کراچی، جو کبھی علم، ادب اور تہذیب کا گہوارہ سمجھا جاتا
تھا، آج کل ایک منفرد تبدیلی سے گزر رہا ہے۔ ماضی میں جہاں ہر بڑے چوراہے
یا فٹ پاتھ پر کتابوں کے اسٹالز نظر آتے تھے، آج وہاں فوڈ کارنرز، چنا چاٹ،
فرائز، برگر، اور چائے کے ہوٹل نظر آتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر
کتابوں کے اسٹال کیوں بند ہو رہے ہیں اور فوڈ اسٹال کیوں بڑھ رہے ہیں؟
1. مطالعے کا کم ہوتا رجحان
نوجوان نسل کی توجہ سوشل میڈیا اور موبائل اسکرینز پر زیادہ ہو گئی ہے۔
کتابوں کی جگہ ویڈیوز، گیمز اور مختصر تفریح نے لے لی ہے۔
2. مہنگائی اور بنیادی ضروریات
عام آدمی کے پاس بنیادی ضروریات پوری کرنے کے بعد مطالعے کے لیے نہ وقت
بچتا ہے نہ بجٹ۔
3. کاروباری منافع اور ترجیح
کھانے پینے کا کاروبار جلد منافع دیتا ہے، کتابوں کا نہیں۔
کتاب فروش بھی گزر بسر کے لیے اب کھانے کے اسٹالز لگانے لگے ہیں۔
4. تعلیمی نظام میں کتاب بینی کا فقدان
اسکولوں اور کالجوں میں لائبریری کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے۔
صرف نصابی کتابوں پر زور ہے، غیر نصابی کتب کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
5. جگہ کا کرایہ اور فٹ پاتھ سے ہٹایا جانا
کئی کتاب فروش اسٹالز حکومت کی کارروائیوں کی وجہ سے ہٹا دیے گئے۔
ان کی جگہ عارضی فوڈ اسٹالز نے لے لی۔
6. فوری فائدے کی ذہنیت
مطالعہ وقت لیتا ہے، لیکن کھانے کا مزہ فوری ہوتا ہے۔
معاشرہ صبر کے بجائے فوری فائدہ چاہتا ہے۔
7. کیا یہ رجحان صرف کراچی تک محدود ہے؟
نہیں، یہ مسئلہ پورے پاکستان اور حتیٰ کہ دنیا بھر میں بھی دیکھنے کو مل
رہا ہے۔
کتابوں کی جگہ فوڈ کلچر نے لے لی ہے، لیکن ترقی یافتہ ممالک اس کے ساتھ
ڈیجیٹل ریڈنگ کو فروغ دے رہے ہیں۔
8. حل (Remedy): کتاب کلچر کی بحالی کیسے ممکن ہے؟
1. اسکول اور کالج کی سطح پر لائبریری کلچر کو بحال کیا جائے:
ہر ادارے میں لازمی لائبریری ہو، اور طلبہ کو غیر نصابی کتب پڑھنے کی ترغیب
دی جائے۔
2. حکومت اور بلدیاتی ادارے رعایتی اسٹالز فراہم کریں:
فٹ پاتھ یا مارکیٹوں میں کتابوں کے اسٹالز کے لیے مخصوص جگہیں فراہم کی
جائیں۔
3. سستی کتاب میلے اور موبائل لائبریریوں کا انعقاد:
ہر شہر میں سالانہ یا ششماہی کتاب میلے لگائے جائیں جہاں عوام کو کم قیمت
پر کتابیں دستیاب ہوں۔
4. سوشل میڈیا پر مطالعے کی مہمات:
یوٹیوب، فیس بک اور انسٹاگرام پر "کتاب دوست" مہم چلائی جائے۔
مختصر ویڈیوز کے ذریعے نوجوانوں کو مطالعے کی طرف راغب کیا جائے۔
5. ڈیجیٹل ریڈنگ ایپس اور آن لائن لائبریریوں کی ترویج:
اردو اور دیگر زبانوں کی کتب ایپلیکیشنز میں مفت دستیاب ہوں۔
اسکول و کالج طلبہ کو eBooks سے آشنا کیا جائے۔
6. کھانے کے اسٹالز کے ساتھ کتاب کا گوشہ:
موجودہ فوڈ اسٹالز یا کیفے اگر ایک چھوٹا سا "کتاب کارنر" رکھ لیں تو
مطالعے کا رجحان بڑھایا جا سکتا ہے۔
نتیجہ
کتاب صرف مطالعے کا ذریعہ نہیں بلکہ معاشرتی شعور، تہذیب اور ترقی کی کنجی
ہے۔ کراچی ہو یا پاکستان کا کوئی اور شہر، ہمیں کتابوں کی واپسی کے لیے
باقاعدہ منصوبہ بندی، شعور اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ صرف پیٹ کا نہیں بلکہ علم، شعور اور
تہذیب کا بھی نمائندہ ہو، تو ہمیں کتابوں کو دوبارہ فٹ پاتھ، اسکول، کیفے
اور گھروں میں واپس لانا ہوگا۔
|