حج وعمرہ اور متعلقہ مسائل و معلومات

حج دین اسلام کا پانچواں رکن ہے، جس کے لفظی معنی ہیں ’قصد کرنا، کسی جگہ ارادے سے جانا‘ جبکہ اصطلاح شریعت میں اس سے مراد مقررہ دنوں میں مخصوص عبادات کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کرنا ہے حج کے مقررہ دنوں کے علاوہ بھی کسی وقت مخصوص عبادات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کرنے کو عمرہ کہتے ہیں۔ اصطلاحِ شریعت میں عمرہ سے مراد شرائطِ مخصوصہ اور افعالِ خاصہ کے ساتھ بیت اﷲ شریف کی زیارت کرنا ہے۔ وہ آخری مقام جہاں سے حج یا عمرہ کا ارادہ کرنے والے کا احرام کے بغیر آگے بڑھنا جائز نہیں، میقات کہلاتا ہے۔ حدودِ حرم سے پہلے جن مقامات کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بطور میقات مقرر فرمایا وہ پانچ ہیں۔حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اہل مدینہ کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذوالحُلیفہ ہے اور دوسرا راستہ جُحفہ ہے اور اہل عراق کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذاتِ عرق ہے، اہل نجد کے لیے قرن المنازل ہے اور اہل یمن کے لئے یَلَمْلَمْ ہے۔ پاکستانیوں کا میقات یَلَمْلَمْ ہے، جہاں اہلِ پاکستان احرام باندھتے ہیں، جو جدہ سے پہلے آتا ہے۔ حدودِ حرم کے باہر چاروں طرف جو زمین میقات تک ہے، اسے حِلّ کہتے ہیں اور جو شخص زمین حِلّ کا رہنے والا ہو اسے حِلّی کہتے ہیں۔ اس جگہ وہ تمام چیزیں حلال ہیں جو حرم میں احتراماً منع ہیں مکہ معظمہ کے اردگرد کئی کوس تک زمین کو حرم کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ ہر طرف حدود پر نشانات لگے ہوئے ہیں، ان حدود کے اندر شکار کھیلنا، وحشی جانوروں حتیٰ کہ جنگلی کبوتروں کو تکلیف و ایذا دینا، جانوروں کو گھاس چرانا بلکہ تر گھاس اکھیڑنا بھی حرام ہے۔ مکہ مکرمہ، منیٰ، مزدلفہ سب حدودِ حرم ہیں، البتہ عرفات داخلِ حرم نہیں۔ وہ شخص جو حج کی نیت سے حدود میقات کے باہر سے آئے، مثلاً یمنی، پاکستانی، بھارتی، مصری، شامی، عراقی اور ایرانی وغیرہ کو آفاقی کہتے ہیں۔ یہ بغیر احرام کے مکہ مکرمہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔ حج یا عمرہ کی باقاعدہ نیت کر کے جو لباس پہنا جاتا ہے اسے احرام کہتے ہیں۔ اس کے بغیر آدمی میقات سے نہیں گزر سکتا۔ یعنی ایک چادر نئی یا دھلی ہوئی اوڑھنے کیلئے اور ایسا ہی ایک تہہ بند کمر پر لپیٹنے کے لئے۔ اس کے پہننے کے بعد بعض حلال چیزیں بھی حرام ہو جاتی ہیں تلبیہ وہ مخصوص ورد ہے جو حج اور عمرہ کے دوران حالت احرام میں کیا جاتا ہے۔ تلبیہ کے کلمات یہ ہیں :لَبَّيکَ اَللّٰهمَّ! لَبَّيک، لَبَّيک لَا شَرِيکَ لَکَ لَبَّيکَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَة لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِيکَ لَکَ.’اے اللہ میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ تعریف، نعمت اور بادشاہی تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔

احرام کے لئے ایک مرتبہ زبان سے تلبیہ کہنا ضروری ہے اور نیت شرط ہے۔ الفاظِ نیت یہ ہیں :

اَللّٰهمَّ إِنِّی أُرِيدُ الْحَجَّ يا أُرِيدُ الْعُمْرَة فَيسِّرْه لِیْ يا فَيسِرَها لِی وَتَقَبَّلْه مِنِّی.’’اے اللہ! میں حج یا عمرہ کی نیت کرتا ہوں، پس اس کو میرے لئے آسان کر دے اور مجھ سے قبول کر لے۔

مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کے اردگرد بطریقِ خاص چکر لگانے کا نام طواف ہے۔ جس جگہ میں طواف کیا جاتا ہے اسے مطاف کہتے ہیں۔ طواف حجر اسود سے شروع ہوتا ہے اور وہیں ختم ہوتا ہے۔

مکۃ المکرمہ میں داخل ہونے کے بعد جو پہلا طواف کیا جاتا ہے۔ اسے طوافِ قدوم کہتے ہیں، یہ طواف ہر اس آفاقی کیلئے مسنون ہے جو حج اِفراد یا قِران کی نیت سے مکہ معظمہ میں داخل ہو۔

طوافِ زیارت حج کا رُکن ہے، چونکہ یہ قربانی، حلق و تقصیر اور اِحرام کھولنے کے بعد عام لباس میں کیا جاتا ہے، اس لئے اس طواف میں اضطباع نہیں۔ یہ طواف 10 ذوالحجہ کی صبح صادق سے لے کر 12 ذوالحجہ غروبِ آفتاب سے پہلے تک ہو سکتا ہے۔ البتہ 10 ذوالحجہ کو کرنا احسن ہے۔ طوافِ زیارت کرنے کے بعد احرام کی تمام پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں۔

بیت اللہ سے واپسی کے وقت طواف کرنا، طوافِ وداع کہلاتا ہے۔ اس میں نہ رمل ہے نہ سعی اور نہ ہی اضطباع۔ یہ آفاقی پر واجب ہے۔

وہ طواف جو کوئی بھی عاقل شخص مکہ میں قیام کے دوران وقت کی پابندی کئے بغیر کسی بھی وقت ایک یا ایک سے زائد بار کر سکتا ہے نفلی طواف کہلاتا ہے۔ اس طواف میں رمل اور اضطباع نہیں کیا جاتا اور نہ ہی احرام باندھنے کی پابندی ہوتی ہے۔ آفاقی یعنی مسافر کے لئے نفل نماز سے نفل طواف افضل ہے اور اہل مکہ کے لئے طواف سے نماز افضل ہے، مکہ والوں کے لیے یہ حکم فقط موسم حج کے لیے ہے تاکہ آفاقیوں کے لئے جگہ تنگ نہ ہو ورنہ نفل طواف بہتر ہے۔

طواف شروع کرنے سے پہلے چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر دونوں کنارے بائیں کندھے پر اس طرح ڈال دینا کہ دایاں شانہ کھلا رہے، اضطباع کہلاتا ہے۔ حضرت یعلیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اضطباع کی حالت میں طواف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چادر مبارک تھی‘‘۔ پھر کعبہ کی طرف منہ کر کے اپنی دائیں جانب حجرِ اسود کی طرف چلیں، یہاں تک کہ حجر اسود بالکل سامنے ہو جائے۔ اس کے بعد طواف کی نیت کرے۔

طواف کے پہلے تین پھیروں میں تیز قدم اٹھانے اور شانے ہلانے کو رمل کہتے ہیں، جیسا کہ قوی اور بہادر لوگ چلتے ہیں۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بیت اﷲ کا طواف فرماتے تو تین مرتبہ رمل فرماتے اور چار مرتبہ چلتے۔

دونوں ہاتھوں کے درمیان منہ رکھ کر حجر اسود کو بوسہ دینا اور اگر بھیڑ کی وجہ سے ممکن نہ ہو تو ہاتھ یا لکڑی سے چھو کر چوم لینے کا اشارہ کر کے ہاتھوں کو بوسہ دینے کو استلام کہتے ہیں۔

حضرت زبیر ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حجرِ اسود کو بوسہ دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا استلام کرتے اور بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔

احرام کے ساتھ طواف و سعی کے مجموعہ کا نام عمرہ ہے۔ یہ طواف عمرہ کرنے والوں پر فرض ہے۔ اس طواف میں اضطباع، رمل اور اس کے بعد سعی بھی ہے۔

صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا کی طرف جانا اور آنا اور مِیْلَیْن اخضَرَیْن کے درمیان سات مرتبہ دوڑنا سعی کہلاتا ہے۔

8 ذوالحجہ کو حج کی عبادات کا آغاز ہوتا ہے، اسے ’’یوم التّرویہ‘‘ کہتے ہیں۔
9 ذوالحجہ کو میدان عرفات میں حج ہوتا ہے، اسی نسبت سے اس دن کو یومِ عرفہ کہتے ہیں۔
10 ذوالحجہ کو، جس دن قربانی کی جاتی ہے، اسے یومِ نحر کہتے ہیں
9 ذوالحجہ کی فجر سے 13 ذوالحجہ کی عصر تک کے ایّام، ایامِ تشریق کہلاتے ہیں۔ ان دنوں میں ہر فرض نماز باجماعت پڑھنے کے بعد تکبیرِ تشریق پڑھی جاتی ہے، تکبیر تشریق یہ ہے :ا ﷲُ اَکْبَرُ اﷲُ اَکْبَرُ لَا اِلٰه اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ اﷲُ اَکْبَرُ وَِﷲِ الْحَمْد.

9 ذوالحجہ کو عرفات میں ٹھہرنا، خشیتِ الٰہی اور خالص نیت سے ذکر، لبیک، دعا، درود و سلام، استغفار میں مشغول رہنا، نماز ظہر و عصر ادا کرنا اور نماز سے فراغت کے بعد بالخصوص غروبِ آفتاب تک دعا میں اپنا وقت گزارنے کو وقوف عرفہ کہتے ہیں۔

منیٰ میں واقع تین جمرات (یعنی شیاطین) پر کنکریاں مارنے کو رَمِیْ کہتے ہیں۔ ان میں سے پہلے کا نام جمرۃ الاخریٰ یا جمرۃ العقبہ ہے۔ اسے عوام الناس بڑا شیطان کہتے ہیں۔ دوسرے کو جمرۃ الوسطیٰ (منجھلا شیطان) اور تیسرے کو جمرۃ الاولیٰ (چھوٹا شیطان) کہتے ہیں۔

رمی سے فارغ ہو کر قربانی کے بعد قبلہ رو بیٹھ کر حاجی کے لئے سارا سر منڈانا حلق کہلاتا ہے۔ حلق کروانا افضل ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اَللَّهمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ.’’اے اﷲ سر منڈانے والوں کو بخش دے۔

رمی سے فارغ ہو کر قربانی کے بعد سر منڈانے کی بجائے بالوں کو کتروانے یعنی بال چھوٹے کرانے کی بھی اجازت ہے، یہ عمل تقصیر کہلاتا ہے۔ لیکن حلق، تقصیر کی نسبت زیادہ افضل ہے۔ خواتین پر حلق اور قصر دونوں نہیں، بلکہ وہ انگلی کی ایک پور کے برابر بال کتروائیں۔
:: حوالہ جات جن کتب سے مدد حاصل کی گئی
بخاری شریف، کتاب الحج، باب تقبيل الحجر، 2 : 583، رقم : 1532، کتاب الحج، باب الحلق والتقصير عند الإحلال، 2 : 617، رقم : 1641)
مسلم شریف، کتاب الحج، باب مواقيت الحج و العمره، 2 : 841، رقم : 1183،
2 : 841، رقم : 1184
ترمذی شریف، ابواب الحج، باب ما جاء فی التلبية، 2 : 176-177، رقم : 825، کتاب الحج، باب ما جاء أن النبی صلی الله عليه وآله وسلم طاف مضطبعًا، 3 : 214، رقم : 859
ابن ماجه شریف، کتاب المناسک، باب الرمل حول البيت، 3 : 441، رقم : 2951
الفقه علی المذاهب الاربعة، 1 : 1121
لسان العرب، 3 : 52
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1382046 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.