اے میرے اللہ! اے عرشِ بریں کے مالک! اے خالقِ کونو مکاں!
اے دلوں کے حال جاننے والے! کیا تُو دیکھ نہیں رہا؟ کیا تُو سن نہیں رہا؟
کیا تجھے میری چیخیں، میرے بچوں کی سسکیاں، میری بیٹی کی آہیں، میرے شوہر
کی لاش اور میرے گھر کی جلی ہوئی اینٹیں دکھائی نہیں دیتیں؟ میں وہی عورت
ہوں جو کبھی خوشبو لگاتی تھی، اپنے آنگن میں زیتون کے درختوں کو پانی دیتی
تھی، جو بچوں کے لیے جھولے بناتی تھی اور شوہر کے انتظار میں دروازے پر
نظریں جمائے بیٹھی رہتی تھی۔ لیکن اب؟ اب میرے ہاتھوں میں خون ہے، میری
آغوش خالی ہے، میرا گھر اجڑ گیا، میرا دل قبرستان بنا دیا گیا ہے۔
یا اللہ! میں تجھ سے کیا کہوں، کیسے کہوں، کہاں سے شروع کروں؟ ہر طرف موت
کا سایہ ہے، ہر گلی شہیدوں کا قافلہ ہے، ہر ماں کا سینہ چھلنی ہے، ہر باپ
کی آنکھ نم ہے، ہر لڑکی کی عزت تباہ ہے، ہر بچہ یتیم ہے۔ میں بلک بلک کر رو
رہی ہوں اور تجھ سے یہ سوال کرتی ہوں، اے اللہ! تُو نے ہمیں کیوں آزمایا؟
ہمیں کیوں ایک بے حِس امت کے حوالے کر دیا؟ ہمارے گناہ بڑے تھے یا ہمارا
ایمان؟ تُو ہی بتا، تُو ہی فیصلہ کر۔
کل رات میری گود سے میری بیٹی چھینی گئی۔ ایک بم آیا اور سب کچھ لے گیا۔ وہ
بچی جو روز میری پیشانی کو چومتی تھی، جو مجھ سے کہتی تھی، “امی، مجھے
شہزادیوں جیسا لباس دو”، آج وہ کفن میں لپٹی ہے۔ آج وہ شہزادی کے لباس کی
جگہ کفن پہنی ہوءی ہے۔ یا اللہ! میں کیسے بتاؤں کہ میں نے اُس کے ٹوٹے ہوئے
ہاتھ چومے، اُس کا جلا ہوا چہرہ، جھلسا ہوا جسم اپنی چادر سے ڈھانپا، اُس
کی بے نور آنکھوں کو بڑی حسرت سے دیکھا، اور جب اُسے دفنایا گیا تو مجھے
یقین ہے کہ زمین بھی رو رہی تھی۔
میں کبھی سوچا کرتی تھی کہ دنیا کا سب سے بڑا درد کیا ہوتا ہے۔ شاید بھوک؟
شاید تنہائی؟ شاید جدائی؟ لیکن نہیں! اب جانا کہ اصل درد وہ ہوتا ہے جب
تمہارا بچہ تمہاری بانہوں میں آخری سانسیں لے اور تم کچھ نہ کر سکو۔ جب تم
اپنی ماں کی لاش سے لپٹ کر روؤ اور تمہارے آنسو اسے زندگی نہ لوٹا سکیں۔ جب
تم اپنی بہن کی لاش دیکھو اور بے بسی کی انتہا پر پہنچ کر آنکھیں بند کر
لو۔ جب تم اپنے بھائی کے کٹے ہوئے بازو اٹھاؤ اور صرف اللہ اکبر کہہ سکو،
کیونکہ اور کچھ کہنا بھی باقی نہ رہے۔
اے ربِّ کریم! تُو تو سب کچھ جانتا ہے، کچھ بھی تجھ سے پوشیدہ نہیں، ہمیں
تو صرف صبر کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن کب تک صبر کریں؟ کب تک اپنے پیاروں کو
کھو کر چپ رہیں؟ کب تک ظلم سہتے رہیں؟ مسلمان امت کہاں ہے، یا اللہ؟ وہ امت
جو تیرے رسول ﷺ کی امت ہے، وہ امت جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ جیسے ایک
جسم کے اعضا ہوتے ہیں، وہ کہاں ہے؟ کیا اُنہیں ہمارے سسکتے لاشے نظر نہیں
آتے؟ کیا اُنہیں ہمارے روتے چہرے، چیختی بہنیں، زخمی بچے اور تباہ شدہ
مساجد دکھائی نہیں دیتیں؟ یا اللہ! کیا وہ سو گئے ہیں؟ کیا ان کے دل پتھر
ہو چکے ہیں؟ کیا ان کے دل کسی بھی مروت سے خالی ہو چکے ہیں؟
یا اللہ! یہ وقت تو نے کیسا لکھا ہے؟ یہ دن تو نے ہمارے نصیب میں کیوں
لکھا؟ کیا ہمارے دلوں میں تیرے لیے محبت کم تھی؟ کیا ہماری سجدہ گاہیں تیرے
ذکر سے خالی تھیں؟ نہیں، میرے مالک! ہم نے تو ہر رات آنکھوں کے اشکوں سے
اپنے رب کو پکارا، ہر سحری تیری رحمت کے لیے ہاتھ اٹھائے، ہر اذان پر دل
دھڑک اٹھا۔ پھر کیوں؟ کیوں ہم پر یہ آفتیں؟ یہ آزمائش؟ یہ صدمے؟
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں، شاید تُو ہمیں اپنے قریب کرنا چاہتا ہے، شاید تُو
ہمیں سیدیقین و صالحین کی صف میں شامل کرنا چاہتا ہے، شاید تُو ہمارے خون
سے زمین کو مقدس بنا رہا ہے۔ ہاں، شاید یہی ہے۔ مگر پھر بھی، اے اللہ! ہم
انسان ہیں، گوشت پوست کے بنے ہوئے۔ ہمیں درد ہوتا ہے، ہمیں تکلیف ہوتی ہے،
ہم چیختے ہیں، ہم تڑپتے ہیں۔
یا اللہ! تُو تو قہار ہے، جبار ہے، تُو ان ظالموں کو کب پکڑے گا؟ کب اُن کے
محل گِرائے گا؟ کب اُن کے ہتھیار زنگ آلود ہوں گے؟ کب تُو ہماری مدد کو آئے
گا؟ کب تُو اپنے فرشتوں کو ہماری مدد کا حکم دے گا؟ کب ابابیل آءیں گے؟ کب
اُن پر پتھر برسے گا؟ کب آندھی آۓ گی؟ کب اُنہیں میدان چھوڑنے پر مجبور کرے
گی؟ کب تُو ہمیں وہ سکون دے گا جو ہم نے برسوں سے کھو دیا ہے؟ ہمیں بس تیری
ذات پر بھروسا ہے، تیرے سوا کوئی نہیں جو ہمارا درد سمجھے۔ ہمیں اب کسی پر
بھروسہ نہیں اب کسی مسلمان پر بھی بھروسہ نہیں۔ یہ بے حِس ہو چکے ہیں۔ ہم
صرف تیرے سہارے زندہ ہیں۔
یا اللہ! تُو نے حضرت ہاجرہؓ کو صحرا میں پانی دیا، تُو نے حضرت یونسؑ کو
مچھلی کے پیٹ سے نکالا، تُو نے حضرت یوسفؑ کو ہر شر سے بچایا، تُو نے
موسیٰؑ کے لیے دریا کو چیر دیا، تُو نے محمدؐ کو دشمنوں کے نرغے سے نکالا،
اے ربّ! ہمیں بھی اس ظلم کے صحرا سے نکال، ہمیں بھی رہائی دے، ہمیں بھی امن
دے، ہمارے بچوں کو ہنسی دے، ہماری عورتوں کو عزت دے، ہمارے مردوں کو سلامتی
دے۔
میں اب بھی زندہ ہوں، میرے مالک! نہ جانے کیوں۔ نہ جانے کس لیے۔ شاید صرف
اس لیے کہ یہ فریاد دنیا تک پہنچاؤں، یہ زخموں کی زبان بولوں، یہ ٹوٹے خواب
گواہی بنیں۔ میری آنکھوں میں اب نیند نہیں، صرف دھواں ہے۔ میرے کانوں میں
اب اذان کی آواز نہیں، صرف دھماکوں کی گونج ہے۔ میرے ہونٹ اب دعائیں پڑھتے
ہیں، لیکن دل ہر لمحہ لرزتا ہے۔
میں دیکھتی ہوں کہ میرے اردگرد عورتیں ہیں، جو اپنے بیٹوں کو آخری بار گود
میں لے کر چپ چاپ دفن کر دیتی ہیں۔ نہ کوئی بین، نہ کوئی چیخ۔ بس خاموش
آنسو، جو زمین کو بھگو دیتے ہیں۔ کیا اس زمین کو اب خون سے ہی سیراب کیا
جائے گا؟ کیا اب ہمیں جینے کے لیے ہر بار مرنا ہو گا؟
اور اے اللہ! کیا وہ وقت کبھی آئے گا جب ہم پھر ہنسیں گے؟ جب ہماری مساجد
اذانوں سے گونجیں گی اور بموں کی گھن گرج نہیں ہو گی؟ جب بچے کھیلیں گے،
کتابیں پڑھیں گے، گائیں گے، ناچیں گے، اور ان کی مائیں ڈری ڈری نہیں، خوشی
خوشی دروازے پر کھڑی ہوں گی؟ کیا وہ دن واقعی آئے گا، یا یہ سب ایک خواب ہے
جسے ہم صرف مرنے سے پہلے دیکھ سکتے ہیں؟
میرے اللہ! میں ایک ماں ہوں، ایک بیوی ہوں، ایک بیٹی ہوں، اور اب ایک
شہیدوں کی بہن بھی۔ میرے پاس کچھ نہیں بچا، سوائے تیری رحمت کے۔ میری
فریاد، میری آہ، میرا نوحہ، میری بے بسی، سب تیرے حضور ہے۔ تُو ہی تو ہے جو
رات کی تنہائی میں میری سسکی سنتا ہے، تُو ہی تو ہے جو بمباری میں بھی مجھے
زندگی کی ڈور سے باندھے ہوئے ہے۔
میرے اللہ! تو میری فریاد سن۔ تُو ہر دل کی دھڑکن جانتا ہے، تُو ہر آنکھ کے
آنسو گنتا ہے۔ ہماری امت کو جگا دے۔ ان کے دلوں میں غیرت ڈال دے، ایمان کی
وہ چنگاری دوبارہ روشن کر دے جو بدر میں تھی، جو کربلا میں تھی، جو خالد بن
ولید کی تلوار اور للکار میں تھی، جو صلاح الدین ایوبی کے خون میں تھی۔
ہمیں کوئی صلاح الدین دے دے، ہمیں کوءی نیا خالد عطا کر دے، ہمیں کوئی محمد
بن قاسم دے دے۔ یا اگر نہ دے، تو ہمیں ہی ایسا بنا دے۔
یا اللہ! ہمیں اس آزمائش میں ثابت قدمی دے۔ ہمیں وہ حوصلہ دے جو تیرے نبیوں
کو دیا تھا۔ ہمیں وہ صبر دے جو سچوں کو عطا کیا جاتا ہے۔ ہمیں وہ کامیابی
دے جو شہیدوں کی قربانی کا صلہ ہو۔
ہماری عورتیں کمزور نہیں، میرے اللہ! ہم نے بیٹے جنم دیے ہیں جو تیرے نام
پر لڑتے ہیں، ہم نے بیٹیاں پالیں جو تیرے راستے میں قربان ہو گئیں۔ ہم نے
دعائیں کیں، ہم نے صدائیں دیں، ہم نے ہر راستہ آزما لیا۔ اب صرف تو باقی
ہے، اے اللہ! بس تو۔
میں جانتی ہوں، میرے مولا! تُو دیر کرتا ہے، اندھیر نہیں۔ میں جانتی ہوں،
تیری لاٹھی بے آواز ہے مگر بہت کاری ہے۔ مجھے یقین ہے، یہ اندھیرے چھٹیں
گے، یہ آنسو کبھی قیمتی موتیوں میں بدلیں گے، یہ قربانیاں رنگ لائیں گی۔
میں جانتی ہوں، ایک دن آئے گا جب بیت المقدس آزاد ہوگا، جب میری بیٹی کی
قبر پر زیتون کے پتے گریں گے، جب میرے بیٹے کے لہو کی خوشبو ہوا میں گونجے
گی، جب تو ہمیں کامیابی کی نوید دے گا۔
تب تک، میرے اللہ! میں تیری بندی تجھ سے بس اتنا مانگتی ہوں، ہمیں مضبوط
رکھ، ہمیں گراں مت ہونے دے، ہمیں اپنے قرب میں جگہ دے۔ کیونکہ میرے پاس اب
کچھ نہیں، سوائے تیرے۔ اور تُو ہی سب کچھ ہے۔ تُو ہی مددگار ہے، تُو ہی
محافظ ہے، تُو ہی ناصر ہے۔ تُو ہی وہ ہے جس کی ایک کن سے سب کچھ بدل جاتا
ہے۔ تو بدل دے، اے ربّ، تو بدل دے ہمارے حالات، تو بدل دے یہ سسکیاں، یہ
قبریں، یہ اندھیرے۔ ہمیں وہ صبح دے جس کا سورج تیرے نور سے روشن ہو۔ اور جب
وہ دن آئے، یا اللہ! تو ہمیں اپنی شکر گزار بندیاں بنا دے۔ ہمیں یاد رہے کہ
یہ سب تیری عنایت تھی۔ لیکن جب تک وہ دن نہیں آتا، ہمیں ہمت دے، استقامت
دے، اور یہ حوصلہ دے کہ ہم تیری رضا پر راضی رہیں۔ آمین۔
|