معاف کرنا: سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں

اسلام ایک ایسا دین ہے جو محبت، اخوت، رواداری اور درگزر کا درس دیتا ہے۔ ہمارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سراپا رحمت اور شفقت تھی۔ آپ نے نہ صرف معاف کرنے کا درس دیا بلکہ اپنی عملی زندگی سے اس کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں۔ آج کے معاشرے میں جہاں نفرت، انتقام اور حسد بڑھتے جا رہے ہیں، وہاں ہمیں سیرتِ نبوی سے سبق لے کر معاف کرنے کی عادت اپنانا ہوگی تاکہ ہم اپنے معاشرے میں بھائی چارے، سکون اور محبت کو فروغ دے سکیں۔


فتح مکہ: معافی کی عظیم مثال

فتح مکہ اسلام کی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو آپ کے سامنے وہی لوگ تھے جنہوں نے آپ کو اور آپ کے صحابہ کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا، وطن سے نکالا، اور کئی جنگیں مسلط کیں۔ اگر آپ چاہتے تو ان سب سے بدلہ لے سکتے تھے، مگر آپ نے فرمایا:

"آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔"

یہ وہ معافی تھی جس نے دشمنوں کے دل جیت لیے اور اسلام کی سچائی کو دلوں میں اتار دیا۔


حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کو معاف کرنا

حضرت وحشی بن حرب وہ شخص تھے جنہوں نے احد کے میدان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شہادت کا شدید صدمہ تھا۔ مگر جب حضرت وحشی رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے مدینہ آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود دل کی گہرائیوں میں چبھنے والے اس غم کے، انہیں معاف کر دیا۔ آپ نے فرمایا:

"اگر تم سے ممکن ہو تو میرے سامنے نہ آیا کرو، کیونکہ مجھے اپنے چچا کی شہادت کا غم یاد آ جاتا ہے۔"

لیکن آپ نے ان پر کوئی سزا نہ دی، بلکہ انہیں عزت دی، جو معاف کرنے والے نبی کی عظمت کا مظہر ہے۔


طائف کا واقعہ: صبر و درگزر کی انتہا

جب مکہ کے کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید اذیتیں پہنچائیں تو آپ طائف تشریف لے گئے۔ لیکن وہاں نہ صرف آپ کی بات کو رد کیا گیا بلکہ شہر کے بچوں اور اوباشوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا گیا، جو آپ پر پتھر برساتے رہے۔ آپ کے نعلین خون سے بھر گئے اور آپ جسمانی و ذہنی اذیت میں باغ میں جا کر پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

اسی لمحے حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور عرض کیا کہ اگر آپ حکم دیں تو دونوں پہاڑوں کو ان پر گرا دیا جائے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"نہیں، میں یہ امید رکھتا ہوں کہ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کو ایک مانیں گے۔"

یہ وہ درگزر ہے جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

کوڑا پھینکنے والی عورت کا واقعہ

ایک روزانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوڑا پھینکنے والی یہودن ایک دن غیر حاضر رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہے۔ آپ عیادت کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے۔ اس حسنِ سلوک سے عورت اتنی متاثر ہوئی کہ اسلام قبول کر لیا۔ یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ معاف کرنا اور خیر خواہی دلوں کو بدل دیتی ہے۔

قرآنی حکم: معاف کرو تاکہ تمہیں بھی معافی ملے

"اور تم میں سے جو صاحبِ فضل و وسعت ہیں، وہ قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دیں۔ انہیں معاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے؟ اور اللہ بہت بخشنے والا، مہربان ہے۔"
(سورۃ النور، آیت 22)


معاف کرنے سے معاشرتی فائدے

دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے

معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے

اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے

رنجشیں ختم ہو جاتی ہیں

انسان روحانی طور پر بلند ہوتا ہے

مشہور اقوال برائے معافی (Forgiveness Quotes)

"معاف کرنا بہادروں کا کام ہے۔"
— مہاتما گاندھی

"جو دوسروں کو معاف نہیں کر سکتا، وہ کبھی بھی حقیقی سکون حاصل نہیں کر سکتا۔"
— نیلسن منڈیلا

"کمزور کبھی معاف نہیں کرتے۔ معاف کرنا طاقتور انسان کی صفت ہے۔"
— مہاتما گاندھی

"معافی وہ خوشبو ہے جو ایک پھول اس پاؤں کو دیتا ہے جس نے اسے کچلا ہو۔"
— مارک ٹوئن

"جس نے معاف کر دیا، اُس نے خود کو آزاد کر لیا۔"
— لیو ٹالسٹائی

نتیجہ

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ پرامن، محبت بھرا اور مضبوط ہو، تو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اپنانا ہوگا۔ معاف کرنا کمزوری نہیں بلکہ ایک باوقار انسان کی پہچان ہے۔ آئیں! ہم بھی دوسروں کی غلطیوں کو درگزر کرنا سیکھیں، تاکہ ہمارے درمیان بھائی چارہ اور ہمدردی پروان چڑھے — اور سب سے بڑھ کر، اللہ کی معافی ہمارے نصیب میں ہو۔


 

Iftikhar Ahmed
About the Author: Iftikhar Ahmed Read More Articles by Iftikhar Ahmed: 116 Articles with 54395 views I am retired government officer of 17 grade.. View More