اِنسانوں کے اِس بازار میں، خالص
اِنسان نہایت قلیل ہیں۔ مانتا ہوں یہ انسان نما ضرور مگر انسان نہیں
درحقیقت فقط بیوپاری ہیں۔ یہ اُستاد، طالبِعلم، وکیل، ڈاکٹر، انجینئر،
ملازمین، مزدور، مذہبی و سیاسی رہنما غرض تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والا ہر
اِک فرد اصل میں بیوپاری ہے جس میں میں اور تم بھی شامل ہیں۔ ہاں۔۔۔ تم
مانو یا نہ مانو۔۔۔ میں اور تُم بھی بزنس مین ہیں۔ ہماری زندگیوں کا مقصد
صرف پیسہ کمانا ہے یہی وجہ ہے کہ میں جب سے انٹرنیٹ پر بلاگنگ کر رہا ہوں،
بے شمار افراد نے مجھ سے ایک ہی سوال کیا کہ کیا اِس بلاگنگ سے کوئی آمدنی
بھی ہوتی ہے؟ میرا جواب ہمیشہ نفی میں رہا۔ جس پر دوسرا سوال جو میرے منہ
پر مارا جاتا وہ یہ کہ پھر آپ کیوں یہاں اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں؟ آپکو
اِس سے کیا ملتا ہے؟ ہاں۔۔۔ ہماری زندگیوں کا مقصد تو صرف پیسہ کمانا ہے۔
ہم کیا جانیں یہ دِلی سکون، دِلی خوشی، محبت، ہمدردی، جذبہ، ایمان اور شوق
کیا ہوتا ہے۔
ایک بچے کی ہی مثال لے لیجئیے جو ابھی مکمل بولنے کے قابل بھی نہیں ہوپاتا
لیکن اُسکے دِماغ میں یہ بات ٹھونس دی جاتی ہے کہ تم نے ڈاکٹر بننا ہے، یہی
تمہارا مقصدِ حیات ہے، اِسی میں تمہاری فلاح ہے۔ تم نے پڑھائی اور محنت کی
صورت میں خوب سرمایہ کاری کرنی ہے تبھی اچھے ڈاکٹر بنو گے۔ اور جتنا گُڑھ
ڈالو اتنا میٹھا کے مصداق جتنی سرمایہ کاری کرو گے اُتنا ہی نفع۔۔۔ گویا
بچے کو بچپن سے ہی بیوپار کے اُصول سکھا دئیے جاتے ہیں۔ یہی بچہ بڑا ہوکر
ڈاکٹر بنتا ہے، اپنا ہسپتال نما کارخانہ بنا لیتا ہے۔ اب اِس کارخانہ میں
صرف وہی علاج پائے گا جو فیس بھرے گا۔ ہاں۔۔۔ کوئی مرتا ہے تو مرے۔۔۔ علاج
تبھی ہوگا جب معاوضہ ملے گا۔ یہی بچہ اگر اُستاد بن جاتا ہے تو سکول نما
کارخانہ، جہاں کسی غریب کا بچہ قطعاً تعلیم نہیں پاسکتا۔۔۔ فیس بھرو فیس۔۔۔
یہی بچہ عالم ہے تو علم کا تاجر، قاضی ہے تو انصاف کا تاجر، حاکم ہے تو
رعایا اور اُنکے کے حقوق کا تاجر، سپاہی ہے تو ریاست کے امن کا تاجر، فوجی
افسر ہے تو سرحدوں کا تاجر اور تاجر بھی ایسا کہ جسکے بنیادی ہتھیار رشوت،
سفارش، جھوٹ، فراڈ اور بددیانتی ہیں۔ تبھی میں کہہ رہا ہوں کہ ہم انسان نما
ضرور مگر انسان نہیں، درحقیقت فقط بیوپاری ہیں۔
انسان تو وہ ہیں جنہیں انسانیت کے تقاضوں کی نہ صرف پہچان ہے بلکہ وہ
باخوبی اِن تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں۔ انسان اتنا خود غرض، لالچی، بےغیرت
اور بےحس نہیں ہوتا جتنے آج ہم ہوچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان مشرق سے
لے کر مغرب تک ہر جانب ظلم کی چکی میں پِس رہے ہیں۔ میرے کتنے ہی بےگناہ
مسلمان بہن بھائی کفار کی قید میں اُنکے مظالم سہ رہے ہیں۔ اور قید بھی
گوانتا ناموبے جیسی جہاں وہ وہ ظُلم ڈھائے جاتے ہیں کہ جسکا تصور ہی لرزا
دینے کیلئے کافی ہے۔ ہاں وہ میری ہی قوم کے باشندے ہیں جنہیں برہنہ کر کے
برف خانوں میں لٹا دیا جاتا ہے، کتوں کے سامنے پھینک دیا جاتا ہے، پانی کی
بجائے خون اور نہ جانے کیا کچھ پلایا جاتا ہے، میری ماؤں اور بہنوں کی
عزتیں سینکڑوں مرتبہ لوٹی جاتی ہیں، وہ روز روز کے مرنے سے تنگ آکر اِک ہی
مرتبہ مرنا چاہتے ہیں۔ اُنہیں شکوہ ہے ہم سے کہ اُنکے مسلمان بہن بھائی
بےخبر سو رہے ہیں۔ مگر اُنہیں کیا بتلاؤں کہ ہم تو انسان ہی نہیں رہے۔ پھر
ہمارے پاس اتنا وقت کہاں کہ کسی کیلئے سوچیں۔ وہ مسلمان جو اللہ کی مدد کی
اُمید کا ہتھیار لے کر تمہاری مدد کیلئے اپنے گھروں کو چھوڑ ڈالتے ہیں، ہم
تو اُنہیں دہشت گرد اور بیوقوف تصور کرتے ہیں کہ اُنہیں اِس سے کچھ حاصل
نہیں۔ ہمارا مذہب، ہمارا ایمان، ہمارا خدا اور ہمارا سب کچھ تو صرف پیسہ ہے
پیسہ۔۔۔ ہم تو راتوں کو سونے کی بجائے یہ سوچتے ہوئے گزار دیتے ہیں کہ کیسے
اپنا محل بنا لیا جائے، کیسے لمبی گاڑی آجائے، کیسے بڑا عہدہ مل جائے، کیسے
فرعون جیسی شان مل جائے، ہم تو زمین کے ایک ٹکڑے کی خاطر اپنی ماں کو
گالیاں دے جاتے ہیں، باپ کو جیتا جی مار دیتے ہیں۔۔۔ ہاں۔۔۔ کیا کیا بتلاؤں
تمہیں۔۔۔ کہنے کو تو بہت کچھ ہے۔۔۔ مگر تم صرف یہ مان لو کہ ہم انسان نما
ضرور مگر انسان نہیں، درحقیقت فقط بیوپاری ہیں۔
آؤ ۔۔۔ چند لمحوں کیلئے ۔۔۔ ذرا دماغ پر زور دو ۔۔۔ اِس بازار کے شوروغل سے
ذرا پرے ہٹ کے، اپنے دماغ سے اپنی کاروباری زندگی کے نفع و نقصان، لالچ و
خود غرضی کے پردوں کو ہٹاؤ، ذرا ضمیر کی اَکھیوں کو کھولو اور سوچو کہ تم
اِس دُنیا میں کیوں آئے؟ کیا تمہارے یہاں آنے کا کوئی مقصد تھا؟ کب تک رہنا
ہے یہاں؟ آخر تمہاری اِس زندگی کا انجام کیا ہے؟ یہاں سے جاتے ہوئے ساتھ
کیا لے کر جاؤ گے؟ کبھی سوچا کیا یہ تم نے؟ اگر نہیں سوچا تو بخدا آج سوچ
لو۔۔۔ مان لو۔۔۔ مان لو۔۔۔ مان لو۔۔۔ تمہاری زندگیوں کا وہ مقصد نہیں ہے جو
تم بنا بیٹھے ہو۔ ابھی بھی وقت ہے۔۔۔ اِس بیوپار کو چھوڑو اور انسان بن
جاؤ۔ ہاں ۔ ۔ ۔ انسان بن جاؤ!
https://adilbaiya.blogspot.com |