محبت ایک فریب ہے

کیسے ہیں آپ سب۔ آج بیٹھا تو خیال آنے لگا۔ خیال ایسی چیز ہے جو کسی کے قابو میں نہیں ہوتا۔ یہ جب آتا ہے تو آتا ہی چلا جاتا ہے اور انسان سوچتا ہے کہ وہ ایسا کیوں سوچ رہا ہے مگر پھر بھی سوچتا رہتا ہے۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ بیٹھا تو خیال آیا کہ یہ محبت جو ہم کرتے ہیں، اس کی حقیقت کیا ہے؟ یہ ہے بھی یا نہیں؟ اس میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ؟ کیا یہ غلط ہے یا صحیح؟ اگر یہ غلط ہے تو اصل کیا ہے؟ اور نہ جانے کیسے کیسے سوالات خیالات کی صورت میں ابھر رہے تھے اور میں پریشان ہوتا جا رہا تھا۔ میں کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا جواب دوں خود کو؟ پھر جب جواب تلاش کرنا شروع کیا تو سوچا کہ کیوں نہ تحریر کی صورت میں جواب دوں۔

محبت کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ لوگوں کے مطابق ماں باپ بچوں سے محبت کرتے ہیں، حالاں کہ میں اس بات کو درست نہیں سمجھتا۔ میرا ماننا یہ ہے کہ ماں باپ فطرت ہیں۔ فطرت فطرت ہوتی ہے۔ اُس کا محبت سے کوءی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر آپ کی ماں نے آپ کو اپنا دودھ پلایا ہے تو ہرگز محبت معنی نہیں؟ یہ فطرت ہے ہر عورت کی۔ دودھ محبت سے نہیں اترتا فطرتً اترتا ہے۔ اگر آپ کے باپ نے آپ کو کھلایا پلایا اور پڑھایا لکھایا ہے تو یہ اللہ سبحانَہُ وَتَعْلٰ نے اُن کی فطرت میں رکھ دیا ہے اور اُن پر فرض بھی ہے۔ اسی لیے آپ اُن کے احسان مند بھی ہوتے ہیں۔ محبت میں احسان نہیں، فطرت میں احسان ہے۔ اللہ نے ہمیں فطرتً سانس لینے کی سہولت دی ہے، اسی لیے ہم اُس کے اس احسان کا شکر عدا کرتے ہیں۔ شکر ہمیشہ احسان کے بعد ہی ہوتا ہے۔ خونی رشتوں میں آپ محبت کا انصر کم دیکھیں گے بلکہ اُن میں فطرت کا انصر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ محبت کی جاتی ہے اور فطرت خود ہونے کا نام ہے۔ اگر خدا نہ خواستہ آپ کو ایڈز ہو جاے تو آپ سے محبت کرنے والی آپ کی بیوی آپ کا ساتھ ممکن ہے چھوڑ دے مگر بچے یا بھاءی بہنیں عمومی طور پر نہیں چھوڑتے۔ یاد رہے عمومی طور کی بات کی ہے۔ غیر معمولی حالات دنیا کا حصہ ہیں۔ اس لیے کسی غیر معمولی حالات کی بات میں نہیں کر رہا ہوں۔ ہو سکے آپ کی بیوی نہ چھوڑے اور باقی سب چھوڑ جاءیں ایسا بھی ہو سکتا ہے مگر ایسا کم ہی دیکھا گیا ہے۔ خیر میرا مقصد کسی کو صحیح یا غلط ثابت کرنا نہیں ہے۔ میں تو محبت پر بات کر رہا تھا۔ دراصل میں جس محبت پر آج بات کرنا چاہتا ہوں یہ وہ محبت ہے جو ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ یعنی ایک غیر لڑکا اور لڑکی کی محبت۔ غور طلب بات ہے کہ مینیں لڑکا اور لڑکی کے بجاے غیر لڑکا اور لڑکی کہا ہے۔ کیوں کہ صرف لڑکا اور لڑکی کہنے میں شبہات پیدا ہونے کا اندیشہ تھا۔ وہ دو مرد و زن جو محبت کا نام لے کر ایک رشتہ بناتے ہیں۔ ایسا رشتہ جو معاشرے میں عَلیٰ الْاِعلان عام نہیں کیا جا سکتا، مذہبی یا قانونی طور پر ایسے رشتے کا کوءی جواز نہیں ہوتا۔ گو کہ اب یہ سب کچھ عام ہو رہا ہے۔ معاشرہ اسے قبول بھی کر رہا ہے، بلکہ ایسے رشتوں کو چند مخصوص لوگوں کی طرف سے بھرپور پذیراءی بھی مل رہی ہے۔ اُس معاشرے میں جو اَسْتَغْفِرُ اَلَّہْ خود کو مسلمان معاشرہ بلکہ انتہاءی بے شرمی کے ساتھ نام نہاد اسلامی معاشرہ کہتا ہے۔ لیکن اسلام تو اسے قبول نہیں کرتا؟ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ تو اسے قبول نہیں کرتے؟ اب بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو اسے قبول نہیں کرتے مگر اس کا پھیلاؤ باعثِ پریشانی ہے۔ قرآن تو کہتا ہے کہ:
(اے نبی! لوگوں سے کہہ دو کہ، ”اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔“) 3:31

اب بتائیں کہ کیا نبی نے اس کی تعلیم دی ہے جس کی ہم پیروی کر رہے ہیں؟ دراصل ہمارے نو جوان وہی کام کر رہے ہیں جو سورۃ یوسف میں آیا ہے کہ:
(شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ ”عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، محبت نے اس کو بے قابو کر رکھا ہے، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے۔“) 12:30۔

یہاں لفظ محبت کا استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن آپ کو سچ بات بتاؤں کہ جو لڑکا اور لڑکی آپس میں محبت کرتے ہیں اور پھر جو کچھ کرتے ہیں وہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی۔ اس لیے ذکر کرنا چندا ضروری نہیں۔ میں اسے کسی بھی حال میں محبت نہیں کہتا۔ یہ صرف ایک ہوس ہوتی ہے جو محبت کے نام پر پورا کرتے ہیں۔ دنیا میں ہوس پورا کرنے کا کوءی اور آسان رستہ نہ ملا تو دونوں نے سب سے آسان رستے کا انتخاب کیا وہ ہے محبت! جس پر شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
گناہ کرنے کا سوچ لینا
حسین پریاں دبوچ لینا
پھر اُسکی آنکھیں ہی نوچ لینا
اگر محبت یہی ہے جاناں
تو معاف کرنا مجھے نہیں ہے

معاشرے نے سرِ عام کپڑے اتارنے کو کبھی قبول نہیں کیا تو ہم نے آزادی کے نام پر اسے معاشرے کا حصہ بنا دیا۔ سوال ہے کہ پھر اصل محبت کیا ہے؟ اصل محبت کی بہت سی مثالیں ہو سکتی ہیں مگر میں ایک مثال دوں گا اور وہ ہے اللہ کی نشانی:
”وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے“ (7:189)

میاں بیوی سے بہتر محبت کا اور کوئی رشتہ نہیں ہو سکتا۔ غور کرنے کی بات ہے کہ قرآن میں پہلے ایک جان کا ذکر آیا ہے، پھر جوڑے کا اور آخر میں سکون کا۔ مطلب کیا بنتا ہے؟ اگر آپ ذرا بھی عقل رکھتے ہیں تو سمجھ سکتے ہیں۔ قرآن کے ہر لفظ اور ہر جملے اور اُس کی ترتیب میں ایک گہرا مفحوم یا ایک مقصد چھپا ہوتا ہے۔ جوڑے سے سکون اُسی صورت حاسل ہو گا جب محبت ہو گی، یعنی جب جوڑا بنے گا یعنی شادی ہو گی، میں چوں کہ آپ کو ایک مہذب انسان تصور کر رہا ہوں اس لیے شادی کی بات کر رہا ہوں۔ ہاں اگر آپ اپنے آپ کو کتے بِلّے کے صنف سے سمجھتے ہیں تو وہ ایک الگ معاملہ ہے۔ خیر میں کہہ رہا تھا کہ شادی ہو گی پھر ہی محبت آۓ گی پھر ہی سکون ملے گا۔ جو لوگ شادی کے بغیر سب کچھ کر چکے ہوتے ہیں کیا انھیں سکون ملتا ہے؟ کیا وہ خوش رہتے ہیں؟ کیا وہ وفادار ہوتے ہیں؟ تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہے ”نہیں!“ کیوں کہ اللہ بُراءی کو پسند نہیں کرتا تو گناہ میں محبت کیسے ڈال سکتا ہے؟ ہم نے وہی کام کیا ہے جو شیطان نے کیا تھا کہ:
”بولا، ”اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر اِن انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا۔“ (7:16)
یعنی شیطان نے اللہ پر الزام دھر دیا کہ تو نے گمراہ کیا ہے۔ ہم بھی یہی کرتے ہیں اپنی ہوس کو اللہ کی طرف سے محبت کہتے ہیں۔ حالاں کہ اللہ بُراءی میں ہرگز ساتھ نہیں ہوتا۔ کیوں کہ بُراءی صرف شیطان کے پیرو کار ہی کرتے ہیں۔ جبکہ اللہ نے واضح کر دیا ہے کہ پہلے جوڑا بنے گا پھر محبت ہو گی پھر ہی سکون ملے گا۔

پھر ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم محبت کسی اور سے کرتے ہیں اور شادی کسی اور سے۔ بچے کسی اور کے پیدا کرتے ہیں اور جذبات کسی اور سے باندھتے ہیں۔ یہ میرا حسنِ ظن ہے کہ مینیں ایسا سمجھا ہے۔ خیر۔ ساری خواہشات پوری کرنے کے بعد کہہ گزرتے ہیں کہ ”انگور کھٹے ہیں“ مجھے لوگ کہتے ہیں کہ تم اچھے خاصے محاورے کو غلط جگہ استعمال کرتے ہو۔ اب میں بھی ضد میں ہوں کہ میں ایسا ہی کروں گا۔ اس محبت کے فریب میں نقصان کس کا ہوتا ہے؟ اُن کا تو ہرگز نہیں ہوتا جو اس میں ملوث ہوتے ہیں بلکہ اُن کا ہوتا ہے جو بعد میں ان کے ساتھ جڑتے ہیں۔ اُن بچاروں کو کیا معلوم کہ ”ملک کوءی اور فطح کر چکا ہے۔“ انھیں تو صرف کھنڈرات ملے ہیں یا جو ملک ملا ہے وہ پہلے ہی خانہ جنگی کا شکار ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں انسان بنو اور ہوش میں آؤ۔ لڑکوں یہ صدا یاد رکھو کہ:
کی اللہ سے وفا تو نے تو جنتیں تیری ہیں
ایک عورت چیز ہے کیا ستر ہوریں تیری ہیں۔
لڑکیوں کو اُن کی ماءیں سمجھاءیں۔ خدا حافظ۔
 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 4 Articles with 2294 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.