پانچ سو کا نوٹ

ایک پانچ سو کا نوٹ ہم نے بھی چھپا کے رکھا تھا۔اپنی سمجھ میں بڑاسیانا پن کیا تھا۔کہ بچایا ہوا پیسہ کسی آڑے وقت میں کام آجائے گا۔دن مہینے اور سال گزرتے چلے گئے ۔ وقت کے تہ درتہ غبار میں اس نوٹ کی یاد بھی گہری اور گہری دفن ہوتی چلی گئی۔اور پھر بالکل ہی بھول گئے۔اب جو اچانک شور اٹھا کہ پانچ سو کا بڑا نوٹ بند ہو گیا ۔تو اس بھولے ہوئے نوٹ کی یاد جو ذہن کے کسی ویران گوشے میں مینڈک کی طرح چھپی بیٹھی تھی۔ اچھل کر اچانک باہر آگئی۔کہ پانچ سو کابڑا نوٹ تو میں نے بھی رکھا تھا ۔چھپا کر۔ پر کہاں؟ یہ یاد نہیں آرہا تھا۔بڑی الجھن ہورہی تھی۔جھنجلاہٹ بڑھی اور دماغ میں پہلے ہتھوڑیاں چلیں پھر ہتھوڑے برسنے لگے۔تشویش بڑھ کر بے چینی اوربے کلی کی صورت اختیار کر گئی۔اب تو مجبوری ہو گئی کہ اسے تلاش کریں۔

پرانے کاٹھ کباڑ میں ،الماریوں میں،آگے پیچھے،کتابوں کے انبارمیں،شوق تجسس میں دو اڑھائی گھنٹے گزرتے محسوس ہی نہ ہوئے۔جویندہ یا بندہ آخر محنت رنگ لائی۔پرانے اخباروں کے پلندے کے نیچے گوہرمقصود گھنگور گھٹا چھائی اندھیری رات میں اچانک چودھویں کا چاندبن کر نکل آیا۔ابھی اس کامرانی سے چہرے پر رونق اور روشنی آئی ہی تھی کہ خوشی کی لہر ایک لمحہ ٹھہرے بغیر ایک جھپاکے سے گذر گئی۔سیاہ بادل نے چاند کو پھر سے ڈھانپ لیا۔آنکھوں کے چراغ جو روشن ہوئے تھے وہ بجھ کرچہرے کو ویران اور دھواں دھواں کر گئے۔کیفیت کچھ ایسی ہو گئی جیسے تیز چلتی گاڑی کو بریک لگا ہو۔یہ نوٹ تو بند ہو چکا ہے۔اتنا خوش ہو نے کی کیا بات ہے؟ کچھ دیر نڈھال جسم کے ساتھ بے حس و حرکت کھڑا رہا ۔ پھرجب جسم و جان کا رشتہ بحال ہوا تو سنا، اندر کے آدمی کی آواز آ رہی تھی کہ ارے نادان انسان یہ کوئی 1948 تو ہے نہیں کہ اس پانچ سو روپے کے نوٹ کی قیمت پانچ سو تولے چاندی کے برابر ہو۔اور نہ یہ 1965ءہے کہ اس وقت روپیہ 100 سو پیسے کا ہو تا تھا۔اور اس ایک پیسے سے فقیر راضی ہوجایا کرتا تھا۔بھارت کے ساتھ جنگ میں اپیل کی گئی ؛ایک ٹیڈی پیسہ ایک ٹینک؛ اور دس کروڑ افراد کی زندہ قوم نے بھارت کے مقابلہ میں ٹینک ہی ٹینک کھڑے کر دئے۔اور یہ 1973ء بھی نہیں ہے۔کہ تم دیہاڑی کے 5 روپیہ کماﺅ اور شام کو گھر واپسی پر پورے راشن کے ساتھ بچوں کے لئے ’چیزی‘ دس بارہ آنے کے بارہ چودہ کیلے مالٹے بھی لیتے جاﺅ۔یہ نوٹ تمہارے پاس ہوتا تو ایک بھینس خرید لیتے۔خالص دودھ والی۔میرے نادان دوست بھول جاﺅ کاغذ کے اس بیکار ٹکڑے کو۔چلو فرض کریں یہ جو کاغذ کا پرزہ تمہارے پاس ہے یہ پانچ سو میںچل جائے گا۔ذرا باہر تو نکلیں بازار میں۔اس بھاری رقم میں ایک اچھی ہانڈی کا سامان ہی لے آئیں۔یہ 2011ء ہے میرے بھائی۔نہ ہم وہ ہیں نہ ہمارے حکمران ان جیسے۔صدر ایوب نے چینی سوا روپیہ سے بڑھا کر ڈیڑھ روپیہ کی تھی۔لوگوں نے اس کا جلوس نکال دیا تھا۔آج 39 روپیہ سے 75 پر چلی جاتی ہے۔ جوں تک نہیں رینگتی۔

جیسی قوم ویسے حکمران۔جیسے بے وزن حکمران ویسی بے وزن کرنسی۔1948ءکاایک تولہ خالص چاندی کا روپیہ ( تصور میں ہی دیکھیں ) اور آج کا ایلمونیم ساختہ روپیہ پھونک سے اڑا کر دیکھیں۔اب ہم کہیں کہ یہ سب یوں کیوں ہے؟ توآنکھیں بند کیجیے۔اور باری باری 48ء 65ء اور73ءکو تصورمیں لائیں۔اب آنکھیں کھول دیں اور اپنے ارد گرد نظر گھما کر دیکھیں۔ہر طرف آپا دھاپی ،لوٹ کھسوٹ ، بے ایمانی کا دور دورہ دکھائی دے گا۔منافقت نے ایک ایک چہرے پر کئی کئی چہرے سجا رکھے ہیں۔جدھر دیکھیں ضمیر مردہ اور بے حسی طاری ہے۔اب اپنے گریبان میںبھی جھانک کر اپنے آپ سے پوچھیں کہ میںاللہ کا کتنا فرمانبردار ہوں اور سوچیںحکمران بھی تو ہمیں میں سے ہیں۔ اللہ تعالی جب کسی قوم سے ناراض ہوتاہے۔تو اسی قوم میں سے بدترین آدمی کوان پر مسلط کردیتا ہے۔اور وہ انہیں خوب خوب رگڑا دیتا ہے۔
 
Rao Muhammad Jamil
About the Author: Rao Muhammad Jamil Read More Articles by Rao Muhammad Jamil: 16 Articles with 12276 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.