بجلی سستی مگر سلیب سسٹم کا جال باقی!

حالیہ دنوں میں بجلی کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی خوشخبری نے مہنگائی کے مارے عوام کو وقتی سکون ضرور دیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے گھریلو صارفین کے لیے فی یونٹ نرخ میں 7.41 روپے اور صنعتی صارفین کے لیے 7.59 روپے کمی کا اعلان کیا ہے۔ نیپرا نے بھی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے تحت 1.90 روپے فی یونٹ کمی کی منظوری دی ہے۔ یہ اقدامات قابل تحسین ہیں، مگر اصل مسئلہ وہی پرانا سلیب سسٹم ہے، جو عوام کے ریلیف کو محدود کر دیتا ہے بجلی کے صارفین کو ''پروٹیکٹیڈ'' اور ''ان پروٹیکٹیڈ'' کی دو کیٹیگریز میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ پروٹیکٹیڈ صارف وہ ہیں جن کا ماہانہ بجلی کا استعمال 200 یونٹس سے کم ہو، اور مسلسل چھ ماہ تک وہ اسی حد میں رہیں۔ ان کو نسبتاً سستی بجلی ملتی ہے۔ لیکن اگر کوئی صارف ایک مہینے کے لیے بھی 200 یونٹس سے تجاوز کر لے، تو وہ ان پروٹیکٹیڈ میں چلا جاتا ہے اور اسے فی یونٹ کئی گنا زیادہ ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ یہ نظام بظاہر انصاف پر مبنی لگتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ غریب صارفین معمولی اضافے کے باعث اس ''محفوظ زون'' سے نکل کر مہنگے نرخوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں ایک پنکھا، دو بلب، اور ایک فریج استعمال کرنے والا بھی 200 یونٹس سے تجاوز کر سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سلیب سسٹم کو مکمل طور پر ختم کیا جائے اور پورے ملک میں تمام صارفین کے لیے ایک ہی فی یونٹ نرخ مقرر کیا جائے۔ بجلی ایک بنیادی ضرورت ہے، اور اس پر امیر و غریب کا امتیاز کسی صورت قبول نہیں۔ ایک عام شہری سے لے کر کاروباری طبقے تک، سب کو ایک ہی قیمت پر بجلی فراہم کر کے ہی حقیقی ریلیف دیا جا سکتا ہے اور صرف یہی نہیں، بلکہ سلیب سسٹم کے نام پر عوام سے جو اضافی رقوم وصول کی گئیں، وہ رقم واپس کی جائے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا استحصالی نظام ہے جس نے غریب طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ: سلیب سسٹم ختم کرے، ایک جیسا نرخ سب کے لیے لاگو کرے اور ماضی میں لوٹے گئے پیسے واپس کرے۔ بجلی کی قیمت میں کمی کا فائدہ صرف تبھی حقیقی ہوگا، جب اس کا اثر ہر طبقے پر یکساں ہو۔ ورنہ یہ ریلیف بھی محض کاغذی اعلان بن کر رہ جائے گا۔
 

Faisal Nadeem
About the Author: Faisal Nadeem Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.