کرنسی نوٹوں کی حرمت ، مجرا مراسیوں کے ہاتھوں پائمال

گزشتہ ہفتے دو ایسی وڈیوز نظر سے گزریں جن میں ملکی کرنسی کی بیحرمتی کے سب اگلے پچھلے ریکارڈ ٹوٹے ہوئے تھے ۔ ایک وڈیو میں کوئی شخص سفید کاٹن کی شلوار قمیص میں ملبوس گلے میں بہت سے ہار ڈالے ہوئے اور پیروں میں نئے سیاہ رنگ کے جوتے پہنے ہوئے اپنے حالیوں موالیوں کے جلو میں خراماں خراماں چلا آ رہا ہے ۔ اور ایک خوشامدی پیدائشی چمچہ اس کے قدموں تلے ہزار ہزار کے نوٹ رکھتا جارہا ہے سامنے والے قائد اعظم کی تصویر والے رخ سے ، اور وہ شخص اُنہیں اپنے جوتوں تلے روندتا ہوا گزر رہا ہے ۔

دوسری وڈیو میں کسی شادی کی ڈھولکی نائٹ وغیرہ کا منظر ہے دولہے کے ساتھ اس کا ایک دوست کھڑا ہے جو دونوں بازوؤں سے محروم ہے مگر دل وفور مسرت سے معمور ہے لہٰذا وہ کرنسی نوٹ اپنے ایک پیر کے پنجے میں پھنسا کے اپنے دولہا دوست پر نچھاور کر کے اپنی محبت کا اظہار کر رہا ہے ۔

بات صرف یہی نہیں ہے کہ ملکی کرنسی پر اس کے ملک کا نام تحریر ہوتا ہے اور بانیء پاکستان کی تصویر ہوتی ہے اور پچھلی طرف کسی اہم عمارت یا مقام مقدسہ کا عکس ۔ کرنسی نوٹ پر سٹیٹ بنک کے گورنر کے دستخط بھی ہوتے ہیں جو عموماً اسلامی ناموں پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان میں محمد ، احمد اور حسین بھی شامل ہیں ۔ تین برس قبل ایک سری لنکن شہری کو دین کی دال سے بھی کوسوں دور مگر نام نہاد غیرتِ ایمانی سے چُور جاہل مشتعل ہجوم نے انتہائی بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اس کی لاش کو بھی نذر آتش کر دیا تھا ۔ اُس پر کیا الزام تھا؟ یہی نا کہ اُس نے بطور ایک ذمہ دار ملازم اپنی فیکٹری کی ایک مشین پر لگا ہوا سٹیکر اتار دیا تھا جس پر اہل بیت کے نام سے ایک مذہبی نعرہ درج تھا ۔ تو پاکستانی کرنسی نوٹوں پر بھی تو اسلامی نام تحریر ہوتے ہیں قائد اعظم اور کسی مسجد کی تصویر ہوتی ہے تو کیا اُن پر جوتا رکھ دینا جائز ہے؟ تب کسی کو غیرت آتی ہے نہ شرم ۔

یہ قوم جو توہین مذہب کے نام پر بغیر کسی تصدیق اور ثبوت کے ریاست اور اقلیتوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر تل جاتی ہے مگر ہر سال جشن عید میلاد النبی ﷺ منا لینے کے بعد کلمہ درود اور اسم محمد ﷺ سے مزین جھنڈیوں اور بینروں کو نوچ کھسوٹ کر کچرا کنڈیوں میں پھینک دینے میں اسے کوئی توہین کوئی بیحرمتی نظر نہیں آتی ، جشن آزادی کی آرائشی جھنڈیوں اور قومی پرچم کی تو پھر اوقات ہی کیا؟ آج تک اس جہالت اور بے حسی سے سختی کے ساتھ نمٹنے کے لئے نہیں سوچا گیا ۔

یہ جہالت و فرعونیت ، انسانی اقدار و اخلاقیات کی پامالی ہی نہیں لاقانونیت کا بھی ایک کُھلا ثبوت ہے ۔ اس کے سد باب کے لئے کوئی ضابطہ ہے نہ آئینی شق ۔ آخر ملکی کرنسی کی اس قدر بیحرمتی کی بیخ کنی کے لئے کوئی قانون کیوں نہیں وضع کیا جاتا؟ کرنسی نوٹوں کو کنجروں کے پیروں میں پھینکنا اور اُنہیں جوتوں تلے روندنا ایک قابل تعزیر جرم کیوں نہیں قرار دیا جاتا؟ مجرا محفلوں میں برپا کی جانے والی اس بیہودگی کا نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا؟ یہ بھی تو ایک لعنت ہے جسے کچھ جاہلوں نے ثقافت کا حصہ بنا دیا ہے کوئی انہیں لگام ڈالنے والا نہیں ۔ ہے کوئی مرد مجاہد جو اس لعنتی رسم کو جڑ سے ختم کرے اور تاریخ میں اپنا نام لکھوائے ۔
 

رعنا تبسم پاشا
About the Author: رعنا تبسم پاشا Read More Articles by رعنا تبسم پاشا: 245 Articles with 1958255 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.