زندگی کا تلخابہ شیریں

یہ جہاں رنگینیوں،دلکشیوں اور نوع بہ نوع ہر لمحہ، ہر لحظہ اور ہر آن بدلتے عیش و نشاط اور رونگٹے کھڑے کر دینے والے عبرتناک المیوں کے بدلتے مناظر کی ایک نہ ختم ہونے والی فلم ہے جو میری بھی ہے اور آپ کی بھی…انسان کی اوسط 61برس کے دوران زندگی کے میٹھے،شیریں اور دلکش و حسین طربیوں اور لہو و خاک میں تلخابوں کو بتانے کے باوجودہم اس جہاں کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے، اس لئے کے انسان بنیادی طور پر وہ حیوان ناطق ہے جسے کسی لمحے قرار ہے نہ سکون،آئیے کچھ حقیقتوں کی طرف بڑھتے ہیں۔

نیو یارک کے ایک کافی ہاؤس میں ایک عرب شہزادے نے کافی منگوائی، اُس نے اس کے دو سپ لئے اور ویٹر کو بلا کر بل لانے کو کہا،ویٹر ایک لڑکی تھی، وہ دوڑ کر کائونٹر پر گئی ،بل لا کر شہزادے کے سامنے رکھا ۔شہزادے نے اپنی جیب سے قلم نکال، چند ڈالر بل پر رکھے ،ویٹر کی طرف دیکھا ، پھر اس نے اپنی پاکٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا ،چیک بک نکالی اور قیمتی قلم سے چیک بھرا اورویٹر لڑکی کے ہاتھ میں تھما دیااور کافی ہاؤس سے باہر نکلنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا،…مگر…ویٹر لڑکی کی چیک پر نظر پڑتے ہی اس کے اوسان خطا ہو گئے،ٹرے ہوا میں اچھلی اور وہ دھڑام سے فرش پر گر گئی،کائونٹر منیجر دوڑتا ہوا آیا ، اس کے چہرے پر چھینٹے مارے تو اس نے آنکھیں کھولیں، وہ پھٹی پھٹی نظروں سے کبھی چیک کو دیکھتی اور کبھی اپنے دیگر کولیگ اور کائونٹر منیجر کو،چیک پر شہزادے کے دستخطوں کے ساتھ دو بلین ڈالر کی رقم بھری ہوئی تھی جو آج اسے مفلس،فاقہ زدہ،سائنس اور ٹیکنالوجی میں پسماندہ ترین خطہ کے عرب شہزادے نے ٹپ کے طور پر دنیا کی واحد سپر پاور کے فنانشیئل ڈسٹرک میں واقع کافی ہائوس کی ایک واجبی سی خد و خال والی ویٹر کو پیش کیا تھا۔

احمد الحسن بغداد کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر تھا، روز و شب دھماکوں ،امریکی حملوں اور شہر میں قتل و غارت گری کے ستائے زخمیوں کی مرہم پٹی گزشتہ24 گھنٹوں سے کر رہا تھا،ہسپتال انتظامیہ نے اس کی بند ہوتی آنکھوں اور تھکے جسم کو دیکھ کر اسے گھرجانے کی اجازت دی،گھر پہنچا تو اہلیہ رمزی الغادری اور ان کے ایک شیر خوار کلکاریاں لیتے بے بی سمیت دو دیگر معصوم بچوں نے اس کا استقبال کیا،وہ بوجھل جسم کے ساتھ فریش ہونے کیلئے واش روم کی طرف بڑھا،واپس آیا تو کھانا لگا ہوا تھا ،بچے اور اہلیہ اس کے منتظر تھے، ڈاکٹر احمد الحسن کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے ابھی پانچ منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ طیاروں کی گڑگڑاہٹ ہوئی اور پھر زلزلہ آگیااور کچھ نہ رہا،دوسرے دن تین بچوں اور ڈاکٹر احمد حسن کی لاشیں ملبے سے نکالی جا رہی تھیں،رمزی الغادری کو بھی نکالا گیا وہ بھی زخموں سے چور تھی ، وہ اپنا ہاتھ بڑھا کر اپنے تین بچوں اور خدائے مجاز کے بے روح جسم کو چھو رہی تھی،، اس کا کچھ بھی نہیں بچا تھا، وہ زندہ نہیں رہنا چاہتی تھی مگر موت بھی اس سے روٹھ گئی تھی، وہ 12 سال بعد آج بھی زندہ ہے اور عراق کے بغداد میں واقع لاوارثوں کے ایک ادارہ میں زندگی کے دن پورے کر رہی ہے۔

زندگی میں خواہ کتنی بڑی کامیابی ملے اور اس کی بے پایاں مسرتیں بھی حاصل ہوں،کتنا بڑا غم قدرت نے اس کے مقدر میں لکھ دیا ہو، احساس زیاں کا ایک کوہ گراں سر پر گر پڑے، اگر زندگی ہے تو اسے بتانا ہی پڑتا ہے۔ہمیشہ زندگی دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے،تلخ و شیریں،امید و یاس،کامرانی و ناکامی اور خوشی و غمی،یہ علیحدہ بات ہے کہ ان پہلوئوں میں کوئی زندگی میں پہلے آتا ہے اور کوئی بعد میں،مگر آتا ضرور ہے۔سیانوں کی دعا ہے کہ ا للہ بڑھاپے میں مفلسی سے بچائے مگر خدا نے ہمیں زندگی دے کر کچھ باتیں ہمارے ہاتھ میں بھی دیدی ہیں،بچے کی تعلیم و تربیت اور اسے پریکٹیکل زندگی کے لئے تیار کرنے ،اسے زندگی کے تلخ و شیریں سے نمٹنے کے لئے ہر آن تیار رہنے کے لئے جذبہ کی عطائیگی والدین کی ذمہ داری ہے،نیو یارک کے کافی ہاؤس کی معمولی خد و خال کی ویٹر نے کبھی زندگی میں سوچا تھا کہ وہ دو ملین ڈالر کی مالکن بن سکے گی…؟بغداد کے تڑپتے مریضوں کی مرہم پٹی کرنے والے ڈاکٹر احمد حسن کو پتا تھا کہ وہ گھر پہنچتے ہی راہ عدم کا مسافر بن جائے گا اور بیچاری رمزی الغادری زندگی کے اس تپتے صحرا میں غموں کا منوں ٹنوں بوجھ اٹھائے اپنی زندگی کے باقی ایام بتانے پر مجبور ہو جائیگی،اسی کا نام تقدیر ہے اور اور انسان کے خالق نے سات آسمانون سے بھی اوپر اس کی یہ تقدیر لکھ کر محفوظ کر لی ہے۔

کوئی کامیاب ڈاکٹر،انجینئر،صحافی،بیرسٹر،ماہرمعاشیات،وسماجیات و نفسیات بلکہ دوسروں کی تقدیر لکھنے والا صاحب اقتدار بھی کبھی اپنی زندگی کے حاصل سے مطمئن نہیں ہوتا۔اس کی تین چوتھائی زندگی کا خوشیوں، مسرتوں اور کامیابیوں سے بھر پور حصہ ہونے کے باوجودایک چوتھائی زندگی کی تلخیوں، ناکامیوں کی حقیقتوں سے لبا لب بھرا ہوتا ہے،یہ یادیں زندگی بھر ایک کامیاب اور مسرتوں سے لبریز انسان کے ضمیر اور من کو کچوکے لگاتی رہتی ہیں۔زندگی ضرور پریکٹیکل ہونی چائیے مگر اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے تلخ اور شیریں حقائق کو بھی فراموش نہیں کرنا چائیے،جس طرح ہر وجود کا کوئی نہ کوئی نام،ہر خطہ کا کوئی نہ کوئی حاکم اور ہر موجودات کا کوئی نہ کوئی خالق ہوتا ہے اسی طرح ہر تاریکی کی کوئی نہ کوئی روشن صبح،ہر ناکامی کی مسترت بھری کامرانی، ہر نا اُمیدی اور یاس کی آخری سانس تک امیداور ہر انتقال کے بعد دوبارہ جی اٹھنا ہے۔اسی طرح برے حالات بھی سدا نہیں رہتے۔زندگی کے دورانیہ میں انسان قدرت کی محض ایک خوبصورت تخلیق ہے،وہ اس پر شام و سحر، دن رات اور ماہ و سال کے انقلابات کو پھیرتا رہتا ہے،یہی تو انسانی زندگی حسن ہے کہ روتا ہوا انسان دوسرے لمحے قہقہے بکھیرتا نظر آتا ہے، انسانوں کے جسم پر حکمرانی کرنے والے فرعون بھی نیل کے پانیوں میں ڈبکی لگاتے دیکھے ہیں اور ٹوٹے ہوئے بادبانی جہاز کے سمندر کے ٹھنڈے پانیوں میں ایک ٹوٹے تختے پر مُردہ ماں کے ساتھ لپٹے اس نوزائیدہ بچے کو بھی دیکھا ہے جو بعد میں خدا بن بیٹھا تھا اور اس نے اس زمین پر حقیقی جنت اور دوزخ بھی بنائی تھی اور انسانوں کی زندگی اور موت کے فیصلے بھی کیا کرتا تھا۔

پاکستانیوں نے من حیث القوم اپنی 64 سالہ تاریخ میں جواں مردی اور عالی ہمتی سے بڑے صدمے برداشت کئے ہیں،آٹھ اکتوبر 2005ء کے خوفناک زلزلہ میں آدھا پاکستان ملبے کا ڈھیر بن گیا تھا، بیوگان، یتیموں،اور اس قدرتی آفت سے لُٹنے والے زرد چہرے دیکھنے والوں کے دل بھی چیر دیتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے حوصلہ دیا اور اسی ملبہ کے ڈھیر پر مظفر آباد،راولا کوٹ،بالا کوٹ اور کئی دیگر نئے شہرنئی آب و تاب کے ساتھ وجود میں آ چکے ہیں اور چھ سال پہلے کے زرد چہرے اب سرخ چہروں میں بدل چکے ہیں۔سندھ میں آنے والے سیالاب نے بھی کرب و اندوہ کی نئی المیہ تاریخ رقم کی ہے مگر یہ دن بھی بیت جائیں گے…کیونکہ یہ قانون قدرت ہے کہ تلخیوں کے بعد مسرتیں انسان کے گلے میں بانہیں ڈال کر اُسے مسرت و شادمانی کے گیت پر رقص کرنے پر مجبور کر دیاکرتی ہیں…کیونکہ یہ بھی زندگی کی حقیقت ہے اور اس کا حسن بھی۔
Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 64869 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More