حمایت اور نئی نسل کے ذہین ٹرمینلز اور اسمارٹ مینوفیکچرنگ آلات کو بھرپور طریقے سے تیار کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے، جس میں ذہین مربوط نئی توانائی گاڑیاں، مصنوعی ذہانت سے چلنے والے فون اور کمپیوٹر اور ذہین روبوٹ شامل ہیں۔

جہاں تک چین میں مصنوعی ذہانت کے وسیع اطلاق کا تعلق ہے تومختصر فلموں کے لئے الگورتھم اسکرپٹ جنریشن سے لے کر اعلیٰ درستگی کی حامل زراعت اور روبوٹک مینوفیکچرنگ تک ،صنعتی اور روزمرہ معمولات میں اے آئی ٹیکنالوجی کے انضمام کو آگے بڑھایا جا رہا ہے ۔چینی معاشرے میں اس حقیقت کا بھی بخوبی ادراک ہے کہ مصنوعی ذہانت کا ایک تبدیلی کا دور قریب آ رہا ہے ، جس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کے لیے تیاریاں لازم ہیں۔اس ضمن میں اگر چیدہ چیدہ شعبہ جات پر نگاہ دوڑائی جائے تو اس میں آٹو سیکٹر بھی شامل ہے۔ چینی کارسازوں کے نزدیک مصنوعی ذہانت خود کار ڈرائیونگ، اور یہاں تک کہ بغیر ڈرائیور والی گاڑیوں کی آمد کو تیز کرے گی. دوسرا، آٹوموٹو انڈسٹری روبوٹکس کے ساتھ ضم ہونا شروع ہو چکی ہے، جس سے وسیع امکانات سامنے آ رہے ہیں۔

چین کے لیے یہ امر قابل ذکر ہے کہ2024 میں ، چین کی نئی توانائی گاڑیوں کی پیداوار اور فروخت کا حجم دونوں 12 ملین یونٹس سے تجاوز کر چکے ہیں ،یوں چین نے مسلسل 10 ویں سال دنیا میں صف اول کی پوزیشن برقرار رکھی۔ نئی توانائی گاڑیوں کی موجودہ ترقیاتی صورتحال میں چینی کار ساز پرامید ہیں کہ اے آئی پلس ملک کی آٹوموٹو انڈسٹری کے لیے ایک اہم اسٹریٹجک موقع کے طور پر ابھرے گا، جو بیک وقت لارج لینگوئج ماڈلز، ذہین مربوط برقی گاڑیوں اور اسمارٹ روبوٹکس میں ترقی کی ایک نئی لہر کو آگے بڑھائے گا۔

یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ 2024 تک ، چین میں تقریباً 200 جنریٹیو اے آئی ماڈلز رجسٹرڈ اور سروس کے لئے لانچ کیے جا چکے ہیں ، جن میں 600 ملین سے زیادہ رجسٹرڈ صارفین تھے۔ ملک کی صنعتی روبوٹ تنصیبات اب عالمی مجموعے کا نصف سے زیادہ ہیں ، جبکہ ملک بزرگوں کی دیکھ بھال کرنے والے روبوٹس کے لئے بھی بین الاقوامی سطح پر نمایاں ہے۔

چین میں مصنوعی ذہانت کے مزید فروغ کی بات کی جائے تو صنعت کے مبصرین ڈیپ سیک کی جانب اشارہ کرتے ہیں، جو ایک طاقتور نیا لارج لینگوئج ماڈل ہے اور ملک میں مصنوعی ذہانت کو اپنانے میں تیزی لا سکتا ہے۔ اے آئی ماہرین کے نزدیک ڈیپ سیک نے ثابت کیا ہے کہ کم خرچ کمپیوٹنگ پاور قابل ذکر کامیابیاں حاصل کر سکتی ہے۔یہ امید بھی ظاہر کی گئی ہے کہ اگلے ایک سے دو سالوں میں ،چین میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے فعال طور پر مصنوعی ذہانت کی ایپلی کیشنز کو اپنائیں گے ، اور بڑے کاروباری ادارے اوپن سورس فریم ورک کا استعمال کرتے ہوئے صنعت کے مخصوص ماڈل تیار کریں گے۔یوں ، چین اے آئی پلس کے تناظر میں ایک اہم موڑ کے قریب ہے۔

چین کو اس لحاظ سے بھی ایک منفرد مقام حاصل ہے کہ یہ 1.4 بلین سے زیادہ افراد اور 1.1 بلین انٹرنیٹ صارفین کا گھر ہے ، ملک کے مینوفیکچرنگ سیکٹر نے لگاتار 14 سالوں سے اپنی عالمی برتری برقرار رکھی ہے اور لگاتار دو سالوں تک عالمی ٹاپ 100 ٹیک کلسٹرز کی سب سے زیادہ تعداد کی میزبانی کی ہے۔ چین کے عالمی سطح پر معروف مارکیٹ اسکیل، صنعتی طاقت اور پھلتے پھولتے جدت طرازی کے ماحولیاتی نظام نے پروٹو ٹائپ تیار کرنے اور ٹیکنالوجی کو تیزی سے بڑھانے کی اس کی صلاحیت کو تقویت دی ہے۔تاہم یہ حقیقت بھی مدنظر رکھی جائے کہ چین ایسی ایپلی کیشنز تیار کرتا ہے جو صارفین کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں اور معاشی قدر پیدا کرتی ہیں۔لہذا ، یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ اگلے تین سے پانچ سالوں میں ، چین میں مصنوعی ذہانت کی ترقی کو ایک نیا عروج ملے گا اور چینی مصنوعی ذہانت ایپس نمایاں طور پر ابھریں گی اور دنیا کی بہترین ایپس میں شامل ہوتے ہوئے انسانیت کے مفاد میں تعمیری کردار نبھائیں گی۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1433 Articles with 726410 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More