کیا محبت اب صرف ایک سودے بازی ہے؟

انسانی تاریخ میں محبت اور رشتوں کی بنیاد ہمیشہ سے جذبات، عقائد اور باہمی احترام پر رکھی گئی ہے لیکن جدید دور کے پیچیدہ سماجی ڈھانچے نے جہاں فرد کو آزادی اور خودمختاری دی ہے وہیں اسے ایک گہری تنہائی اور مفاد پرستی کے دلدل میں بھی دھکیل دیا ہے خاص طور پر وہ افراد جو عمر کے اس حصے میں پہنچ چکے ہیں جہاں امید کی کرنیں ماند پڑنے لگتی ہیں وہ اپنی بے چینی کو چھپانے کے لیے جوانوں کی معصومیت کو ہتھیار بنا لیتے ہیں یہ رجحان محبت کو ایک کھیل بنا دیتا ہے جہاں شادی ایک ٹریپ اور ساتھی ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔ کیا انسانیت اپنے بنیادی اصولوں سے اس قدر دور ہو چکی ہے کہ رشتوں کی اہمیت بھی سرمائے میں تبدیل ہو گئی ہے؟

اریک فروم نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف "دی آرٹ آف لوونگ" میں لکھتے ہیں کہ محبت دراصل دوسرے کے وجود کو مکمل طور پر تسلیم کرنے کا نام ہے اس میں قربانی دی جاتی ہے احترام پایا جاتا ہے اور آزادی کو فروغ ملتا ہے لیکن جو لوگ محبت کو صرف اپنی تنہائی دور کرنے یا سماجی تحفظ حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں وہ دراصل فروم کے تصور محبت کو قتل کر رہے ہیں ایسے افراد کے لیے محبت کا مطلب دوسرے کے جذبات سے کھیلنا ہوتا ہے وہ جوان ساتھی کو ایک پراڈکٹ کی طرح دیکھتے ہیں جو ان کی ضروریات پوری کرے ان کی عمر بھر کی خامشیوں کو آواز دے اور ان کے سماجی وقار کو بحال کرے فروم کہتا ہے کہ ایسے تعلقات میں محبت نہیں ہوتی بلکہ ایک خوف ہوتا ہے خوف تنہائی کا خوف بے وقعتی کا اور خوف موت کا یہ خوف ہی فرد کو دوسروں کے جذبات سے کھیلنے پر مجبور کرتا ہے

اسی طرح ژاں پال سارتر نے اپنے تصور "بیڈ فیتھ" میں انسانی مکاری کو واضح کیا ہے بیڈ فیتھ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنی آزادی سے انکار کرتا ہے اور اپنے فیصلوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتا ہے معمر افراد کا جوانوں کو شادی کے بہانے اپنی زندگی کا حصہ بنانا دراصل اسی بیڈ فیتھ کی عملی تصویر ہے وہ اپنی ناکامیوں اور خالی پن کو جوان ساتھی کے ذریعے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ شادی انہیں نئے سرے سے زندہ کر دے گی لیکن درحقیقت وہ اپنی ذات کے ساتھ ایک دھوکہ دہی میں مبتلا ہوتے ہیں جس کا خمیازہ دونوں فریقین کو بھگتنا پڑتا ہے

سماجیات کے میدان میں زیگمنٹ باومن نے "لیکویڈ لوو" کی اصطلاح متعارف کروائی، جس کے تحت جدید تعلقات غیر مستحکم اور عارضی ہو گئے ہیں لوگ ایک دوسرے سے وابستہ ہونے کے بجائے ہمیشہ بہتر آپشن کی تلاش میں رہتے ہیں معمر افراد کا جوانوں کی طرف رجحان بھی اسی لیکویڈیت کی ایک شکل ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جوان ساتھی نہ صرف انہیں سماجی طور پر قابل قبول بنائے گا بلکہ ان کی عمر بھر کی کمیوں کو پر بھی کرے گا یہ ایک ایسا گیم ہے جس میں دونوں فریق اپنے مفادات کو داؤ پر لگاتے ہیں لیکن اکثر اوقات جوان فریق کو احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کسی کے نفسیاتی سہارے کا ذریعہ بن چکا ہے

سماجی تبادلے کے نظریے کے مطابق جسے پیٹر بلاو اور جارج ہومانز نے پیش کیا تمام انسانی تعلقات لین دین پر مبنی ہوتے ہیں لیکن یہ نظریہ اخلاقیات کے ایک اہم سوال کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ کیا ہر تعلق کو صرف مفاد کی عینک سے دیکھنا مناسب ہے مثال کے طور پر اگر ایک معمر شخص کسی نوجوان سے شادی کرتا ہے تو سماجی تبادلے کے تحت وہ اپنے تجربے اور مالی وسائل کے بدلے میں نوجوان کی توانائی اور معصومیت حاصل کرتا ہے لیکن کیا یہ تبادلہ درحقیقت دونوں فریقین کی رضامندی پر مبنی ہے یا پھر یہ طاقت کے عدم توازن کا شکار ہے نوجوان اکثر جذباتی طور پر ناپختہ ہوتے ہیں اور انہیں زندگی کے تجربات کی کمی ہوتی ہے یہی کمی انہیں استحصال کا شکار بنا دیتی ہے

سمون دی بوائر نے اپنی کتاب "دی کمنگ آف ایج" میں عمر بڑھنے کے سماجی اور نفسیاتی اثرات پر گہری روشنی ڈالی ہے وہ لکھتی ہیں کہ معاشرہ عمر بڑھنے کو ایک خامی سمجھتا ہے اور معمر افراد کو نظر انداز کرتا ہے یہی نظر اندازی انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی اہمیت ثابت کرنے کے لیے جوانوں کی طرف رجوع کریں لیکن سمون کا یہ تجزیہ اس رویے کو جواز فراہم نہیں کرتا بلکہ اس کی پیچیدگی کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے درحقیقت معمر افراد کا یہ رجحان ان کی اپنی نفسیاتی کمزوری کی علامت ہے وہ موت کے خوف جوانی کی یادوں اور سماجی تنہائی سے نمٹنے کے لیے ایک فوری حل کے طور پر شادی کا سہارا لیتے ہیں لیکن یہ حل کبھی دیرپا نہیں ہوتا کیونکہ یہ تعلق کسی گہری انسانی وابستگی پر نہیں بلکہ مفاد پرستی پر کھڑا ہوتا ہے

امانوئل کانٹ نے اخلاقیات کے اپنے مشہور تصور میں کہا تھا کہ ہمیں ہمیشہ دوسرے انسانوں کے ساتھ ایسے پیش آنا چاہیے جیسے وہ خود ہمارا مقصد ہوں نہ کہ صرف ذریعہ لیکن معمر افراد کا جوانوں کے ساتھ استحصالی رویہ بالکل اسی اصول کی خلاف ورزی ہے وہ نوجوان ساتھی کو اپنی خواہشات پوری کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں چاہے وہ جذباتی سہارا ہو سماجی وقار ہو یا جسمانی companionship یہ رویہ نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ انسانی وقار کے خلاف بھی ہے کیونکہ اس میں دوسرے فرد کی آزادی اور خودمختاری کو پامال کیا جاتا ہے

یہاں تک کہ اگر جوان فرد اس تعلق میں راضی بھی ہو تب بھی یہ رضامندی حقیقی نہیں ہوتی کیونکہ طاقت کا توازن یک طرفہ ہوتا ہے معمر فرد کے پاس تجربہ وسائل اور سماجی اختیار ہوتا ہے جبکہ نوجوان کے پاس صرف جذباتی کمزوری اور معصومیت ہوتی ہے یہ عدم توازن تعلقات کو ایک ڈراما بنا دیتا ہے جہاں محبت کی بجائے ڈرامہ بازی ہوتی ہے اور وفا کی بجائے مفاد پرستی

مذہبی تعلیمات ہمیشہ سے رشتوں کی پاکیزگی پر زور دیتی ہیں اسلام میں نکاح کو ایک مقدس عہد قرار دیا گیا ہے جس کی بنیاد عدل اور باہمی رضامندی پر ہونی چاہیے لیکن جب شادی کا مقصد کسی کی عمر یا وسائل کا فائدہ اٹھانا ہو تو یہ رشتہ اپنی روح کھو دیتا ہے قرآن پاک میں واضح کیا گیا ہے کہ 'وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو' یہ آیت باہمی تکمیل اور احترام پر زور دیتی ہے نہ کہ استحصال پر اسی طرح بدھ مت میں لالچ اور تعلق سے وابستہ خواہشات کو دکھ کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ فرد کو حقیقی سکون سے دور کر دیتی ہیں

کارل یونگ نے انسانی شخصیت کے سایہ کے تصور کو پیش کیا ہے جو ہمارے اندر چھپی کمزوریوں خوفوں اور قباحت پر مشتمل ہوتا ہے معمر افراد کا جوانوں کی طرف رجحان دراصل اسی سایے کا اظہار ہے وہ اپنے بڑھاپے اور موت کے خوف کو جوان ساتھی کے ذریعے دبانے کی کوشش کرتے ہیں یہ ایک نفسیاتی فرار ہے جہاں فرد اپنی داخلی خالی جگہ کو بیرونی عوامل سے پر کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ فرار کبھی کامیاب نہیں ہوتا کیونکہ حقیقی سکون بیرونی چیزوں سے نہیں بلکہ اندرونی قبولیت سے ملتا ہے

اس سارے تجزیے کا نتیجہ یہ ہے کہ استحصالی تعلقات نہ صرف فرد بلکہ پورے معاشرے کو بیمار کر دیتے ہیں ہمیں اپنے رشتوں کو مفاد کی بجائے احترام اور مکالمے کی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا معمر افراد کو چاہیے کہ وہ اپنی تنہائی کا حل کسی دوسرے کے استحصال میں نہ ڈھونڈیں بلکہ اپنے اندر کی خالی جگہ کو فنون ثقافت یا روحانی سرگرمیوں سے پر کریں اسی طرح نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ ہوشیار رہے اور کسی بھی تعلق میں داخل ہونے سے پہلے اس کی نیت کو پرکھیں محبت ایک مقدس جذبہ ہے جسے مفاد کی کیچڑ سے آلودہ ہونے سے بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے
 

Faisal Raza
About the Author: Faisal Raza Read More Articles by Faisal Raza: 18 Articles with 3873 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.