زندگی صرف عید یا صرف روزوں کا نام نہیں ہوتی مگر کچھ
لوگوں کا یہی مقدر ہوتا ہے ۔ یہ لوگ نکاح یافتہ ہو جاتے ہیں پھر زوجین ندی
کے دو کنارے بن کر رہ جاتے ہیں کہ ساتھ ساتھ چل رہے ہیں پھر بھی تنہا ہیں
ایکدوسرے سے دور اور جدا ہیں ۔ نئی نویلی دلہن کا شوہر چند ہی روز بعد
بارڈر پر چلا جاتا ہے یا سمندر پار ، اور کئی کئی سال تک واپس نہیں آتا ۔
نو بیاہتا جوڑے کا پورا پرائم یوتھ تنہائی اور جدائی کی اذیتیں جھیلتے ہوئے
گزر جاتا ہے ۔
شادی کے بعد اگر عملی زندگی نہیں گزارنی ہے اس کے حقیقی تقاضے پورے نہیں
کرنے ہیں پوری جوانی الگ تھلگ ہی رہ کر گزارنی ہے تو نکاح کا کوئی جواز
نہیں ۔ شادی کے بعد اگر زندگی شوہر کی بجائے اُس کے ماں باپ اور بہن
بھائیوں کے ساتھ بسر کرنی ہے اپنی توانائیاں اُنہی کو راضی رکھنے میں صرف
کرنی ہیں تو پھر خود اپنے ماں باپ اور بہن بھائی کیا بُرے ہیں لڑکی اُنہی
کے ساتھ نہ رہ لے؟ جس کے لئے سب کچھ چھوڑ کر آتی ہے وہی چھوڑ کر چلا جائے
تو نا محرم رشتوں کے درمیان رہنا آسان نہیں ہوتا یہ کتنا بڑا امتحان ہوتا
ہے ایک طرفہ تماشا کہ جو محرم و محافظ ہے وہی موجود نہیں ہے ۔ شریعت میں
صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی شخص بیوی کے بنیادی حقوق ادا کرنے
سے قاصر ہو تو نکاح سے گریز کرے روزے رکھے ۔ مگر پھر بھی لوگ شادی کر لیتے
ہیں کیونکہ انہیں کوئی اپنی بیٹی دے دیتا ہے ۔ کسی غریب مقامی محنت کش کو
رشتہ نہیں دیتا مگر شوہر کے بغیر سسرال والوں کی باندی بن کر رہنے کے لئے
اوور سیز کو بیٹی دے دی جاتی ہے ۔ شادی شدہ ہونے کا ٹھپہ لگ جانا ہی کافی
سمجھا جاتا ہے ایک نام نہاد سہاگن روز جیتی ہے روز مرتی ہے یہ کوئی نہیں
سمجھتا ۔
ابھی تو ہر طرف نالائق حکومتوں نااہل خائن چور حکمرانوں ہوشربا مہنگائی
ناکام معیشت معاشی زبوں حالی بیروزگاری کا نوحہ پڑھا جا رہا ہے کہ لوگ روزی
روٹی کے لئے بیرون ملک نہ جائیں تو اور کیا کریں؟ یہ اپنی جانوں تک کو خطرے
میں ڈال کر یورپی ممالک کو پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مگر بہتر روزگار کی
تلاش اور وافر آمدنی کے حصول کی خاطر دیار غیر کا سفر کوئی آج کی بات تو
نہیں ہے ۔ نصف صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے تب سے یہ سلسلہ جاری ہے جب دیس
میں دودھ دہی کی نہریں بہہ رہی تھیں ۔ تب کیا وجہ تھی سعودیہ اور خلیجی
ریاستوں کے ریگزاروں کی خاک چھاننے کی؟ ساری ذمہ داری کسی ایک کے سر لگا دی
جاتی تھی ۔ ایک بڑا بھائی اور چھ چھ آٹھ آٹھ بہنوں کی شادیاں کرنا اُسی کا
فرض ہوتا تھا ۔ اب اپنے ابا کے کیے دھرے سے نمٹنے کا ایک ممکنہ حل یہی ہوتا
تھا کہ ولی عہد بہادر اپنے تاج و تخت کو لات مار کر سعودیہ اور امارات کے
صحراؤں کی طرف چل نکلیں ۔ جس کا داؤ لگتا تھا وہ مغربی ممالک تک بھی رسائی
کے لئے قسمت آزمائی کرتا تھا ۔
متوسط و نیم متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اوور سیز کے اہداف میں ماں باپ
کو گھر بنا کر دینا اور بہن بھائیوں کی شادیاں کرنا سرفہرست ہوتا ہے اور اس
کے بعد بھی اُن کی کفالت اور مالی معاونت بھی ایجنڈے کا حصہ ہوتی ہے جس کی
وجہ سے پردیس میں اپنا خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود اس قربانی کے بکرے کو
خود اپنی زندگی جینے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ عمر اور صحت کی پونجی گنوانے سے
پہلے نہ تو مستقل واپس آ سکتا ہے اور نہ ہی بیوی کو پاس بلا سکتا ہے خون کے
رشتے خون چوس لیتے ہیں ۔ یہ وہ جونکیں ہوتی ہیں جنہیں پردیسی بکرا اپنی
فیملی لائف کی قیمت پر خوش رکھنے کی کوششوں میں اپنے ساتھ اپنی بیوی کی بھی
جوانی خاک میں ملا دیتا ہے ۔ کسی کو احساس تک نہیں ہوتا کہ اُن کے گھر
بساتے بساتے اِس نے خود اپنی آخرت برباد کر لی ہے ۔ کیا اپنی منکوحہ کے
مجرموں کا کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا؟ جو کہنے کو سہاگ ہوتے ہیں مگر بیویاں
اِن کی زندگی ہی میں بیوگی کا مزہ چکھتی ہیں ۔
|