کب تک؟ اے دنیا کے مسلمانو! کب تک خاموش رہو گے؟ کب تک
تمہاری آنکھیں میری مٹی کو خون میں نہاتا ہوا دیکھ کر بھی بند رہیں گی؟ کب
تک تم میرے بچوں کے کٹے ہوئے جسموں کو دیکھ کر بھی صرف "دعا" کا لفظ ادا کر
کے فارغ ہو جاؤ گے؟ کب تک تم میری بہنوں، بیٹیوں اور ماؤں کی عزت پر "بہت
افسوس ہوا" کہہ کر آگے بڑھ جاؤ گے؟ ہائے میرا وطن! تُو کس قدر بے کس ہے کہ
تیرے باسیوں پر بم برسائے جا رہے ہیں اور دنیا تماشا دیکھ رہی ہے۔ تیری
حرمت کو پامال کیا جا رہا ہے اور سب غیرتمند مسلماں دانتوں میں انگلیاں دیے
مسکرا رہے ہیں۔
میرے وطن کی دھرتی خون سے لالہ زار ہے۔ یہ میرا گھر تھا۔ یہ میری زمین تھی۔
یہاں میرے بچے کھیلتے تھے، میری ماں روٹی پکاتی تھی، میرے باپ نے اپنی
زندگی کی کمائی سے یہ مکان بنایا تھا، یہاں میں اور میری بہنیں کبھی کھیلا
کرتے تھے۔ مگر آج؟ یہاں صرف ملبہ ہے، صرف بموں کا زہریلہ دھواں ہے۔ راکٹوں
نے میری یادوں کو خاک میں ملا دیا۔ میں اپنے ہی گھر کے کھنڈرات پر کھڑا ہوں
اور سوچتا ہوں۔ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا یہی انسانیت ہے؟ اسرائیل کے بم میرے
خوابوں کو تار تار کر رہے ہیں، اور امریکہ اپنے ڈالروں سے ان بموں کی کھیپ
بھر رہا ہے۔ کیا تم دیکھ رہے ہو؟ کیا تم سن رہے ہو؟ یا تمہارے کانوں میں
صرف دنیا کے شور ہیں؟ کیا دنیا کے شور نے تمہیں بہرا کر دیا ہے؟ یا تم خود
سننا نہیں چاہتے؟
دیکھو۔ تم بھی دیکھو۔ وہ صرف پانچ سال کا تھا۔ اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ
تھی۔ اُس کی آواز میں چہکار تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں کو بلند کر کے کہتا تھا:
"ابا، میں بڑا ہو کر ڈاکٹر بنوں گا۔" مگر آج، وہ میری گود میں ایک لاش ہے۔
آج اس کے ہاتھ بھی بلند نہیں۔ آج اس کے چہرے پر بھی کوئی مسکراہٹ نہیں۔ اس
کا چہرہ خاکی ہے، اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں جیسے وہ مجھ سے پوچھ رہا ہو:
"ابا، میں نے کیا جرم کیا تھا؟ کیا میرا جرم یہی تھا کہ مینیں خواب دیکھا
تھا؟ کیا میرا جرم یہی تھا کہ میں ایک فلستینی تھا؟ یا میرا جرم یہ تھا کہ
میں ایک مسلمان تھا؟ ابا مجھے بتاؤ نا؟" کون جواب دے گا؟ کون اس بچے کے خون
کا حساب لے گا؟ اسرائیل کے فوجی تو خوشی سے ناچ رہے ہیں، اور امریکہ انہیں
اور ہتھیار دے رہا ہے۔ اے مسلمانو! کیا تمہارے ایمان میں اب کوئی جذبہ
نہیں؟ کیا تمہارے دلوں میں اب کوئی درد نہیں؟ کیا تم میں اب کوءی غیرت باقی
نہیں؟
صرف اتنا ہی نہیں آؤ دیکھو۔ تم بھی دیکھ لو اور گواہ رہو کہ تم نے وہ سب
دیکھا ہے جو میرے ساتھ ہوا۔ دیکھو۔ وہ میری بہن تھی۔ وہ میری عزت تھی۔ مگر
اسرائیلی فوجیوں نے اسے گھسیٹا، اسے مارا، اسے بے لباس کیا، اسے رسوا کیا۔
کیا یہی "ترقی یافتہ" اقوام کا انصاف ہے؟ کیا یہی "جمہوریت" کا چہرہ ہے؟ جب
تکلیف ہم پر آتی ہے تو دنیا خاموش ہو جاتی ہے، لیکن اگر ہم اپنا دفاع کریں
تو ہمیں "دہشت گرد" کہہ کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا یہی
انسانیت ہے؟ کیا تمہیں یہ لگتا ہے کہ یہ آگ کبھی تم تک نہیں آے گی؟
مسلمانو! کہاں ہو تم؟ تمہارے پاس دولت ہے، طاقت ہے، وسائل ہیں۔ مگر تم
خاموش ہو۔ تمہارے لیڈر کہتے ہیں: "ہم فلسطین کے ساتھ ہیں۔" مگر عملاً کیا
کرتے ہو؟ کیا یہی ساتھ ہے؟ کیا یہی اخوت ہے؟ تمہارے ہاں تو کلب ہیں، شاپنگ
مالز ہیں، عیش و عشرت کی محفلیں ہیں۔ مگر کیا کبھی تم نے اپنے بھائیوں کے
لیے آنسو بہائے؟ کیا کبھی تم نے اپنے اخباروں کے اداریوں سے زیادہ کچھ کیا؟
ہائے میری امت! کیا تمہیں شرم نہیں آتی؟
تم انسانی حقوق کی بات کرتے ہو، مگر فلسطینیوں کے حقوق تمہیں نظر نہیں آتے۔
تم جمہوریت کی دہائی دیتے ہو، مگر ایک پورے قوم کو غلام بنانے پر خاموش ہو۔
تمہاری میڈیا فلسطینیوں کو "دہشت گرد" کہتی ہے، مگر اسرائیل کے مظالم پر
پردہ ڈال دیتی ہے۔ تمہارے لوگ فلستینیوں کو جانور کہتے ہیں مگر فلستینیوں
کو مارنے میں مدد کرنے والے امریکہ کو کچھ نہیں کہتے۔ کیا یہی تمہاری "آزاد
صحافت" ہے؟ کیا یہی تمہاری انصاف پسندی ہے؟
میرا وطن جل رہا ہے۔ میری قوم تڑپ رہی ہے۔ میرا وقت کم سے کم ہو رہا ہے۔
میرے بچے مرتے جا رہے ہیں۔ مگر میں اب بھی امید رکھتا ہوں۔ شاید کوئی آنکھ
کھلے، شاید کوئی دل دھڑکے، شاید کوئی ہاتھ اٹھے۔ اے مسلمانو! اگر تمہارے
پاس طاقت نہیں، تو کم از کم آواز تو اٹھاؤ! اگر تمہارے پاس ہتھیار نہیں، تو
کم از کم بائیکاٹ تو کرو! اگر تمہارے پاس اختیار نہیں، تو کم از کم دعا تو
کرو!
اے اللہ! تُو ہی ان مظلوموں کا مددگار ہے۔ تُو ہی ان بے کسوں کا سہارا ہے۔
ہم تیرے سامنے سوالی ہیں—اپنی رحمت سے ہمیں نہ ٹال۔ اے رب العالمین! فلسطین
کو آزاد کر۔ اس کے لوگوں کو عزت دے۔ ان کے دشمنوں کو نیست و نابود کر۔ اور
ہم سب کو اپنی مدد کا ذریعہ بنا۔ آمین!
"ایک فلسطینی کی فریاد"
|