عشق ایک بُری بلا ہے

عشق ایک بُری بلا ہے، ہاں واقعی۔ جس دن سے یہ دل اُس کے نام ہوا ہے، جو کبھی سامنے نہیں آئی، کبھی کوئی بات نہیں کی، کبھی کوئی وعدہ نہیں دیا، زندگی جیسے رُک گئی ہے۔ میں ہنستا ہوں تو وہ ہنسی مصنوعی لگتی ہے، میں سوتا ہوں تو نیند نہیں آتی، میں جیتا ہوں تو لگتا ہے جیسے مر رہا ہوں۔ نہ اُس کا نام زبان پر لا سکتا ہوں، نہ اُس کا خیال دل سے نکال سکتا ہوں۔

عشق کی یہ بُری بلا جب دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، تو نہ کوئی رات سکون دیتی ہے، نہ دن قرار بخشتا ہے۔ ساری دنیا ایک شور بن جاتی ہے، اور بس وہ ایک چُپ سی تصویر دل میں زندہ رہتی ہے۔ ایک ایسا چہرہ جسے کبھی دیکھا نہیں، مگر اُس کی غیر موجودگی سب سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ جیسے ہوا میں کچھ کمی ہو، جیسے زندگی میں کوئی خلا ہو جو بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

عجیب سا دکھ ہے، نہ کہہ سکتا ہوں، نہ سہہ سکتا ہوں۔ بس ایک خاموشی ہے جو اندر چیختی ہے، ایک تمنا ہے جو پل پل گھٹتی ہے، ایک خواہش ہے جو دل کو چیر کے رکھ دیتی ہے۔ میں کسی خواب میں نہیں، ایک زہریلی حقیقت میں جیتا ہوں، جہاں صرف ایک ہی چہرہ ہے، جو کبھی دیکھا ہی نہیں۔ ہاں، وہ اندیکھی ہے، مگر میرے دل میں اُس کا عکس کسی دیوار پر پڑی روشنی کی طرح اُتر چکا ہے۔ ایک ایسی روشنی جو نہ پوری طرح روشن کرتی ہے، نہ بجھتی ہے، بس جلاتی رہتی ہے۔

میں اکثر راتوں کو جاگتا ہوں، بےوجہ۔ کچھ تلاش کرتا ہوں، شاید کوئی اشارہ، کوئی خاموشی، کوئی سایہ، جو مجھے اُس کے قریب لے جائے۔ کبھی دل چاہتا ہے کہ کوئی معجزہ ہو، وہ آ جائے، بس ایک بار، خاموشی سے بیٹھ جائے میرے سامنے، اور میں اُسے دیکھتا رہوں۔ کچھ نہ بولوں، کچھ نہ سنوں، بس اپنی آنکھوں سے وہ سب کہہ دوں جو برسوں سے دل میں قید ہے۔ لیکن یہ صرف خواب ہیں، وہ بھی ٹوٹے ہوئے۔ اور یہ خواب ہی میری زندگی کا سب سے بڑا عذاب بن چکے ہیں۔ میں اُن خوابوں سے محبت کرتا ہوں جو مجھے تیری طرف لے جاتے ہیں، اور انہی خوابوں سے نفرت کرتا ہوں جو مجھے جاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں — اور جب میں جاگتا ہوں، تو تیری عدم موجودگی کا احساس میرے جسم پر کسی زخم کی طرح تازہ ہوتا ہے۔

میں اُسے جانتا بھی نہیں، مگر جان دینے کو تیار ہوں۔ وہ کون ہے، کہاں ہے، کس حال میں ہے، خوش ہے یا اداس، کسی اور کے ساتھ ہے یا تنہا — کچھ نہیں معلوم۔ بس دل میں وہی ہے۔ اور یہ جان لینا کہ وہ کبھی میرا نہیں ہو سکتا، وہ مجھے جانتا تک نہیں — یہی وہ آگ ہے جو ہر لمحہ مجھے جلاتی ہے۔

میں اکثر سوچتا ہوں، آخر کیوں؟ کیوں اُس کی ایک جھلک، ایک خیال، ایک تصور میری دنیا بدل گیا؟ کیوں میں اتنا کمزور ہو گیا؟ میں تو وہ تھا جو اپنی زندگی کی باگ خود سنبھالتا تھا، اپنے فیصلے خود کرتا تھا، اپنے خواب خود بُنتا تھا۔ مگر اب؟ اب ہر بات سے پہلے، ہر سوچ کے بیچ، ہر لمحے کے بعد بس وہی چہرہ آتا ہے، جسے میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں۔

ایک بار سوچا کہ سب چھوڑ دوں۔ لکھنا، سونا، جینا… سب کچھ۔ لیکن کیسے چھوڑ دوں؟ تُو تو میری سانسوں میں گھل چکی ہے۔ یہ یکطرفہ محبت، جو کبھی سرگوشی بھی نہ بن سکی، اب میری شناخت بن چکی ہے۔ میں لوگوں سے مسکراتا ہوا ملتا ہوں، لیکن ہر مسکراہٹ کے پیچھے ایک خالی پن چھپا ہوتا ہے۔ اور ہر تنہائی میں تیرا خیال میرے اندر کی دیواروں سے سر ٹکراتا ہے۔

دل میں ایک خوف بیٹھ گیا ہے — کہ کہیں وہ ہمیشہ کے لیے دور نہ ہو جائے، کہ کہیں میرا یہ جذبہ صرف میرا ہی رہ جائے۔ میں اُسے پکارنا چاہتا ہوں، چیخ کر کہنا چاہتا ہوں کہ سنو! میں تمہیں چاہتا ہوں، تمہیں اپنی زندگی سے بھی زیادہ۔ مگر میرے لفظوں کی زبان نہیں، میری خاموشی کی صدا نہیں۔ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں، وہ بس اس دل میں قید ہے، جیسے کوئی قیدی جو عمر بھر کے لیے زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہو۔

کیا تم نے کبھی کسی کے لیے دل سے رونا سیکھا ہے؟ ایسا رونا جو آنکھوں سے نہیں، روح سے ہوتا ہے؟ جو چیخ بن کر بھی خاموشی میں لپٹا ہوتا ہے؟ میں ہر رات ایسا ہی روتا ہوں۔ خود کو ٹٹولتا ہوں، کہ شاید میں غلط ہوں، شاید یہ سب وہم ہے، شاید کوئی اور راستہ ہے۔ لیکن ہر راستہ تیرے تصور تک آ کر رُک جاتا ہے۔ میں چاہ کر بھی تجھ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔

کبھی کبھی لگتا ہے کہ یہ عشق کوئی خوبصورت جذبہ نہیں، یہ تو ایک سزا ہے۔ ایسی سزا جس کا نہ آغاز میرے ہاتھ میں تھا، نہ انجام میرے اختیار میں ہے۔ میں بس جھلس رہا ہوں، ایک ایسے الاؤ میں جو میں نے خود جلایا، مگر بجھانا میرے بس میں نہیں۔ اور سب سے بڑی بات، یہ عشق یکطرفہ ہے۔ نہ وہ جانتی ہے، نہ وہ محسوس کرتی ہے، نہ شاید کبھی کرے گی۔ پھر بھی، میں دن رات اُس کے خیال میں ڈوبا رہتا ہوں۔ وہ میری سوچوں میں ہے، میرے خوابوں میں ہے، میری تنہائیوں میں، میری دعاؤں میں — ہر جگہ وہی۔

کبھی کبھی دل کہتا ہے، اگر تُو مجھے مل جائے تو شاید میں جی اٹھوں، شاید میری ٹوٹی ہوئی دنیا پھر سے آباد ہو جائے۔ لیکن پھر حقیقت تھپڑ مار کر جگا دیتی ہے — کہ عشق ہمیشہ وصال کا نام نہیں ہوتا، بعض اوقات یہ بس ایک ایسی آزمائش ہوتا ہے جو عمر بھر تمہیں گھُلانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

میں نے بہت چاہا کہ تجھے بھلا دوں۔ خود کو اس دلدل سے نکال لوں، مگر دل کسی قیدی کی طرح اُس ایک لمحے میں بند ہو چکا ہے جب پہلی بار تیرے خیال نے اُسے چھوا تھا۔ اور وہ لمحہ، وہ چھو جانے والا لمحہ، آج تک چھوڑنے کا نام نہیں لیتا۔ میں شاید چاہت میں کامیاب نہیں، مگر عشق میں سچّا ہوں۔ اور یہی سچائی مجھے ہر لمحہ جلاتی ہے۔

یہ عجیب سی کیفیت ہے۔ دل چاہتا ہے کہ کسی دن وہ سب کچھ پڑھ لے جو میں لکھتا ہوں۔ یہ تحریر، یہ فریاد، یہ جذبہ، یہ اذیت۔ مگر پھر خیال آتا ہے، اگر اُس نے پڑھ لیا، اور کچھ محسوس نہ کیا؟ اگر اُس نے ہنسی میں اُڑا دیا؟ اگر اُس نے میری سچائی کو بوجھ سمجھا؟ تب میں کیا کروں گا؟ شاید اُس دن میں ٹوٹ جاؤں، مکمل طور پر۔ شاید اُس دن میں اپنی بچی کچی سانسیں بھی گننا چھوڑ دوں۔ اور پھر ایک سوال میرے اندر گونجتا ہے: کیا میں اسے چھوڑ نہیں سکتا؟ کیا میں اس درد سے نکل نہیں سکتا؟ اور دل ہنس کر کہتا ہے، نہیں۔ کیونکہ یہ عشق صرف خواہش نہیں، یہ تو تمہارا حصہ بن چکا ہے۔ یہ وہ راز ہے جسے دنیا نہیں سمجھے گی۔ یہ وہ دیوانگی ہے جو لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتی۔ اور یہی وہ بُری بلا ہے جس میں پڑ کر نہ جینے کی تمنا باقی رہتی ہے، نہ مرنے کا حوصلہ۔

کبھی کبھی بس دل چاہتا ہے کہ چیخ چیخ کر روؤں، خود سے نکل کر اُس تک پہنچ جاؤں، اُسے کہوں، بس ایک بار سن لو، ایک بار سمجھ لو کہ میں کیا جھیل رہا ہوں۔ مگر وہ دُور ہے، بے خبر ہے، بے نیاز ہے۔ اور میں، یہاں، بے بس ہوں۔ لکھ کر ہی سہی، یہ بوجھ ہلکا کر رہا ہوں، شاید یہ تحریر میرے درد کا کچھ حصہ جذب کر لے، شاید ان الفاظ میں میری فریاد گم ہو جائے، اور شاید... شاید کوئی دن ایسا بھی آئے جب وہ جانے، سمجھے، اور ایک لمحے کو ٹھہر کر بس یہ کہہ دے، "مجھے تمہارا درد سنائی دیتا ہے"۔ لیکن تب تک، میں لکھتا رہوں گا، جلتا رہوں گا، جیتے جیتے مرتا رہوں گا۔ کیونکہ عشق، واقعی، ایک بُری بلا ہے۔

اب تو دل بس ایک دعا مانگتا ہے — یا رب، اگر یہ عشق میری تقدیر میں نہیں، تو تُو مجھے وہ ہمت دے کہ میں اِسے خُدا کے حوالے کر سکوں۔ اور اگر تُو نے میری چاہت کو لکھا ہے، تو کوئی راہ نکال، کوئی سبب بنا، کوئی کرم فرما۔ مگر تب تک، میں لکھتا رہوں گا۔ اپنی خاموشی کو لفظوں میں ڈھالتا رہوں گا، شاید کہ کسی دن وہی الفاظ میری صدا بن جائیں، اور وہ اندیکھی، بے خبر، بے پرواہ ہستی… کبھی کسی لمحے، ان لفظوں کے پیچھے میری تڑپ سن لے۔
کیونکہ، ہاں… عشق ایک بُری بلا ہے۔
اور میں، اُس بلا کا مارا ہوا ایک سادہ سا انسان ہوں۔

 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 11 Articles with 4087 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.