ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے

یہ تو دنیا پاکستان میں کہاوت ضرب المثل ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ کتنے بھی برصغیر کے سیاستدان، بیروکریٹ، جرنل، جج، شاعر، ادیب ، کھلاڑی یا اداکار وغیرہ مشہور ہوئے انہوں نے اپنی کامیابی میں بیشتر نے اپنی شریک حیات کو اس کامیابی میں اچھے الفاظوں سے انبکو یہی کہا کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور وہ میری ہمسفر میری رازدار شریک حیات ہیں. مگر یہ سلسلہ پاکستان و انڈیا میں نہیں یہ دنیا بھر کہ ملکوں میں بھی چاہے امریکہ ہو یا یورپ یا ایشیاء وغیرہ میں بڑے بڑے مشہور حضرات نے اپنے ہمُسفر کو اپنی کامیابی کا مرہون منت کہا یہی چیز دنیا کے بہترین غیرمُلکی سائینس دان آئن سٹائن کی مشہوری میں بھی ان کی ہمسفر کا ہاتھ تھا مگر آئن اسٹائن نے کبھی عوام کے سامنے اس کا حیزار نہیں کیا
جب بھی آئن سٹائن کی لو سٹوری ، جس کے بارے میں بہت کم لوگوں نے پڑھی ہے۔

ملیوا نامی لڑکی سربیا میں پیدا ہوئی تھی ، اسکے والدین اپنے علاقے کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک تھے۔ ہائی سکول کے بعد ایک مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ مزید تعلیم کے لئے اسے جس ادارے میں داخلہ لینا تھا وہاں صرف لڑکے ہی داخلے کے اہل تھے۔ سو اسکے باپ نے محکمہ تعلیم سے ایک خاص اجازت نامہ نکلوایا جسکے تحت زیورچ میں اسے فزکس کے لیکچر لینے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اسے چیزوں کی گہرائی تک پہنچنے کا شوق تھا۔ اسکے ہم جماعتوں کیمطابق وہ نہایت ذہین اور کم گو لڑکی تھی۔

================
البرٹ آئن سٹائن نامی لڑکا الم جرمنی میں پیدا ہوا ، اسکا باپ ایک صنعتکار جبکہ ماں ایک لینڈ لارڈ کی بیٹی تھی۔ وہ شروع سے متجسس اور باغی تھا۔ ڈسپلن نا ہونے کی وجہ سے اس نے جرمنی میں اپنا ہائی سکول ختم کرنے کی بجاۓ سوئٹزرلینڈ میں ختم کیا۔ البرٹ آئن سٹائن کو تین دیگر طلباء کیساتھ پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ زیورچ کے شعبہ فزکس اور ریاضی میں داخلا ملا۔ وہ یونیورسٹی میں کم لیکچر ہی لیتا تھا اور اپنا زیادہ وقت گھر میں پڑھنے پہ صرف کردیتا تھا۔

================
ملیوا ایک منظم زندگی گزارنے والی ذہین و فطین لڑکی تھی۔ سنہ 1900 میں کلاسز کے اختتام پر جب نتائج آۓ تو ملیوا اور آئن سٹائن کے گریڈ بالترتیب 4.7 اور 4.6 آۓ، ماسواۓ اپلائیڈ فزکس کے جس میں ملیوا کے 5 اور البرٹ کا صرف 1 نمبر آیا۔ ملیوا لیب ورک، تجربات میں نکھر رہی تھی جبکہ آئن سٹائن اسی باغی رویے پہ چل رہا تھا۔

13 دسمبر 1900 کو ان دونوں نے ایک ریسرچ آرٹیکل لکھا۔ لیکن اس پر صرف آئن سٹائن کے ہی دستخط تھے۔ آئن سٹائن کے ہی دستخط کیوں تھے ملیوا کے کیوں نہیں، اس بارے مختلف راۓ ہیں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شائد ملیوا آئن سٹائن کا نام دیکھنا چاہتی تھی اس لئے اٌس نے یہ سب کیا جبکہ کچھ لوگ کچھ اور ہی کہتے ہیں۔

================
1901 میں بھیجے گئے ایک خط کیمطابق پتا چلتا ہے کہ ریلیٹیویٹی کے نظریے میں ملیوا نے آئن سٹائن کا خاطر خواہ ساتھ دیا تھا۔ مگر اسکی قسمت خراب تھی۔ وہ حاملہ ہو چکی تھی اوآئن سٹائن ابھی تک بے روزگار ہی تھا سو وہ واپس اپنے ماں باپ کے پاس چلی آئی۔

بے روزگار البرٹ اس سے شادی پر رضا مند نا تھا۔ سو ملیوا نے اپنا تعلیمی کیرئر جاری رکھنے کے لئے آخری کوشش کی اور ایک خط لکھا مگر پروفیسر ویبر، جس نے آئن سٹائن کو کیرئر میں آگے جانے سے روک رکھا تھا اس نے اسے رد کردیا۔

کچھ ہی عرصے بعد ایک لڑکی پیدا ہوئی مگر اس لڑکی کو کیا ہوا؟ وہ کدھر ہے ابھی تک اس بات کا کسی بھی علم نہیں۔

================
آخرکار 1903 میں ان دونوں نے شادی کرلی۔ اب ملیوا کا باپ فوت ہوچکا تھا۔ البرٹ ایک Patent آفس میں ملازمت کررہا تھا جہاں وہ ہفتے میں چھ دن 8 گھنٹے کام کرتا تھا۔جبکہ ملیوا صرف گھریلو کام ہی کرتی تھی۔ اس دوران آئن سٹائن سپیشل ریلیٹیویٹی کی بنیادوں پہ کام کررہا تھا مگر وہ بیمار ہوگیا۔ سو ملیوا نے اس کے تمام پیپرز بار بار پڑھے اور انکو پروف ریڈ کرکے اشاعت کے لئے بھجوا دیا۔

ملیوا کے بھائی کے مطابق وہ دونوں راتوں کو مٹی کے تیل والے لیمپ کے نیچے بیٹھ کر اکھٹے کام کرتے، لکھتے ، مسائل حل کرتے اور بحث کرتے۔

================
1910 میں البرٹ کا دوسرا بچہ پیدا ہوا اور اسی دوران اسکا اپنی کزن ایلسا کیساتھ معاشقہ بھی چلنا شروع ہوگیا اور یہی معاشقہ انکے درمیان علیحدگی کی وجہ بنا۔

ملیوا طلاق کے لئے ایک شرط پہ راضی ہوگئی کہ متوقع ملنے والے نوبل انعام سے ملنے والی رقم وہ لے گی۔ اس دوران وہ کمپسری کی حالت میں ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہی تھی۔ اور ساری زندگی اسی حالت میں رہی۔1925 میں البرٹ نے اپنے انعام کی رقم اپنے بیٹوں کودینے کی وصیت کردی۔ اس پر ملیوا کو بے حد اعتراض تھا۔

Kristic نامی سورس کیمطابق ملیوا نے اپنے والدین اور اپنے گاڈ پیرنٹس کو یہ لکھا تھا کہ کس طرح اس نےآئن سٹائن کی مدد کی اور البرٹ نے اسکی زندگی کو تباہ کیا اور بعد میں اس خط کو تلف کردیا۔ اسکے بیٹے کیمطابق اسکی ماں کا اسکے والد آئن سٹائن کی سائنٹفک ریسرچ میں ایک اچھا خاصہ حصہ تھا۔

ان دونوں کی حیات کا مطالعہ کرنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ دونوں نے کس طرح ایک ساتھ ریسرچ کی۔ سائنسی تحقیق میں ایکدوسرے کا ساتھ دیا مگر ملیوا جسی لآئق لڑکی عشق کی وجہ سے اپنا مستقبل نا بنا سکی۔ خیر اسکی غلطی تھی۔ لیکن اگر ملیوا نا ہوتی تو آج آئن سٹائن کا نام لینے والا بھی کوئی نا ہوتا کیونکہ ملیوا نے ہی اسکی زندگی کو منظم کیا تھا۔ یہی وہ عورت تھی جس نے باغی آئن سٹائن کو منظم کیا اور فزکس کی تاریخ تک بدل دینے میں ساتھ دیا۔

ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔

 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 456 Articles with 256765 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.